ایمنسٹی انٹرنیشنل رپورٹ غزہ کی مزاحمت: شہریوں کا انسانی ڈھال کے طور پر استعمال

آپریشن کاسٹ لیڈ میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 1400 تھی جن میں 80 فیصد سویلین اور 350 بچے تھے۔ اسرائیل کے صرف 10 فوجی ہلاک ہوئے جن میں سے 4 تو فرینڈلی فائر میں مارے گئے، جبکہ سویلین ہلاکتیں صرف 3 تھیں۔ فلسطینی اور اسرائیلی ہلاکتوں میں تناسب سو اور ایک کا تھا، جبکہ سویلین ہلاکتوں کا تناسب ایک اور چار سو کا تھا۔ جب بی بی سی کے نمائندے نے اسرائیلی وزیرِ داخلہ مائر شیترت سے کہا کہ تین ہفتوں میں غزہ میں جان سے ہاتھ دھونے والوں کا تناسب اسرائیلیوں سے تو سو گنا ہے، تو اُنہوں نے کہا ’’یہی تو اِس آپریشن کا بنیادی آئیڈیا تھا، آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ ایسا نہیں ہے کہ صرف اسرائیلی فوج ہی سفاکی کا مظاہرہ کررہی تھی اور اسرائیل میں رائے عامہ انسانیت دوست تھی۔ اس آپریشن کے مکمل ہوتے ہی اسرائیل میں کرائے جانے والے رائے عامہ کے ایک جائزے میں دو تہائی رائے دہندگان نے کہا کہ یہ آپریشن حماس کے مکمل خاتمے تک جاری رکھا جانا چاہیے تھا۔ روزنامہ ہارتیز کے ایک تجزیہ کار گِڈین لیوی نے کہا ’’اگر یہ تاثر عام ہوگیا کہ اسرائیلی فوج اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی یعنی حماس کو ختم نہ کرسکی تو اِس کا یہی مطلب لیا جائے گاکہ ہلاکتیں ناکافی تھیں!‘‘

اس میں تو کوئی شک ہی نہیں تھا کہ غزہ میں بہت بڑے پیمانے پر ہونے والی ہلاکتوں پر اسرائیل کو دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔ اسرائیلی حکومت کے خلاف کارروائی کی آوازیں بھی اٹھیں۔ سویلین ہلاکتوں کے الزام سے بچنے کے لیے اسرائیلی حکومت نے میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈا کیا کہ حماس نے شہریوں کو انسانی شیلڈ کے طور پر استعمال کیا تھا۔ یعنی یہ کہ جب بھی اُنہیں آگے بڑھنا ہوتا تھا یا جان بچانے کی ضرورت پیش آتی تھی تب وہ شہریوں کو اسرائیلی فوجیوں کے آگے کرکے خود نکل جاتے تھے۔ اسرائیلی حکومت کی ایک بریفنگ میں دعویٰ کیا گیا کہ سویلین ہلاکتوں کے خدشے کے باوجود نہیں بلکہ اس خدشے کے باعث ہی حماس نے ایسے علاقوں کو اپنی سرگرمیوں کے لیے منتخب کیا جہاں زیادہ شہری آباد تھے، اور یوں وہ گنجان آبادیوں کو اسرائیلی فوجیوں کے سامنے ڈالتے گئے۔ ساتھ ہی ساتھ اسرائیلی بریفنگ میں یہ بھی کہا گیا کہ حماس نے شہریوں کی زندگی خطرے میں ڈالنے میں فخر محسوس کیا۔ آپریشن کاسٹ لیڈ کے بعد بنیادی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک وسیع البنیاد تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا کہ حماس نے جنگ کے بعض اصولوں کی سنگین خلاف ورزی کی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ حماس نے گنجان آباد علاقوں کے بہت نزدیک فوجی ساز و سامان نصب کرکے اسرائیلی فوج پر حملوں کا آغاز کیا۔ اس طور انہوں نے ہزاروں شہریوں کی زندگی خطرے میں ڈالی کیونکہ اسرائیلی فوج کی جوابی کارروائیوں میں عام فلسطینیوں کا نشانہ بننا طے تھا۔ ساتھ ہی ساتھ، رپورٹ کے مطابق، حماس نے بہت سے خالی مکانات سے بھی اسرائیلی فوج پر حملے کیے اور یوں اُس نے قریب کے مکانات میں رہنے والوں کی زندگی خطرے میں ڈالی، کیونکہ اسرائیلی فوج کی جوابی کارروائیوں کے نتیجے میں اِن شہریوں کا جان سے ہاتھ دھو بیٹھنا طے تھا۔ بہت سے شہریوں کو نشانہ تو نہیں بنایا گیا مگر وہ دو طرفہ فائرنگ کی زد میں آگئے۔ ہاں، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یہ ضرور لکھا کہ اس امر کے شواہد نہیں ملے کہ حماس نے مکانات اور بڑی عمارتوں سے اُس وقت راکٹ داغے جب اُن میں مکین موجود تھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یہ بھی لکھا کہ حماس نے بہت سی رہائشی عمارتوں کو بھی استعمال کیا، مگر یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ اس نے کسی بھی عمارت کو بزور خالی نہیں کروایا۔ غزہ میں شہریوں میں گھل مل کر سرگرمیاں جاری رکھنے کے اسرائیل کے الزام کے جواب میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ غزہ کا رقبہ کم ہے اور آبادی گنجان ہے، ایسے میں حماس سمیت کسی بھی عسکریت پسند گروپ کے لیے شہریوں سے، شہری آبادیوں سے الگ رہتے ہوئے سرگرمیاں جاری رکھنا کسی بھی طور ممکن نہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے لکھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حماس نے شہریوں کے درمیان رہتے ہوئے اسرائیلی فوج پر حملے کیے مگر معاملہ یہ ہے کہ لڑائی کے مقامات یعنی محاذوں کا انتخاب خود اسرائیلی فوج نے کیا جو ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں میں سوار ہوکر غزہ میں داخل ہوئی اور آبادیوں کے بہت نزدیک جاکر حماس کے خلاف کارروائی کی، اور یوں شہری بھی بڑی تعداد میں نشانہ بنے۔ یوں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک انتہائی سنگین الزام کے حوالے سے حماس کو بہت حد تک بری الذمہ قرار دیا۔

عام شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا الزام ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مکمل طور پر مسترد کردیا۔ اُس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ اس امر کا کہیں سے بھی کوئی ثبوت نہیں ملا کہ حماس یا کسی اور فلسطینی عسکریت پسند گروہ نے کسی بھی مرحلے میں شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر بروئے کار لاکر اپنی جان بچائی ہو۔ حماس اور کسی بھی دوسرے عسکریت پسند گروہ کے ہاتھوں ایسا بھی کچھ نہیں ہوا کہ کہیں کسی گھر میں مکین موجود ہوں اور وہاں سے اسرائیلی فوجیوں کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ ساتھ ہی ساتھ یہ الزام بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یکسر مسترد کردیا کہ حماس نے بعض مقامات پر لڑائی شروع ہونے پر مکانات یا عمارتوں کے مکینوں کو نکلنے سے روکا۔

یہ بات بھی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ماہرین نے فلسطین کے بہت سے شہریوں کا انٹرویو کیا تو اُنہوں نے حماس اور دیگر فلسطینی عسکریت پسند گروہوں کے خلاف شکایات کے انبار لگادیے اور کہا کہ ان گروہوں نے بھی قتل و غارت کا بازار گرم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ تاہم کسی نے بھی حماس یا کسی اور فلسطینی عسکریت پسند گروہ پر یہ الزام نہیں لگایا کہ اُس نے انسانوں کو ڈھال بناکر اپنے نکلنے کی گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کی ہو۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ماہرین اور رضاکاروں نے غزہ میں ہونے والی سویلین ہلاکتوں کے حوالے سے تحقیقات کیں، تاہم کسی بھی حوالے سے یہ بات سامنے نہیں آئی کہ یہ ہلاکتیں اس لیے واقع ہوئیں کہ حماس نے شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔ اسرائیلی فوج نے جن مکانات پر فضائی حملے کیے اُن میں مارے جانے والوں کا حماس یا کسی اور عسکریت پسند گروہ سے کوئی تعلق نہ تھا، اور یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ وہ مکانات کسی بھی فلسطینی عسکریت پسند گروہ کے زیرِاستعمال نہ تھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ماہرین اور نمائندوں نے یہ بھی دیکھا کہ اسرائیلی فوج نے قطعیت کے ساتھ جن مکانات کو نشانہ بناکر شہریوں کو ہلاک کیا اُن میں کسی بھی عسکریت پسند نے پناہ نہیں لے رکھی تھی اور نہ ہی کسی عسکریت پسند نے اِن مکانات کو اسرائیلی فوج پر حملوں کے لیے استعمال کیا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے نمائندوں نے یہ بھی پایا کہ جن مکانات کو اسرائیلی فوج نے قطعیت کے ساتھ نشانہ بنانے کی اہلیت رکھنے والے ہتھیاروں اور دیگر ساز و سامان کی مدد سے نشانہ بنایا اُن مکانات کے گرد کچھ دیر یا کچھ دن پہلے لڑائی نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی وہاں سے حملے کیے گئے تھے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں تسلیم کیا کہ حماس نے تو شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال نہیں کیا تاہم اسرائیلی فوجیوں نے ایسا ضرور کیا۔ اسرائیلی حکومت بہت دعوے کرتی ہے کہ اُس نے اپنے تمام فوجیوں پر اچھی طرح واضح کیا ہے کہ کسی بھی حال میں، کہیں بھی شہریوں یا غیر متحارب افراد کی زندگی خطرے میں نہ ڈالی جائے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کی اکثریت نے جب بھی کسی علاقے میں قدم رکھا تو وہاں کے مکانات میں موجود شہریوں کو باہر نکلنے سے روکا۔ خواتین اور بچوں تک کو لڑائی کے دوران گھروں سے نکلنے نہیں دیا گیا، اور یوں اُن کی زندگی صریحاً خطرے میں ڈالی گئی۔ معاملہ یہاں تک نہیں رُکا۔ اسرائیلی فوجیوں نے بہت سے فلسطینی شہریوں کو مجبور کیا کہ مشکوک سمجھے جانے والے مکانات اور عمارتوں کی تلاشی لیں۔ یوں اُن کی زندگی مزید خطرے میں پڑی۔ اس امر کے واضح شواہد موجود ہیں کہ اسرائیلی فوجیوں نے آباد مکانات کے گرد و پیش سے حملے کیے جس کے نتیجے میں اُن مکانات میں موجود شہریوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہوئے۔ حماس کی جوابی کارروائیوں میں بھی وہ نشانہ بنے اور دوطرفہ فائرنگ کی زد میں آکر بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

بنیادی حقوق کے دیگر اداروں کی رپورٹس، گولڈ اسٹون رپورٹ اور آپریشن کاسٹ لیڈ کے بعد خود اسرائیلی فوجیوں کے بہت سے بیانات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے نہتے اور غیر متحارب فلسطینیوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی۔

حقائق پر مبنی رپورٹس کی بھرمار کے باوجود ایویشائی مارگیلِٹ اور مائیکل ویلزر جیسے فلسفی یہی راگ الاپتے رہے کہ فلسطینی عسکریت پسند گروہوں نے تو نہتے شہریوں کو ڈھال بناکر استعمال کیا مگر اسرائیلی فوج ایسا کرنے کی مذمت ہی کرتی رہی۔ ایک کتاب میں مشرقِ وسطیٰ سے متعلق سُنی سُنائی باتوں اور نظر کے دھوکے کو بے نقاب کرنے کی کوشش میں لکھی جانے والی ایک کتاب میں امریکی سفارت کار ڈینس راس نے لکھا کہ حماس کو درست اس لیے قرار نہیں دیا جاسکتا کہ اُس نے شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔ افغانستان میں خدمات انجام دینے والے برطانوی کرنل رچرڈ کیمپ نے بھی حماس پر عورتوں اور بچوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ حماس نے اُنہیں ایسے مکانات میں رہنے پر مجبور کیا جنہیں کسی بھی وقت اسرائیلی فوج کی طرف سے نشانہ بنایا جاسکتا تھا۔ کرنل رچرڈ کیمپ کا الزام یہ تھا کہ حماس نے جان بوجھ کر اپنے شہریوں کو اسرائیلی فوجیوں کے سامنے رکھ کر اُنہیں موت کے منہ میں دھکیلا۔ ساتھ ہی ساتھ رچرڈ کیمپ نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ حماس نے فلسطینی عورتوں اور بچوں کو خودکش بمبار کے طور پر بھی استعمال کیا۔

آپریشن کاسٹ لیڈ کے بعد فلسطینی سویلینز کی ہلاکت کے حوالے سے اسرائیلی فوج پر اس قدر تنقید ہوئی کہ بعض اسرائیلی اور اسرائیل نواز تجزیہ کاروں نے یہ بڑھک مارنے کی کوشش کی کہ اسرائیلی فوج نے نہ صرف یہ کہ سویلینز کو ہلاک نہیں کیا بلکہ اُن کے لیے خطرات کا گراف نیچے لانے کی پوری کوشش کی، اور ایسی کوشش جس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔

اسرائیل کے تمام دعووں کی نفی اس امر سے ہو جاتی ہے کہ بیشتر فلسطینی شہری جن اسرائیلی حملوں میں مارے گئے وہ جدید ترین ٹیکنالوجیز سے مزین طیاروں، ہیلی کاپٹرز اور ڈرونز کے ذریعے مکمل قطعیت کے ساتھ نشانہ بنانے والی ٹیکنالوجی کی مدد سے کیے گئے۔ ان حملوں کی منصوبہ بندی بہت پہلے کرلی گئی تھی اور اس کی منظوری بھی بہت پہلے لے لی گئی ہوگی۔ یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ اِن حملوں میں کسی بھی اسرائیلی فوجی کی زندگی کو کسی بھی طرح کا خطرہ لاحق نہ تھا کیونکہ تمام ہی اسرائیلی فوجی نشانہ بنائی جانے والی آبادیوں سے بہت دور تھے۔ ایسے میں یہ الزام سراسر بے بنیاد ٹھیرتا ہے کہ حماس نے فلسطینی شہریوں کو اسرائیلی فوجیوں کے آگے لا پھینکا، یا وہ دو طرفہ فائرنگ کی زد میں آکر جان سے گئے۔ ایسے میں اس الزام کی حقیقت کیا رہ جاتی ہے کہ حماس نے فلسطینی شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرکے اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں اُن کی ہلاکت کی راہ ہموار کی! بیشتر فلسطینی شہری یا تو اپنے کمروں میں اُس وقت مارے گئے جب وہ سوئے ہوئے تھے، یا چھت پر کپڑے سُکھا رہے تھے، یا برآمدے میں بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ اسرائیلی فوج نے اُنہیں بلا امتیاز بمباری اور گولہ باری کا نشانہ بنایا۔ بیشتر بچوں کو طیاروں نے میزائیل، یا ٹینکوں نے گولوں کا نشانہ اُس وقت بنایا جب وہ پڑھ رہے تھے یا اپنے کمروں میں کھیل رہے تھے۔
(جاری ہے)