طارق محمود مرزا اردو ادب کے پاکستانی نژاد آسٹریلین، متعدد کتابوں کے مصنف اور بین الاقوامی اردو جرائد و اخبارات کے مضمون نگار ہیں۔ وہ ادبی، صحافتی اور تنظیمی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتے رہے۔ پہلے اردو سوسائٹی آف آسٹریلیا، اور پھر اردو انٹرنیشنل کا حصہ رہے جو آسٹریلیا میں ادبی تقریبات منعقد کرتی تھیں۔ اس کے ساتھ صحافت میں قدم رکھا اور 1998ء سے 2003ء تک آسٹریلیا کے واحد اردو اخبار ’’پندرہ روزہ اوورسیز‘‘ کے مدیر رہے۔ اگلے دس برس تک ’’صدائے جرس‘‘ کے نام سے آن لائن اخبار نکالتے رہے۔ اس وقت پاک لٹریری فائونڈیشن آف آسٹریلیا کے نیوسائوتھ ویلز ونگ کے سربراہ ہیں جو اردو ادب کی ترویج و ترقی کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ اس کے علاوہ نوائے وقت اور دیگر اخبارات کے لیے باقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں۔ ان کی کہانیاں اور مضامین اردو ڈائجسٹ، سلسلہ، شگوفہ، ارژنگ، فنون اور دیگر ادبی جرائد میں چھپتے رہتے ہیں۔ اس وقت بلیک ٹائون سٹی کونسل کی لائبریریوں میں اردو زبان کے سفیر ہیں۔ علاوہ ازیں برصغیر کے عظیم فلسفی شاعر علامہ محمد اقبال کی حیات و افکار پر ایک تحقیقی کتاب جلد ہی منظرعام پر آرہی ہے۔ اقبالیات پر ان کے کئی مقالات شائع ہوچکے ہیں۔ طارق محمود مرزا کو سیر و سیاحت کا شوق ہے اور درجنوں ممالک کی سیر و سیاحت کرچکے ہیں۔ اس سیر و سیاحت سے اُن کے تجربات اور مشاہدات میں بے حد اضافہ ہوا، یہی وجہ ہے کہ ان کے سفرناموں میں متعلقہ ممالک کے ساتھ مقامی کردار اور ان کی کہانیاں شامل ہیں، یہ سفر نامے انہیں عصرِ حاضر کے سفرنامہ نگاروں سے ممتاز کرتے ہیں۔ صحافیانہ ہنر اور کہانی نویسی کے فن سے انہیں سفرنامہ لکھنے میں مدد ملتی ہے۔
طارق محمود مرزا کی اب تک پانچ تصنیفات منظرعام پر آچکی ہیں:
خوشبو کا سفر: طارق محمود مرزا کا سفرنامہ ’’خوشبو کا سفر‘‘ اردو ادب کے بہترین سفرناموں میں سے ایک ہے۔ یہ برطانیہ، فرانس، سوئٹزر لینڈ، جرمنی، ہالینڈ اور بیلجیم جیسے یورپی ممالک کا سفرنامہ ہے۔
دنیا رنگ رنگیلی: یہ سفرنامہ اُن کے سفرِ یورپ کی اتنی دل کش ڈائری ہے کہ اس کو پڑھنا شروع کردیں تو کتاب رکھنے کو دل نہیں چاہتا۔ یہ سفرنامہ عام سفرناموں سے اس لیے مختلف ہے کہ اس میں بہ یک وقت ناول، کہانی، طنز و مزاح، تاریخ، جغرافیہ، مختلف قوموں کی طرزِ معاشرت، رنگا رنگ کردار اور ان کی دل چسپ کہانیاں شامل ہیں۔ چونکہ مصنف ملٹی کلچرل آسٹریلیا کے باسی ہیں اس لیے انہیں مختلف قومیتوں کے لوگوں کے ساتھ گھلنے ملنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی۔ اس سفرنامے کو 2008ء میں دوست پبلی کیشنز اسلام آباد نے شائع کیا۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد سفرنامہ ہے جس میں درجنوں دل چسپ کردار اور ان کی سماجی کہانیاں شامل ہیں۔
تلاشِ راہ: یہ طارق محمود مرزا کے افسانوں کا مجموعہ ہے جو سماجی مسائل پر ان کے عمیق مشاہدات و تجربات اور ان کی حساس طبیعت کی عکاسی کرتا ہے۔
جیتی جاگتی زندگیوں میں، ہمارے آس پاس ہونے والے بے شمار واقعات ایسے ہوتے ہیں جنہیں کہانی کے رنگ میں پیش کرکے قارئین کی دل چسپی اور راہ نمائی کا کام لیا جاسکتا ہے۔ طارق مرزا نے ’’تلاشِ راہ‘‘ میں ایسے ہی چشم دید واقعات بڑی خوبی کے ساتھ کہانیوں کے روپ میں پیش کیے ہیں۔ اسے مکتبہ خواتین میگزین لاہور نے 2013ء میں شائع کیا۔
سفرِ عشق: یہ مصنف کی رودادِ سفرِ حج ہے، جس میں طارق مرزا کی روحانی، جسمانی اور ذہنی مہم جوئی، ان کے اثرات اور سفر میں پیش آنے والی آزمائشوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس سفرنامے کی بڑی خوبی یہ ہے کہ مصنف کا اسلوبِ بیان نہایت سادہ، رواں دواں، شگفتہ، پُرکشش اور دل نشین ہے۔ اس خوب صورت سفرنامے کو لکھنے میں طارق مرزا نے بہت محنت کی ہے۔ ایک سچے عاشق کے دل میں مقامِ عشق کا ہر منظر نقش ہوگیا تھا، جسے اس نے جزرسی کے ساتھ سینۂ قرطاس پر منتقل کردیا ہے۔ طارق مرزا نے کتاب کیا لکھی ہے عشقِ الٰہی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کلیجہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ یہ کتاب دلی جذبات، عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور عشقِ الٰہی کی نہایت اعلیٰ عکاسی ہے۔ یہ سفرنامہ ادارہ معارف اسلامی، لاہور نے 2016ء میں شائع کیا تھا۔
دنیا رنگ رنگیلی: یہ طارق مرزا کا جاپان، تھائی لینڈ اور نیوزی لینڈ کا سفرنامہ ہے۔ طارق مرزا نے تینوں ملکوں کے سفری تجربات اور معروضی حالات کو مخصوص دل چسپ ادبی انداز میں پیش کیا ہے جس سے یہ کتاب اہم دستاویز اور اردو ادب کا شاہ کار بن گئی ہے۔ طارق مرزا کے ہاں جزئیات نگاری مسحور کن، مشاہدہ متاثر کن، حقائق کو بیان میں دل چسپ انداز میں پرو دینے کا سلیقہ قابلِ داد و تحسین اور معاملات کے تجزیے پر خالص فکری قدرت قابلِ ستائش ہے۔ یہ قلم کی جولانی، طبع کی روانی، سخن کی خوش بیانی ہے۔ ’’دنیا رنگ رنگیلی‘‘ اردو ادب کے سرورق پر طلائی مہر ہے۔ اسے سنگِ میل پبلی کیشنز نے لاہور سے 2019ء میں شائع کیا۔
ملکوں ملکوں دیکھا چاند: یہ سفرنامہ جس میں اسکینڈے نیوین ممالک ڈنمارک، سوئیڈن، فن لینڈ، نیز قطر کے سفری تجربات، مشاہدات اور مصنف کے جذبات و احساسات کو بیان کیا گیا ہے، یہ اسکینڈے نیویا کی تاریخ، جغرافیہ، خطے کے منفرد موسم، ان کے خوش ترین باشندوں کی ناقابلِ فراموش ڈائری ہے۔ طارق محمود مرزا کا یہ سفرنامہ منظرکشی، لفظی مرقع کاری، برمحل موازنے و مقابلے، عمدہ زبان و بیان، نادر تشبیہات و استعارات اور دل کش اسلوبِ بیان کا ایسا دل آویز مرقع ہے جو اردو سفرناموں میں ممتاز و مشرف مقام و مرتبے کا حق دار ہے۔ خالقِ کائنات کی تخلیق کردہ یہ زمین نہایت وسیع ہے اور قدرت کے نظاروں کا کوئی شمار نہیں، جب کہ انسان کی رسائی محدود ہے، پھر بھی مشاہداتِ قدرت طارق مرزا کی دسترس میں آئے۔ انہیں پہلے اپنے دامنِ دل میں سمویا اور پھر منصۂ شہود پر لاکر انسانیت کی خدمت میں پیش کردیا ہے، جو کہیں آپ کے چہرے پر مسکراہٹ، کہیں آنکھوں میں اشک اور کہیں سوچ اور فکر کے دریچے وا کرتے ہیں۔ اسے سنگ میل پبلی کیشنز لاہور نے 2021ء میں شائع کیا۔
اب ان کی چھٹی کتاب جو زیر اشاعت ہے اس کا نام ہے ’’آیات و افکارِ اقبال‘‘۔ اس کا ایک حصہ شاعرِ مشرق حضرت علامہ محمد اقبالؒ کی زندگی کے اہم واقعات ، جبکہ دوتہائی حصہ ان کے اہم نظریات پر مشتمل ہے، جس میں علامہ محمد اقبال اور تہذیبِ مغرب، اقبال کا فلسفۂ خودی، نظریۂ خودی کا مآخذ، اقبال کا عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، علامہ اقبال کی مخالفت کی وجوہات، اقبال کا فلسفۂ عشق، اقبال شاعرِ فطرت… ان موضوعات پر مبنی یہ کتاب سنگ میل پبلی کیشنز کے توسط سے اِن شاء اللہ جلد ہی شائع ہوجائے گی۔
اس کے علاوہ ان کے مضامین ’’اقبال اور احیائے ملت ِاسلامی‘‘، ’’اقبال کے فکری مآخذ‘‘، ’’ادبی گستاخیاں‘‘، ’’اقبال ایک آفاقی شاعر‘‘، ’’آج عہدِ یوسفی تمام ہوا‘‘۔ افسانہ نگاری میں ’’جرمِ محبت‘‘، ’’سونامی‘‘، ’’مکافاتِ عمل‘‘، ’’مٹی پر بوجھ‘‘، ’’واپسی‘‘ مختلف رسائل و اخبارات میں شائع ہوچکے ہیں۔
طارق محمود مرزا ایک باکردار انسان اور بہترین سفرنامہ نگار ہیں جن کی تحریریں پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے انسان علم کے سمندر میں موتی چن رہا ہو۔
طارق مرزا کی تحریریں ہر طرف، ہر جگہ اپنے زندہ ہونے کی گواہی دے رہی ہوتی ہیں، جو الفاظ کاغذ پر منتقل ہوجائیں انہیں سات سمندروں کا پانی بھی مٹا نہیں سکتا اور یہ تحریریں قیامت تک زندہ رہیں گی۔ ایسی تحریریں پڑھ کر انسان راہِ راست ہی اختیار کرتے ہیں۔ ان کی تحریریں اندھیروں میں جگمگاتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ ان کے ایک ایک لفظ میں سیکھنے کا عمل پوشیدہ ہے۔
حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم ہے کہ ’’گود سے گور تک علم حاصل کرو‘‘۔ ان کی تحریروں میں علم کے خزانے نظر آتے ہیں۔ طارق مرزا کے گراں قدر الفاظ اور موتیوں کی لڑی میں پروئی ہوئی تحریریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس مردِ قلندر نے اپنے اردگرد بسنے والوں کو منفی سوچ سے مثبت سوچ کا مسافر بنادیا ہے، اور یہی کام اور کردار اُن کو اس دنیا میں بھی اور اخروی زندگی میں بھی کامیاب ترین کردے گا۔ جو شخص اپنے روزگار سے فارغ ہونے کے بعد بھلائی کے کاموں میں مصروف ہوجائے وہ یقینا اپنے والدین، بزرگوں ، دوستوں اور بہی خواہوں کی دعائوں کے حصار میں ایک خوشبودار پھول ہے۔
اگست 2023ء میں انہوں نے آسٹریلیا میں پہلی مرتبہ علامہ اقبال اسٹڈی سرکل قائم کیا ہے جس کی ماہانہ نشستیں ان کے گھر پر منعقد ہوتی ہیں۔ اس سے وہ دیارِ غیر میں اقبالؒ کا نورِ بصیرت عام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس سلسلے کی 6 نشستیں ہوچکی ہیں۔ اس کے علاوہ ’’اقبال اور عصرِ حاضر کے تقاضے‘‘ کے موضوع پر ایک کانفرنس بھی منعقد کرچکے ہیں جس میں آسٹریلیا بھر سے ماہرین ِاقبال نے شرکت کی تھی۔