امتِ مسلمہ کی ایک منظم، متحرک، ہمہ گیر اور کئی لحاظ سے منفرد دینی تحریک، جماعت اسلامی پاکستان نے اپریل کے پہلے ہفتے اپنی تاریخ کا ایک نیا ورق الٹا ہے اور اس کے ملک بھر میں پھیلے ہوئے 6 ہزار خواتین سمیت 45 ہزار سے زائد ارکان نے اپنے چھٹے امیر کے طور پر جواں عزم اور جواں ہمت انجینئر حافظ نعیم الرحمن کا انتخاب کیا ہے۔ یوں تو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ سیکڑوں سیاسی جماعتوں کی بھیڑ میں سے سب ہی جمہوریت کی نام لیوا ہیں، مگر المیہ یہ ہے کہ یہ سب جمہوری اصولوں کی علَم بردار تو ہیں مگر ان اصولوں پر عمل کرنے کو تیار نہیں۔ یہ کہنے کو نظریاتی بھی ہوں گی مگر عملاً ذاتی، مفاداتی اور خاندانی جماعتیں ہیں۔ جمہوریت اور جمہوری اصولوں کو ان کے قریب سے بھی گزرنے کی اجازت نہیں۔ الف سے ی تک تمام سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کی ساخت پر غور کرنے سے یہ امر نمایاں ہوکر سامنے آتا ہے کہ سب کی سب شخصی یا خاندانی جماعتوں سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، یہ جمہوریت کے نعرے تو لگاتی ہیں مگر جمہوری انداز میں جمہوری اصولوں کے مطابق اپنی جماعتوں کے اندر صاف اور شفاف انتخابات کے ذریعے قیادت کے انتخاب کی روایت کہیں موجود نہیں، سب کی قیادت مخصوص خاندانوں میں وراثت میں منتقل ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہ اعزازصرف اور صرف جماعت اسلامی کو حاصل ہے کہ نیچے سے اوپر تک ہر سطح کی قیادت کا انتخاب جماعت کے دستور کے مطابق باقاعدگی سے کرایا جاتا ہے۔ اگست 1941ء میں جماعت کے قیام سے آج تک کے حالات خواہ کیسے ہوں، امیر جماعت کے انتخابات میں تعطل تک کی نویت کبھی نہیں آئی۔ پاکستان کے موجودہ نظام میں تمام قابلِ ذکر سیاسی جماعتیں سرمایہ داروں، وڈیروں، جاگیردار خاندانوں یا اشرافیہ کی باندیوں سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، مذہبی ہونے کی دعویدار جماعتوں نے بھی خود کو کسی فرقے یا مسلک سے منسلک کررکھا ہے اور ان کی قیادت بھی خاندانی وراثت ہی کی طرح منتقل ہوتی چلی جاتی ہے۔ صرف جماعت اسلامی کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ اس کے امیر کا انتخاب باقاعدگی سے صاف اور شفاف جمہوری طریقے سے ہوتا ہے جس پر کسی مخالف کو بھی کبھی انگلی اٹھانے کی جرأت نہیں ہوئی۔ جماعت اسلامی کے قیام کے بعد 1941ء سے 1972ء تک مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، 1972ء سے 1987ء تک میاں طفیل محمدؒ، 1987ء سے 2009ء تک قاضی حسین احمدؒ، 2009ء سے 2014ء تک سید منور حسنؒ اور 2014ء سے 2024ء تک سراج الحق امیر جماعت رہے، اور اب ارکانِ جماعت نے حافظ نعیم الرحمن کو آئندہ پانچ برس کے لیے اپنا امیر منتخب کیا ہے۔ ان چھے کی چھے محترم ہستیوں کے شخصی اور خاندانی حالات کے جائزے سے یہ حقیقت نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی کسی دوسرے کا قریبی کیا دور کا بھی رشتے دار نہیں۔ ان میں سے کسی کا بھی کسی خاص مسلک سے تعلق تھا نہ کسی مخصوص علاقے یا قبیلے سے۔ ان سب میں سے کوئی بھی وڈیرہ، جاگیردار یا سرمایہ دار تھا، نہ ان میں سے کسی کی پیشانی پر اشرافیہ کی غلامی کا داغ تھا۔ گویا مصورِ پاکستان علامہ اقبالؒ نے اسبابِ زوالِ امت کا رونا روتے ہوئے جو یہ فرمایا تھا کہ:
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
جماعت اسلامی بفضلِ خدا ان تمام عیوب سے پاک ہے اور ہر طرح کی فرقہ بندی، نسلی و لسانی، علاقائی و ذات برادریوں کے تعصبات سے بالاتر رہتے ہوئے عالم گیر اتحادِ امت کے لیے کوشاں ہے۔
اکثر سیاسی جماعتیں ملک کو بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور مصورِ پاکستان علامہ اقبال کا پاکستان بنانے کی علَم بردار ہیں مگر افسوس کہ یہ دعویٰ بھی زبانی جمع خرچ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور عملاً کوئی بھی سیاسی جماعت قائداعظم کے اصولوں اور علامہ اقبال کے افکار کی بنیاد پر کام کرتی نظر نہیں آتی، صرف جماعت اسلامی ہی ان اصولوں اور افکار کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مصروفِ عمل ہے۔ بانیِ پاکستان نے قوم کو اتحاد، تنظیم اور ایمان کے زریں اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی بار بار تلقین کی، مگر ہم بحیثیت قوم ان اصولوں کو مکمل طور پر فراموش کرچکے ہیں اور انتشار و ادبار اور زوال سے دوچار ہیں۔ جماعت اسلامی آج بھی ان اصولوں کو حرزِ جاں بنائے ہوئے ہے اور کارکنوں کی تنظیم و تربیت اور کردار سازی پر جس قدر توجہ اور محنت سے جماعت اسلامی کام کرتی ہے کوئی دوسری سیاسی و مذہبی جماعت اس کا عشر عشیر بھی اس جانب توجہ نہیں دیتی۔ قائد نے قوم کو ’’کام، کام اور فقط کام‘‘کا جو پیغام دیا تھا اس کو بھی بطور جماعت صرف جماعت اسلامی مضبوطی سے تھامے دکھائی دیتی ہے۔ مصورِ پاکستان علامہ اقبال ؒ نے امتِ مسلمہ کو موجودہ زوال سے نجات اور حصولِ کمال کی راہ دکھاتے ہوئے فرمایا تھا:
سب پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
جماعت اسلامی کی اٹھان ہی ان اصولوں پر ہوئی ہے اور جماعت میں ان اصولوں کی جڑیں بہت گہری اور مضبوط ہیں جس کا ثبوت خود جماعت کی 83 سالہ طویل تاریخ ہے۔ محدود وسائل اور ہمہ نوع مصروفیات و ذمہ داریوں کے باوجود جماعت اسلامی کے کارکنوں اور قیادت نے قربانی و ایثار، امانت و دیانت، شرافت و صداقت اور خدمت و عدالت کی وہ روایات قائم کی ہیں کہ اگر دوسری سیاسی جماعتیں بھی اس کی پیروی کریں تو وطنِ عزیز نہایت قلیل مدت میں دنیا کی ترقی یافتہ اور باوقار اقوام میں سرفہرست آسکتا ہے۔ جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کو جاں گسل جدوجہد کی صعوبتوں اور انتخابی ناکامیوں سے بھی دوچار ہونا پڑا، مگر کسی بھی مرحلے پر جماعت نے مایوسی کو خود پر طاری نہیں ہونے دیا اور اللہ تعالیٰ کی مدد و رحمت پر بھروسا کرتے ہوئے ہر مرحلے پر جماعت کے کارکنان اور قائدین شاعرِ مشر ق کے اس شعر کی عملی تعبیر بنے دکھائی دیے:
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے، اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
8 فروری کے عام انتخابات میں اگرچہ مقتدر قوتوں نے جماعت اسلامی کو ملک کے منتخب جمہوری اداروں میں نمائندگی سے کلی طور پر محروم کردیا، تاہم اس اذیت ناک صورتِ حال میں بھی جماعت کی قیادت نے مایوس یا مشتعل ہونے کے بجائے صبر و تحمل اور استقامت کا دامن تھامے رکھا اور اسی فضا میں 19 فروری کو جماعت کے مرکزی امیر کے انتخاب کے عمل کا آغاز ہوا جس کے تمام مراحل کی تکمیل کے بعد 4 اپریل کو ناظمِ انتخاب یا انتخابی کمیشن کے سربراہ نے اعلان کیا کہ جماعت کے ارکان کی اکثریت نے آئندہ پانچ برس کے لیے انجینئر حافظ نعیم الرحمن کو اپنا امیر منتخب کیا ہے۔ اس انتخاب پر سبکدوش ہونے والے امیر سراج الحق کے چہرے پر کسی ملال نہیں بلکہ اطمینان کی لہر دیکھی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک نہایت اہم ذمہ داری سے باعزت طریقے سے سبکدوش ہونے کی توفیق بخشی، اور انہوں نے حرمین شریفین سے ٹیلی فون کرکے اپنے بھائی نئے امیر حافظ نعیم الرحمن کے حق میں استقامت کی دعا کی اور یقین ظاہر کیا کہ ان کی قیادت جماعت اسلامی اور امتِ مسلمہ کے لیے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور خیر و برکت کا باعث بنے گی۔ یہی وہ جذبہ اور تربیت ہے جس نے جماعتی مناصب کو کبھی جماعت میں گروہ بندی کا سبب نہیں بننے دیا۔ تبدیلیِ قیادت کے بعد حافظ نعیم الرحمن سب کے امیر ہیں۔ کل تک محترم سراج الحق پوری جماعت کے امیر تھے، آج حافظ نعیم الرحمن کو یہ ذمہ داری تفویض کی گئی ہے تو تمام ارکان اور کارکنان ان کے دست و بازو ہیں کہ جماعت کے عام کارکن سے امیر تک، سب کسی دنیاوی مفاد یا کسی شخصیت کی خوشنودی کے نہیں بلکہ اپنے خالق و مالک اللہ رب العالمین کی رضا اور اس کے نتیجے میں جنت کے حصول کے طلب گار ہیں۔ کراچی کے امیر کے طور پر سیاست اور خدمت کے تمام شعبوں میں حافظ نعیم الرحمن کی صلاحیتوں کا اپنوں، پرایوں سب نے اعتراف کیا ہے۔ توقع ہے کہ پاکستان کے امیر کی حیثیت سے اُن کی ان تھک اور دوراندیش شخصیت کی قیادت میں جماعت کامیابی کی نئی منزلوں سے ہم کنار ہوگی۔ علامہ اقبال مرحوم نے عرصہ قبل آپ جیسے قائد ہی کے لیے کہا تھا:
نگاہ بلند، سخن دلنواز، جاں پر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
(حامد ریاض ڈوگر)