ہماری قوم کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم نے جدید ذرائع ابلاغ اور ٹیکنالوجی کا منفی استعمال کیا، جس کی بدولت ہم روز بہ روز رو بہ زوال ہوتے جارہے ہیں، جبکہ دنیا بھر کے لوگوں نے انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کے مثبت استعمال سے دنیاوی ترقی تو کرلی لیکن اخروی کامیابی ان کا مطمح نظر نہیں رہا، جبکہ ہم دونوں سے محروم رہے ہیں۔ دورِ حاضر کا ایک بڑا فتنہ ٹاک ٹاک کے نام پر ہمارے دروازوں پر فحاشی و عریانی کا سیلاب لارہا ہے۔ پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں بالعموم اور بڑے شہروں میں بالخصوص ہر بڑا پارک اور تفریحی مقام اس فتنے کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ انتہائی تکلیف دہ امر یہ ہے کہ اس کے مضر اثرات ہمارے معاشرے میں پھیلتے جارہے ہیں۔
اس کے مفاسد پر بات کرنے سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ کیا یہ اسلام کی نظر میں کوئی تفریح یا جائز امر ہے؟ اس بارے میں قرآن ہماری مکمل راہ نمائی کرتا ہے۔ شیطان کی آواز سے مراد ہر وہ پکار ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر اکساتی ہو۔ یہ آواز عموماً شیطان کے چیلوں چانٹوں کی جانب سے ہی آتی ہے، پھر اس شیطانی آواز میں ہر قسم کی گالی گلوچ، جھگڑا، گانا بجانا، موسیقی، راگ رنگ اور طرب و نشاط کی سب محفلیں آتی ہیں جو اللہ کی یاد سے غافل کرتی اور انسان کی اصل فطرت پر پردہ ڈالتی ہیں۔ درحقیقت موجودہ ٹک ٹاک کلچر بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔
اب یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ اس کلچر نے نوجوان نسل کو تفریح کے نام پر کس قدر غیر اخلاقی روش اور گم راہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔
اس کلچر نے مرد و زن کے اختلاط کو فروغ دیا ہے۔ اکثر اوقات لڑکے لڑکیاں اکٹھے ویڈیوز بناتے ہیں تو یہ اسلامی نقطہ نظر سے انتہائی خوف ناک امر ہے۔ یہ یورپ کے آزاد معاشرے کا کلچر ہے۔ اسلام کا مؤقف اس سلسلے میں بہت صریح اور واضح ہے۔
رب العالمین نے صنفِ نازک کا ایک الگ دائرۂ کار مقرر کیا ہے اور اُس کے لیے وہ حدود و قیود متعین کی ہیں جو اُس کی فطرت کے مطابق ہیں، لیکن آج ہم اس کی مخالفت پر تلے ہوئے ہیں۔ اسلام تو بلاضرورت عورت کو گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں دیتا۔
عرض یہ ہے کہ اسلام نے تو ایذا رسانی کے تمام راستوں کو بند کردیا جو موجبِ تکلیف تھے، لیکن اب مختلف شہروں کے معروف سیاحتی اور تاریخی مقامات پر جاکر شہرت اور دولت کمانے کے لیے غیر محرموں کو اعلانیہ اکٹھا کرکے رسوا ہونا کون سی مجبوری ہے!
جب سے اس ٹک ٹاک کلچر کو فروغ ملا ہے ہم اکثر اوقات بہت ساری خبریں سن اور دیکھ چکے ہیں کہ کوئی ٹک ٹاکر چھت سے گر کر لقمہ اجل بن گیا اور کوئی ساحلِ سمندر پر یہی کام کرتے ہوئے سمندر میں گر کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا، اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو خریدتے ہیں کہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں۔ یہ عمل جو آج ہمارے ہاں روح کی غذا کے طور پر معروف ہے، درحقیقت ان شیطانی ہتھکنڈوں میں سے ایک ہے جو شیطان نے اولادِ آدم کو گمراہ کرنے کے لیے اختیار کیے ہیں۔ اگر ہم اپنی نسلوں کو اخلاقی، معاشرتی، سماجی زوال سے بچانا چاہتے ہیں تو ایسی ثقافت کا خاتمہ کریں۔ والدین سے التجا ہے کہ دنیا میں شہرت اور دولت حاصل کرنے کے اور بہت ذرائع ہیں، اپنی اولادوں کو دنیا کی ذلت اور آخرت کی رسوائی سے بچانے کے لیے ضروری اقدامات اور تربیت کریں تاکہ ہم بہ حیثیت قوم سرخ رو ہوسکیں۔
رب العالمین سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دورِ حاضر کے فتنوں سے بچاکر اسلام کے سایہ عاطفت میں پناہ دے، آمین۔ وماتوفیقی الا باللہ۔