مصر کی اسلامی تحریک اخوان المسلمون کے بانی اور داعیِ الی اللہ حسن البنا شہید کے 11 رسائل پر مشتمل یہ مجموعہِ رسائل اپنے مضامین، موضوعات، تنوع اور فکر و اثر انگیزی کے اعتبار سے بے مثال اور لافانی ہے۔
حسن البنا شہید اسکندریہ کے قریب محمودیہ میں 1906ء میں پیدا ہوئے۔ قاہرہ کے مدرسہ دارالعلوم سے فارغ التحصیل ہوئے، بطور استاد مختلف شہروں میں تدریس کے فرائض سر انجام دیے۔ قرآن آپ کا اوڑھنا بچھونا اور اس کی تعلیمات اور سنت ِرسولؐ حرزِجاں تھے۔ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد آپ سے وابستہ ہوئے اور دعوت پر لبیک کہتے چلے گئے۔ آپ نے اسماعیلیہ شہر میں قیام کے دوران 1928ء میں اخوان المسلمون کی بنیاد رکھی اور یہیں پہلا مرکز قائم کیا۔ آپ کی گفتگو اور تحریریں بہت پُراثر ہوتیں، دل سے نکلنے والی باتیں سننے والوں کے دل میں ترازو ہوجاتیں، ’’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘ کے مصداق ہر کوئی ان کا اسیر ہوجاتا۔ نتیجتاً اخوان المسلمون کی پیش رفت سے سیاسی ساہوکار اور انگریزی استعمار کے ایجنٹ خائف ہوئے اور اس کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بُننے لگے۔ مگر امام اور ان کی دعوت کی مقبولیت بڑھتی گئی۔ آپ نے اسلام کا تعارف دل نشین انداز میں کروایا اور بتایا کہ اسلام عقیدہ، عبادت، وطن، قومیت، درگزر، قوت، اخلاق، ثقافت اور قانون سب کچھ ہے۔
امام شہیدؒ نے اپنی گراں قدر تالیفات کے ذریعے امت کو داعیانہ زندگی اختیار کرنے کی جانب متوجہ کیا، اسلام کا خوب صورت انداز میں تعارف کروایا، قرآن و سنت کے ساتھ وابستہ کیا۔ علم و ایمان، اخلاص و سرگرمی، ذہانت و فطانت، باریک بینی، دل کی بڑائی اور روحانی پاکیزگی میں امام ثانی نہیں رکھتے تھے۔ وہ ایک مضبوط نظریے کے حامل بے مثال انسان تھے جو تمام زندگی ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا کیے بغیر خوشنودیِ رب کے راستے پر گامزن رہے اور اسی جدوجہد میں خلعتِ شہادت سے سرفراز ہوگئے۔
ایک صحافی نے امام سے ان کی ذات کے بارے میں چاہا کہ وہ عوام کے لیے اپنی شخصیت کی وضاحت کریں تو امام نے فرمایا: میں ایک سیاح ہوں، حقیقت کا متلاشی ہوں، میں انسانوں کے مابین انسانیت کا مصداق و مدلول ڈھونڈتا ہوں۔ میں ایک شہری ہوں جو اپنے وطن کے لیے عزت، آزادی، استحکام، خودمختاری اور اسلام کے زیر سایہ پاکیزہ زندگی گزارنے کا ترانہ گاتا ہوں۔ میں نے کائنات کا راز پالیا ہے، چنانچہ بلند آواز کہتا ہوں: ’’میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں‘‘۔
اس مجموعے میں 11 رسائل درج ہیں جن کا ترجمہ ظہیر الدین بھٹی نے عمدگی سے کیا ہے:
(1) ہماری دعوت، (2) ہم لوگوں کو کس چیز کی طرف بلاتے ہیں، (3) روشنی کی جانب،(4) نوجوانوں اور طلبہ کے لیے، (5) اخوان المسلمون کی دعوت یا دعوتِ اسلام 14 ویں صدی میں،6)) اخوان المسلمون قرآن کے پرچم تلے، (7) ہماری دعوت نئی ہیئت میں، (8) گزشتہ کل اور آج کے مابین ،(9) پانچویں کانفرنس کا پیغام، (10) ہمارے مسائل.. اسلامی نظام کی روشنی میں، (11) ہمارے داخلی مسائل.. اسلامی نظام کی روشنی میں
امام اول و آخر داعی اور خطیب تھے، دعوتِ الی اللہ ان کی زندگی کا عنوان تھی اور وہ سراپا جدوجہد۔ ان کے خطبات ہوں یا مضامین، امت کے لیے قرآن و سنت اور نبی کریمؐ کی زندگی کے ساتھ وابستگی کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ آپ کے خطبات و مضامین میں ایک خاص جدت، نیا پن اور روحانیت پائی جاتی۔ ایک قوم اور ملت بن جانے اور اسلام کے تعارف سے عمدگی سے روشناس کرایا۔ ان مضامین میں گہری معنویت، للہیت اور اخلاص دامنِ دل کو کھینچتا ہے۔ زبان نہایت عمدہ اور فصیح و بلیغ ہے جس میں دعوت، اخلاص، جدوجہد اور علمی و فکری سربلندی کا درس ملتا ہے۔ جسم و روح، قلب و قالب اور اپنے پورے حرکت و اعمال کے ساتھ اللہ کے لیے کی جانے والی جدوجہد کے آپ علَم بردار اور خوگر تھے، آپ کی زبان ہمیشہ ذکر ِالٰہی سے تر رہتی۔ بلند ہمت اور بلند ارادہ، پاک دل و پاکباز۔ نوجوان آپ کا خاص ہدف تھے جنہیں اسلام کے پیغام سے نہ صرف وابستہ اور مالا مال کیا بلکہ ان کے دلوں کو اللہ کی محبت سے سرشار کردیا۔
ایک بلند فکر اور نظریے کے حامل انسان، جو مالی اور عارضی اغراض سے بہت بلند و بالا، اور تمام زندگی اعلیٰ مقاصد کے لیے سرگرم عمل رہے، مال و دولتِ دنیا سے اپنا دامن بچائے رکھا، دنیا سمیٹی اور نہ دنیا کا مال۔ کھانے اور پہننے میں بقدرِ ضرورت پر اکتفا کیا لیکن اپنے مقصد، اللہ کے دین کی سربلندی کو کبھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔ امام کے یہ خطبات و مضامین دل کی آنکھوں سے پڑھنے کے لائق ہیں اور عمل پر ابھارنے والے۔
ادارہ اسلامک پبلی کیشنز نے ان رسائل کو سفید کاغذ پر خوب صورت انداز میں طباعت سے آراستہ کیا ہے۔