روبرو

محمود شام کہنہ مشق، تجربہ کار اور بزرگ صحافی ہیں جنہوں نے بھرپور اور اہم صحافتی زندگی بسر کی۔ نصف صدی سے زائد عرصہ قبل وہ ہفت روزہ اخبار جہاں میں اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے بے شمار سیاسی اور مذہبی قائدین سے انٹرویو کیے۔ ”روبرو“ مصنف کے سیاسی راہنمائوں سے پچاس سال کے دوران کیے گئے انٹرویوز کا خوب صورت اور انتہائی اہم انتخاب ہے۔

اس کتاب میں 53انٹرویوز شامل ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں جانب کے سیاست دانوں کے انٹرویوز محض رسمی نہیں ہیں، ان میں ہماری ساری تاریخ کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا گیا ہے۔

محمود شام نے اپنے 25 صفحات پر مشتمل پیش لفظ میں اپنی ”پیاس“ تیس برس کی بیان کی ہے۔ محمود شام کو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اکثر محفلوں اور حلقوں میں سیاست اور سیاست دانوں کا ذکر انتہائی حقارت اور ناپسندیدگی سے کیا جاتا ہے۔

جو اہم شخصیات اس کتاب میں شامل ہیں ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں: ذوالفقار علی بھٹو، مولانا کوثر نیازی، بے نظیر بھٹو، خان عبدالغفار خان، میاں طفیل محمد، ائر مارشل اصغر خان، مولوی فرید احمد، مولانا غوث ہزاروی، مفتی محمود، ڈاکٹر مبشر حسن، حیات محمد خان شیرپائو، غلام مصطفیٰ جتوئی، بیگم نصرت بھٹو، معراج محمد خان، نواب اکبر بگٹی، نواب آف قلات، حنیف رامے، مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک، سردار شیرباز مزاری اور دیگر بیسیوں معروف اہم راہنما۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ’’روبرو‘‘ ایک حوالے کی کتاب ہے۔ پیش لفظ میں محمود شام لکھتے ہیں ”سیاست میں جو انحطاط آیا ہے، وہ سیاسی انٹرویوز اور سیاسی تقریروں میں بھی آیا ہے۔ سیاسی انٹرویوز ماضی، حال اور مستقبل کا مرقع ہوتے تھے۔ انٹرویو لینے والا بھی پہلے مطالعے کا رسیا، حالات کے ہر پہلو پر نظر رکھنے والا ہوتا تھا۔ وہ ہر پہلو سے سوال کرتا تھا، ہر زاویے سے وار کرتا تھا۔ واقعات کے خفیہ گوشوں اور اَن کہی کہانیوں کو سامنے لانے پر مجبور کرتا تھا۔ انٹرویو دینے والے کو لطف بھی آتا تھا اور پہلو بچانے میں مشکل بھی پیش آتی تھی۔ اب اخبارات و رسائل بھی بہت زیادہ ہوگئے ہیں، اخبار نویس بھی اسی طرح جھاڑیوں کی بڑھتے جارہے ہیں، ایک کیسٹ ریکارڈر لیا اور انٹرویو کرنے پہنچ گئے۔ صاحب ِانٹرویو کا نہ حدود اربعہ معلوم ہوتا ہے، نہ اُس کی پارٹی کے بارے میں کچھ معلومات ہوتی ہیں۔ سوالات کسی اور سے بنوالیے، ٹیپ ریکارڈر کھولا اور شروع ہوگئے۔ جواب میں دیے گئے حوالوں، ذکر کیے گئے ناموں سے کوئی شناسائی نہیں ہوتی، اس لیے سوال آگے بڑھایا جاتا ہے، نہ ضمنی سوالات کیے جاتے ہیں۔

انٹرویو کے آخر میں پوچھا جاتا ہے: قوم کے نام کوئی پیغام… اور بس۔ ٹیپ ریکارڈر بھی کسی کے حوالے کردیا جاتا ہے، وہ اسے کاغذ پر اتار دیتا ہے اور انٹرویو چھپ جاتا ہے۔ ایسے انٹرویوز سے نہ سیاست آگے بڑھتی ہے، نہ قارئین کے پلّے کچھ پڑتا ہے۔“

”ایک علمی دیوانہ“ کے عنوان سے سعد اللہ جان برق لکھتے ہیں: ”علامہ عبدالستار عاصم ایک دیوانے کا نام ہے، یہ اُن دیوانوں میں سے ایک ہیں کہ ہوتے تو دیوانے ہیں لیکن بکار خویش، ہوشیار ہوتے ہیں۔ اور جب فرزانوں میں ایسا کوئی دیوانہ پیدا ہوتا ہے تو وہ کارنامے کر دکھاتا ہے جو فرزانے کبھی نہیں کرپاتے، کیوں کہ یہ عشق کے پرستار ہوتے ہیں اور عشق:

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشا لبِ بام ابھی“

مزید لکھتے ہیں: ”علامہ عبدالستار عاصم کی دیوانگی تو یہ ہے کہ ایسے وقت میں اہلِ کتاب بن رہے ہیں جب لوگوں کے خیال میں معاشرے سے کتاب کو نکال باہر کیا جارہا ہے، اور یہ ہمارے علامہ عبدالستار عاصم وہ دیوانے ہیں جو بکار خویش ہوشیار ہوتے ہیں۔ کتابیں ایسی چھاپتے ہیں کہ ان میں خود کو پڑھوانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اوپر سے ان کا ادارہ قلم فائونڈیشن کتابیں اتنی خوب صورت چھاپتا ہے کہ نظر کو کھینچ لیتی ہیں، اور جب نظریں کھینچ لیتی ہیں تو پھر کتاب کسی سے خود کو پڑھوائے بغیر نہیں رہتی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ’’روبرو‘‘ ایک حوالے کی کتاب ہے جس میں 1969ء سے 1977ء تک کی سیاسی تاریخ جیتی جاگتی نظر آتی ہے۔“

جناب محمود شام کی خدمت میں گزارش ہے کہ اگر سیاسی راہنما اب علم و آگہی اور کتاب سے بیگانہ ہوگئے ہیں تو صحافی حضرات بھی فلسفہ، سیاسیات اور کتاب سے برگشتہ خاطر ہیں۔ اب ان کی ترجیحات بھی نئے ماڈل کی گاڑیاں اور بنگلے ہی ہیں۔ زوال کا آسیب ہر شعبہ زندگی پر برابر طاری ہے۔

جناب محمود شام بھلے وقتوں کی ایک نشانی ہیں جب صحافی حضرات صاحبِ مطالعہ و مشاہدہ ہونے کے ساتھ ادیب بھی ہوا کرتے تھے۔ 632 صفحات کی اس کتاب کو چھاپنا بلاشبہ علامہ عبدالستار عاصم کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ خوب صورت سرورق کے ساتھ کتاب عمدہ شائع ہوئی ہے۔