جو لوگ مسلمانوں کے مرض کا علاج تعلیمِ مغربی، تہذیبِ جدید اور اقتصادی حالات کی اصلاح اور سیاسی حقوق کے حصول کو سمجھتے تھے وہ غلطی پر تھے، اور اب بھی جو ایسا سمجھ رہے ہیں وہ غلطی کررہے ہیں۔ بخدا اگر مسلمانوں کا ہر فرد ایم اے۔ اور پی ایچ ڈی اور بیرسٹر ہوجائے، دولت و ثروت سے مالامال ہو، مغربی فیشن سے ازسرتا قدم آراستہ ہو، اور حکومت کے تمام عہدے اور کونسلوں کی تمام نشستیں مسلمانوں ہی کو مل جائیں مگر ان کے دل میں نفاق کا مرض ہو، وہ فرض کو فرض نہ سمجھیں، وہ نافرمانی، سرکشی اور بے ضابطگی کے خوگر ہوں تو ایسی پستی اور ذلت اور کمزوری میں اُس وقت بھی مبتلا رہیں گے جس میں آج مبتلا ہیں۔ تعلیم، فیشن، دولت اور حکومت کوئی چیز ان کو اس گڑھے سے نہیں نکال سکتی جس میں وہ اپنی سیرت اور اپنے اخلاق کی وجہ سے گرگئے ہیں۔ اگر ترقی کرنی ہے اور ایک طاقتور باعزت جماعت بننا ہے تو سب سے پہلے مسلمانوں میں ایمان اور اطاعتِ امر کے اوصاف پیدا کرو۔ اس کے بغیر نہ تمہارے افراد میں کس بل پیدا ہوسکتا ہے، نہ تمہاری جماعت میں نظم پیدا ہوسکتا ہے، اور نہ تمہاری اجتماعی قوت اتنی زبردست ہوسکتی ہے کہ تم دنیا میں سربلند ہوسکو۔ ایک منتشر جماعت جس کے افراد کی اخلاقی اور معنوی حالت خراب ہو، کبھی اس قابل نہیں ہوسکتی کہ دنیا کی منظم اور مضبوط قوموں کے مقابلے میں سر اٹھا سکے۔ پھوس کے پھولوں کا انبار خواہ کتنا ہی بڑا ہو، کبھی قلعہ نہیں بن سکتا۔۔
(”اخبار محمدی‘‘ دہلی۔ 15 دسمبر 1942ء)