اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی تمہید میں درج ہے:
’’ہرگاہ کہ کُل کائنات پر اقتدارِ اعلیٰ صرف اور صرف قادرِ مطلق کے پاس ہے، پاکستان کے عوام اس اقتدارِ اعلیٰ کو استعمال کرسکتے ہیں لیکن اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہ کر، ایک مقدس امانت کے طور پر‘‘۔
ارسطو نے پوچھا تھا: ’’ریاست کا اقتدارِ اعلیٰ کس کے پاس ہونا چاہیے؟ عوام کے پاس، اصحابِ جائداد کے پاس، اچھے لوگوں کے پاس؟ یا اُس آدمی کے پاس جو سب سے افضل ہو؟ یا جو آمرو جابر ہو؟‘‘
اے وی ڈائسی نے کہا تھا: ’’ہمارے سیاسی اداروں کی غالب صفت (قانونی نقطہ نگاہ سے) (برطانوی) پارلیمنٹ کا مقتدراعلیٰ ہونا ہے‘‘۔ ڈائسی کا یہ بھی کہنا ہے: ’’پارلیمنٹ کے مقتدرِ اعلیٰ ہونے کا مطلب صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ جو قانون چاہے بناسکتی ہے، جو قانون چاہے منسوخ کرسکتی ہے، نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم۔ انگلستان کا قانون کسی ایسے فرد یا ادارے کو تسلیم نہیں کرسکتا جو پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کو رد کردے یا بدل دے۔ انگریز قانون دانوں کے نزدیک پارلیمنٹ ہر شے پر قادر ہے، صرف مرد کو عورت اور عورت کو مرد نہیں بناسکتی‘‘۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان میں اقتدارِ اعلیٰ کس کے پاس ہے؟ اگر اقتدارِ اعلیٰ کا وہی اصطلاحی مفہوم لیا جائے جو ڈائسی نے لیا ہے تو کہنے کو اقتدارِ اعلیٰ ہمارے آئین میں بھی ہماری پارلیمنٹ کے پاس ہے، لیکن ڈائسی خود تسلیم کرتا ہے کہ بسا اوقات اقتدارِ اعلیٰ کا مفہوم محض قانونی نہیں سیاسی ہوتا ہے۔ ’’کسی ریاست میں حقیقی اقتدارِ اعلیٰ اُس ادارے کے پاس ہے جو ریاست کے شہریوں سے آخرکار اپنا حکم منوانے کی قوت رکھتا ہو‘‘۔
اس اعتبار سے ’’عوام‘‘ یا (زیادہ صحیح یہ کہنا ہوگا کہ) ’’انتخاب کنندگان‘‘ کے پاس اقتدارِ اعلیٰ ہونا چاہیے، لیکن پاکستان میں برطانیہ کے برعکس ’’انتخاب کنندگان‘‘ نہ اپنا حق جتا سکتے ہیں، نہ اپنی مرضی منوا سکتے ہیں۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں پارلیمنٹ کے اراکین یا پارلیمنٹ کے قوانین عوام کی خواہش یا ’’رضائے عامہ‘‘ کا مظہر نہیں ہوتے۔ کہنے کو تو پارلیمنٹ کے اراکین عوام کے امین ہوتے ہیں لیکن عملاً وہ منتخب ہوتے ہی احتساب سے مبرا بن جاتے ہیں۔ منتخب کنندگان نے انہیں منتخب کرکے ان پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہوتا ہے اس اعتماد کو دھوکا دیتے ہوئے ان کا ضمیر ان کی کوئی سرزنش یا ملامت نہیں کرتا۔ پاکستان میں آج تک کسی عدالت نے عوام کے اعتماد کے کسی امین کو نقضِ عہد کے جرم میں سزا نہیں دی، لہٰذا یہ سمجھنا کہ پاکستان میں اقتدارِ اعلیٰ عوام کے پاس ہے، یا انتخاب کنندگان کے پاس ہے ’’ایں خیال است و محال است و جنوں‘‘۔ آج کل کے حالات میں پاکستان کے عوام کو اقتدارِ اعلیٰ کا حامل سمجھنا، کسی ستم ظریفی سے کم نہیں۔
سپریم کورٹ کی 9 رکنی بینچ نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل محمد ضیا الحق کے پارلیمنٹ (قانونی مقتدرِ اعلیٰ) کو توڑنے اور مارشل لا نافذ کرنے کے عمل کو احتیاجِ ریاست اور فلاحِ عامہ کی خاطر جائز قرار دیا اور کہاکہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر قانونِ سلامتی کے تحت جو چاہے وہ کرسکتا ہے، جو قانون چاہے وضع کرسکتا ہے، حتیٰ کہ آئین میں ترمیم بھی کرسکتا ہے۔ یہ فیصلہ کرکے سپریم کورٹ نے دنیا کی عدالتی تاریخ میں ایک نئے (لیکن سنہری نہیں!) باب کا اضافہ کیا، اور ایسا کرکے پاکستان کے حقیقی مقتدرِ اعلیٰ کو بے نقاب بھی کردیا۔
ادب سے یہ کہنا لازم آتا ہے کہ کورٹ کو، کہ ایک ملکی ادارہ ہے، نہ یہ اختیار تھا نہ یہ ان کے احاطہ کار میں تھا کہ وہ مسلمہ آئینی طریقوں سے حیلہ بہانہ کرکے روگردانی کرتے اور کسی اہلکار کو آئین میں تصرف کی اجازت دیتے۔ یہ اختیار کا ایسا (ناپسندیدہ) استعمال تھا جس کی نظیر نہیں ملتی۔ (تعجب یہ ہے کہ) کسی ایک جج نے بھی اختلافی رائے نہیں دی۔
ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے اس فیصلے کا سہارا لے کر آئندہ سالوں میں آئینِ پاکستان میں ترامیم تھوک کے حساب سے کی گئیں، اور جب بھی اس سلسلے میں اختیارات کے ناجائز استعمال کا اعتراض اٹھایا جاتا، جواب میں سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ پیش کردیا جاتا۔
(چاہ کن را چاہ درپیش) حکومت نے عدلیہ کی فراہم کردہ تلوار سے ہی عدلیہ پر ضرب لگائی اور (مارچ) 1981ء کے عبوری آئینی حکم نامے (پی سی او، 1981ء) کے تحت مارشل لا کے دور کی تمام کارروائیوں کو عدالتی عمل دخل سے خارج کردیا، اور فوجی عدالتوں کے ہر عمل کو عدالتی تبصرے یا جائزے سے بالا قرار دے دیا۔
جو بات بے حد پریشان کن بھی ہے اور حیران کن بھی، وہ یہ کہ سپریم کورٹ نے آئین کا محافظ اور پاسبان ہونے کے باوجود، خود چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو آئینی دفعات میں ترمیم کرنے کی اجازت دے دی، حالانکہ ایسی اجازت دینا نہ سپریم کورٹ کے احاطہ کار میں تھا نہ اس کے احاطہ اختیار میں۔ اور سپریم کورٹ کی اس ناروا اجازت سے فائدہ اٹھا کر چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے آئینِ پاکستان میں ایسی ایسی ترمیمیں کیں کہ آئین کا چہرہ ناقابلِ شناخت حد تک مسخ ہوگیا۔ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو اپنی من مانی ترمیمیں کرنے کی اجازت دے کر کوئی قابلِ فخر کارنامہ سرانجام نہیں دیا۔ ہماری آئینی تاریخ ویسے بھی کچھ زیادہ دل خوش کن اور تابناک نہ تھی، لیکن اب تو وہ اپنے سب سے اندوہ ناک اور تاریک دور میں داخل ہوگئی۔
(پاکستان انقلاب کے دہانے پر، روئیداد خان)
میری شاخ امل کا ہے ثمر کیا
تری تقدیر کی مجھ کو خبر کیا
کلی گل کی ہے محتاج کشود آج
نسیم صبح فردا پر نظر کیا!