جناب وزیراعظم! تقریر نہیں عمل درکار ہے

وزیراعظم محمد شہبازشریف کے منہ میں گھی شکر… جنہوں نے وطنِ عزیز سے بدعنوانی کے خاتمے کا عزمِ صمیم ظاہر کیا ہے۔ جناب وزیراعظم نے وفاقی دارالحکومت میں ٹیکس وصولی میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے افسران کی کارکردگی کو سراہنے کے لیے منعقدہ تقریب میں خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم اچھے افسران کو انعام دیں گے لیکن بدعنوان عناصر اور بدعنوانی نہ روکنے والے افسروں کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا، وہ کام کریں یا گھر جائیں۔ واجبات وصولیوں کا ہدف کم ہے اور ہم قرض لینے پر مجبور ہیں۔ خراب کارکردگی والے افسروں کو عہدوں پر رہنے کا کوئی حق نہیں… پاکستان کی ترقی اور خوش حالی کے لیے جن افسروں نے انتہائی ایمان داری، بلاخوف اور دیانت داری سے کام کیا ہے، ان پر پوری قوم کو فخر ہے۔ ملک کو جو چیلنج درپیش ہیں ان میں ایک سرمائے کی وصولی ہے، پاکستان کی واجب الادا رقوم کا حجم بہت زیادہ ہے جب کہ اس کے مقابل سالانہ وصولیوں کا ہدف خاصا کم ہے۔ وزیراعظم نے وضاحت کی کہ ایک اندازے کے مطابق تین چار گنا زیادہ رقوم قومی خزانے میں آنا چاہیے تھیں مگر یہ بدعنوانی، فراڈ، لالچ اور حرص کی نذر ہورہی ہیں، یہی سبب ہے کہ ہم آئی ایم ایف سے قرضے لینے اور ان کی شرائط پوری کرنے پر مجبور ہیں۔

وزیراعظم نے اپنے خطاب میں جو نکات اٹھائے ہیں ان سے اختلاف کی بہت کم گنجائش موجود ہے، مگر اس امر واقع سے بھی صرفِ نظر ممکن نہیں کہ ہمارے اربابِ اقتدار اکثر و بیشتر گفتار کے غازی تو بنتے نظر آتے ہیں مگر کردار کے غازی بننا کم ہی کسی کے نصیب میں ہوتا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف سمیت کوئی بھی اس تاریخی حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ گزشتہ چالیس برس سے زائد عرصے سے جو پاکستان کی عمر کے نصف سے زائد ہے، شریف خاندان اقتدار کے کھیل کا حصہ چلا آرہا ہے، اور یہ بھی ناقابلِ تردید سچ ہے کہ اس دوران پاکستان میں بدعنوانی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف آج جس بدعنوانی کے خاتمے کی خواہش کا اظہار کررہے ہیں، اس نے شریف خاندان کے اقتدار ہی میں فروغ اور عروج پایا ہے۔ اس طویل اور بار بار کے اقتدار کے دوران اگر کسی بدعنوان افسر یا گروہ کو نشانِ عبرت بنایا گیا ہو تو وزیراعظم آگاہ فرمائیں تاکہ قوم کو اُن کے الفاظ پر اعتماد اور یقین میں اضافہ ہو۔ دوسری جانب یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ وزیراعظم جس ہستی کو کل تک مسٹر دس فیصد اور بعد ازاں مسٹر ایک سو دس فیصد کے القابات سے نوازا کرتے تھے اور جس کے گلے میں پھندا ڈال کر گلیوں میں گھسیٹنے اور قومی خزانے کی لوٹی ہوئی دولت اس کا پیٹ پھاڑ کر نکلوانے کا یقین قوم کو دلایا کرتے تھے، آج وہی ہستی جناب وزیراعظم کی محبوب اور شریکِ اقتدار قرار پا چکی ہے۔ اسی طرح ایم کیو ایم نامی گروہ کے بارے میں جو کچھ وزیراعظم اور اُن کے ساتھی فرمایا کرتے تھے وہ بھی ابھی تک لوگوں کے حافظے میں محفوظ ہے، مگر آج وہی گروہ ان کی کابینہ کا حصہ ہے۔ ان حقائق کے باوجود وزیراعظم معلوم نہیں آج پھر کس طرح بدعنوانی ختم کرنے کے دعوے کررہے ہیں جب کہ عملاً وہ اور اُن کے اتحادی انسدادِ بدعنوانی کے لیے بنائے گئے ’’قومی احتساب بیورو‘‘ کے خلاف قومی اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے، اسے عضوِ معطل بنا چکے ہیں… اس کے باوجود دعویٰ یہی ہے کہ کسی بدعنوان کو برداشت نہیں کیا جائے گا!

وزیراعظم سمیت اربابِ اقتدار و اختیار آج کل سعودی سرمایہ کاروں کی پاکستان آمد پر اس طرح جشن منا رہے ہیں گویا کوئی بہت بڑا معرکہ سر کرلیا ہو، حالانکہ ان سرمایہ کاروں کی پاکستان میں سرمایہ کاری کو عملی شکل میں سامنے آتے معلوم نہیں کتنا عرصہ لگے گا، فی الوقت اس کی حیثیت ’دور کے ڈھول سہانے‘ سے زیادہ کچھ نہیں۔ زمینی حقائق کو پیشِ نظر رکھیں تو بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان لانے سے کہیں آسان کام یہ تھا کہ سب سے پہلے ہمارا برسرِاقتدار ’’شریف خاندان‘‘ بیرونِ ملک سے اپنا سرمایہ لاکر اپنے وطن میں سرمایہ کاری کرتا جس سے قوم کا اعتماد بھی بحال ہوتا اور اُن پاکستانی اہلِ سرمایہ کا بھی، جو پاکستان میں موجودہ حالات کے سبب اپنے کارخانے بند کرکے اپنا سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں جس کے سبب پاکستان میں بے روزگاری اور غربت میں نہایت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور ہمیں بار بار نادہندگی کی آفت کی نوید سنائی جاتی ہے۔ وزیراعظم محمد شہبازشریف اندرون اور بیرونِ ملک تقریروں میں پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول کے حق میں دلائل کا انبار لگانے کے بجائے اگر محض ’شریف خاندان‘ اور اپنے دائیں بائیں موجود سرمایہ دار خاندانوں کا بیرونِ ملک موجود تمام سرمایہ پاکستان لانے کا اعلان کردیں تو محض اس ایک مثبت قدم کے اس قدر دوررس اثرات سامنے آئیں گے کہ جناب وزیراعظم کو کشکول بدست آئی ایم ایف کے حضور حاضری دینا پڑے گی اور نہ کاسۂ گدائی لیے چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک کی حکومتوں اور سرمایہ کاروں کی منت سماجت کی حاجت باقی رہے گی۔ (حامد ریاض ڈوگر)