عالمی شہرت کے حامل مفکر و مدبرِ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی غلبۂ اسلام کے لیے برپا کردہ تحریک کا سفر پوری آن، بان و شان کے ساتھ جاری ہے۔ اس کے بانی مفسرِ قرآن تھے تو آج پاکستان میں اس کی نئی قیادت حافظِ قرآن ہے۔ سید مودودیؒ، میاں طفیل محمدؒ، قاضی حسین احمدؒ، سید منور حسنؒ اور محترم سراج الحق کے بعد انجینئر حافظ نعیم الرحمن جماعت اسلامی پاکستان کے چھٹے امیر ہیں۔ جماعت اسلامی میں 1941ء سے 2024ء تک ہر پانچ سال بعد امیر کا انتخاب باقاعدگی سے ہوا ہے۔ تبدیلیِ قیادت کا یہ عمل معمولی نہیں ہے، جماعت اسلامی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ مفسرِقرآن سے لے کر حافظِ قرآن تک اس کی قیادت کی تبدیلی صحت مند جمہوری طریقے سے ہوتی آرہی ہے۔ پاکستان کے سیاسی ماحول کی درستی کے لیے اس انتخابی عمل کی ہمارے ذرائع ابلاغ کو زیادہ تشہیر کرنی چاہیے تھی اور حافظ نعیم الرحمن کی حلف برداری و افتتاحی خطاب کو براہِ راست دکھانا چاہیے تھا تاکہ خاندانی اور اشرافیہ کی سیاسی جماعتوں کو بھی آئین و جمہوریت کی اہمیت کا احساس دلایا جاتا، لیکن اس کے باوجود یہ خوش آئند ہے کہ کوئی اخبار یا ٹی وی چینل جماعت اسلامی میں قیادت کے انتخاب کی خبروں کو نظرانداز نہیں کرسکا، کئی چینلز نے تجزیے و تبصرے بھی پیش کیے اور کئی اخبارات میں مضامین و کالم کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
نومنتخب امیر حافظ نعیم الرحمن ایک متوسط علم دوست و دین دار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی پیدائش1972ء میں سندھ کے تاریخی اور دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں ہوئی۔ ان کے والدین ہندوستان کے علاقے علی گڑھ سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ ان کے والد ِ مرحوم زاہد خان شیروانی نے ایثار و قربانی کی شاندار مثالیں چھوڑی ہیں۔ وہ رزقِ حلال کے حصول کے لیے حیدرآباد کے صدر ڈاک خانہ (GPO)کے سامنے میز کرسی لگا کر ’عرضی نویسی‘ کیا کرتے تھے، کچھ اسٹیشنری کا کاروبار بھی تھا، جِلد سازی بھی کرلیا کرتے تھے۔ وہ صبر و قناعت کا پیکر تھے۔ انہوں نے جس طرح شبانہ روز محنت و مشقت اورطیب طریقے سے کماکر اپنی اولاد کی کفالت کی اور سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے انہیں زیورِ علم سے آراستہ کیا اس کا آج کی نسل تصور بھی نہیں کرسکتی، تاہم اس طرح کی روشن مثالیں اور بھی گھرانوں کی ہیں۔ اِس وقت ہم امیر محترم حافظ نعیم الرحمن کا مختصر تعارف کرا رہے ہیں۔ موصوف چار بھائیوں اور تین بہنوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ ان کا خاندان لطیف آباد یونٹ نمبر 10 میں رہائش پذیر تھا۔ انہوں نے جامع مسجد یونٹ نمبر10کے دارالعلوم سے حفظ کیا، پرائمری تعلیم نورالاسلام اسکول نمبر10 اور میٹرک علامہ اقبال ہائی اسکول لطیف آباد یونٹ نمبر9 سے کیا۔ بڑے بھائی ڈاکٹر سعیدالظفر دورِ طالب علمی میں لیاقت میڈیکل کالج میں اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن رہے ہیں، کراچی میں مقیم ہیں اور اچھے مسیحا ہیں۔ ان سے چھوٹے ڈاکٹر فریدالظفر بھی طالب علم رہنما رہے ہیں، مخصوص حالات کی وجہ سے وہ مہاجر اتحاد تحریک سے وابستہ تھے لیکن جمعیت کے رکن ڈاکٹر محمود غوث اعجازی اور بعض دوستوں کی کوشش سے وہ اسلامی جمعیت طلبہ کی جانب راغب ہوگئے تھے، حیدرآباد میں اِن دنوں اپنا ایک ڈینٹل کلینک چلارہے ہیں۔ تیسرے بھائی سہیل خان بھی حصولِ معاش کے لیے کراچی میں مقیم ہیں۔ ڈاکٹر سعیدالظفر کو جب کراچی میں ملازمت مل گئی تو یہ گھرانہ بھی حیدرآباد سے کوچ کرگیا، لیکن حافظ نعیم الرحمن ششم جماعت میں تھے اور ساتھ ہی حفظ بھی کررہے تھے، وہ علامہ اقبال ہائی اسکول کے صدر مدرس ماہرِ تعلیم سید مشتاق علی کاظمی سمیت اسکول و مدرسے کے اساتذہ کی آنکھ کا تارا تھے، والد سمیت کوئی بھی نہیں چاہتا تھا کہ وہ یہاں سے تعلیم ادھوری چھوڑ کرکراچی چلے جائیں۔ ان کے محلہ دار علامہ اقبال اسکول کے استادِ محترم قدیر الاسلام صاحب نے دیدہ و دل فرشِ راہ کیا، انہیں گھر کا فرد بنایا۔ وہ دسویں جماعت کے امتحان تک حیدرآباد میں رہے، پھر نارتھ ناظم آباد کراچی منتقل ہوگئے، پاکستان شپ اونرزکالج سے انٹرمیڈیٹ، این ای ڈی یونیورسٹی سے بی ای سول انجینئرنگ، جبکہ جامعہ کراچی سے تاریخ ِاسلام میں ماسٹرز کیا ہے۔ ان کی اہلیہ شمائلہ نعیم ڈاکٹر ہیں۔ تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ ماشااللہ دو بیٹے حافظِ قرآن ہیں۔
حافظ نعیم الرحمن کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوئے اور فعال و متحرک کردار کی وجہ سے طالب علم رہنما کے طور پر اپنی شناخت منوانے میں کامیاب رہے۔ طلبہ حقوق کے لیے جدوجہد کی پاداش میں تین بار جیل کاٹی۔ وہ کراچی جمعیت کے ناظم رہے، پھر صوبہ سندھ جمعیت، اور اس کے بعد 1998ء میں جمعیت کے مرکزی ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔ دو سال یہ ذمہ داری نبھائی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے۔ 2001ء میں کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا، ایک یونین کونسل میں نائب ناظم منتخب ہوئے، جماعت اسلامی میں زون سے لے کر ضلع وسطی تک مختلف ذمہ داریوں پر فائز رہے، کراچی جماعت کے قیم (جنرل سیکریٹری) اورنائب امیر، اور 2013ء میں پہلی مرتبہ جماعت اسلامی کراچی کے امیر بنے۔ انہوں نے بحیثیت امیر کراچی میں بہت ہی متحرک کردار ادا کیا، سیاسی جمود اور ایم کیو ایم کے سحر کو توڑا، عوامی مسائل کے حل کے لیے اداروں اور حکمرانوں کو لکارا، اور عملی طور پر بعض مسائل حل بھی کرائے۔ بلدیہ فیکٹری کو جب ایم کیو ایم کے لوگوں نے آگ لگاکر ڈھائی سو سے زیادہ نہایت غریب مرد و خواتین کو جلایا جن کی اکثریت مہاجر تھی تو ان کی دادرسی کے لیے آواز اٹھائی اور الخدمت کے ذریعے متاثرہ خاندانوں کی مالی امداد کرائی، بحریہ ٹاؤن کے مکینوں کا ناممکن مسئلہ نہایت خوش اسلوبی سے حل کرایا، کے الیکٹرک اور نادرا کے حوالے سے مسائل کو جان دار طریقے سے اٹھایا اور اہل ِ کراچی کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب کراچی کی ٹھیکیداری کے دعوے دار ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی بجلی کے بلز کا مسئلہ لے کر آنے والوں کو رعونت بھرے انداز میں کہہ رہے تھے ’’بجلی و گیس کا مسئلہ ہمارا نہیں ہے، جماعت اسلامی کا ہے، جاؤ اُن سے بات کرو‘‘۔ اُن کا یہ فقرہ خاصے عرصے تک سوشل میڈیا کی زنیت بنارہا۔ بہرکیف کراچی کی سیاست میں ایک اہم موڑ اُس وقت آیا جب بلدیاتی مسائل اور سندھ حکومت کی بے اعتناعی پر کراچی میں جماعت اسلامی نے ’’حق دو کراچی کو‘‘ مہم کا آغاز کیا۔ جنوری2022ء میں سندھ اسمبلی کے سامنے سخت سردی میں کھلے آسمان تلے 29 دن تک تاریخ ساز دھرنا دیا جس کے بعد پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے مجبوراً بلدیاتی اداروں کے اختیارات واپس کرنے کے لیے تحریری معاہدے پر دستخط کیے۔ بعد ازاں جب جنوری2023ء میں کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو ایم کیو ایم تو میدان چھوڑ کر بھاگ گئی جبکہ سندھ حکومت نے ریاستی جبر اور دھاندلی کا راستہ اختیار کیا، تاہم اس کے باوجود جماعت اسلامی نے87 یونین کمیٹیوں اور 9 ٹاؤن میں کامیابی حاصل کرلی، بعد ازاں میئر و ڈپٹی میئر کے انتخاب میں ووٹوں کی اکثریت رکھنے والی جماعت کے خلاف پیپلز پارٹی کی حکومت نے پولیس گردی اور ووٹرز غائب کرنے کا جو حربہ اختیار کیا وہ ہمارے ملک کی انتخابی سیاست میں ایک دھبہ ہے۔ آج کراچی کے میئر کو ’قبضہ میئر‘ کا خطاب دیا جاتا ہے۔
8 فروری کے عام انتخابات میں جو انتخابی انجینئرنگ ہوئی، جس طرح کے جھرلو الیکشن کرائے گئے اس پر پوری دنیا میں پاکستان کا انتخابی نظام سوالیہ نشان اورالیکشن کمیشن رسوائی کا سامان بنا ہوا ہے۔ فارم45 میں جیتے ہوئے امیدواروں کو فارم47 میں ہرادیا گیا۔ کراچی میں پونے8لاکھ ووٹ لینے والی جماعت کو اسمبلیوں میں جانے سے روک دیا گیا، اس کے باوجود کئی نشستوں پر جماعت کے امیدوار کامیاب ہوگئے۔
سندھ اسمبلی میں ایک رکن نے حلف اٹھالیا ہے، بقیہ کے کیس عدالتوں اور الیکشن کمیشن میں ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن کو بھی الیکشن کمیشن نے فارم47 میں سندھ اسمبلی کی رکنیت کے لیے کامیاب قرار دے دیا، ان کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا، لیکن حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ فارم 45 میں وہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار سے چند سو ووٹوں سے ہار گئے ہیں اس لیے یہ نشست نہیں لے سکتے۔ ان کے اس اخلاقی معیار کو عالمی میڈیا میں بھی شہرت ملی اور مخالفین بھی داد و تحسین کیے بغیر نہ رہ سکے۔