پانچواں باب :ما بعد تصور،وجودی ”تصور“

کیئرکیگارڈ اورنٹشے(3)

پرومیتھین پروجیکٹ
اس گمراہ کن ’توقع‘ کے راستے کیئرکیگارڈ ہمیں تصور کے دوسرے اہم محرک کی طرف لے جاتا ہے جسے ہم پرومیتھین پروجیکٹ کہتے ہیں۔ ایک جگہ کیئرکیگارڈ لکھتا ہے کہ یہ توقع پرومیتھین خواہش سے تعلق میں ہے، یہ خواہش کہتی ہے کہ ساری دنیا کو بزور طاقت بدل دیا جائے۔ اب ہم کیئر کیگارڈ کی Either/OrاورSickness unto deathسے چند متون منتخب کریں گے، جن میں پرومیتھین ’توقعات‘ اور تخیلاتی آرزو اور مایوسی کو متوازی حالتوں میں بیان کریں گے کہ یہ یکساں ہیں۔ ہم یہاں دوبارہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ کیئرکیگارڈ جمالیاتی اور مذہبی رویوں کے درمیان تعلق کی پیچیدگی کس طرح محقق کرتا ہے۔

ہمارا پہلا متن Either/Or سے ہے۔ یہ خبردار کرتا ہے کہ تمام وہ رومانیت پسند جو پرومیتھین آرزو کا شکار ہوگئے ہیں، جن کی توقعات کی کوئی حد نہیں، یہ دیکھنا بہت خوش گوار تجربہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی کھلی فضا میں خام خیالیوں کے سمندر میں غوطے مارتا ہے، مگر کوئی بھی اپنی توقعات کو اپنی ہی کشتی پر سوار کرکے سمندر پار کرنے کی جرات نہیں کرتا خواہ اُسے کشتی کا کپتان ہی کیوں نہ بنادیا جائے، کیونکہ توقع ایک کپتان ہے۔ یہ توقع پرومیتھیس کا ایک مشکوک تحفہ ہے۔ بجائے اس کے کہ یہ آدمیوں کو محدودیت اورفنا کی تعلیم دے، یہ انہیں توقعات میں لگائے رکھتا ہے۔ جو کوئی بھی اپنے تجربے میں لمبی لمبی توقعات لے کر چھلانگ لگاتا ہے اُسے یاد رکھنا چاہیے کہ مایوسی بالآخر ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہے۔ لہٰذا اصل فلسفہ یہ ہے کہ کوئی بھی بات تمہارے لیے باعثِ حیرت نہ ہو، صدمہ نہ بنے، یا اسے یوں کہہ لیں کہ کوئی بھی صورتِ حال تمہارے لیے نئی یا اجنبی نہ ہو۔

کیئرکیگارڈ کی وجودی تلخی یہاں بالکل واضح ہے۔ وہ مثبت کلچر کو زمیں دوز کرنے پر تلا دکھائی دیتا ہے۔ اور کیئرکیگارڈ کے ہاں یقیناً پرومیتھیس کا انتخاب، جو رومانوی تصور کا بھولا بھٹکا ہیرو تھا، ہرگز اتفاقی حادثہ نہ تھا۔

ہمارا دوسرا متن اس کے بعد کے کاموں سے ہے۔ Sickness unto death میں مصنف رومانوی مثالیت پسندی کی اُن کوششوں کو مسترد کرتا ہے جو آدمی کے باطنی اورخارجی تضاد میں مصالحت چاہتی ہوں۔ کیئرکیگارڈ خبردار کرتا ہے کہ پرومیتھین توقعات میں پڑکر صرف مایوسی ملتی ہے۔ جب ذات کا جو اپنے آپ میں بٹی ہوئی ہے، ’وجودی حقیقت‘ سے واسطہ پڑتا ہے تو ’ہولناک‘ تجربے سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ مگر یہ ہولناکی خود اپنے اندر بڑی مبہم ہے۔ یہ بیک وقت امید بھی ہے اور مایوسی بھی۔ یہ نکتہ نظر اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ ہمارا تصور نہ صرف پرومیتھین اسلوب میں توقع اور مایوسی دونوں ہی معلوم ہوتا ہے، بلکہ آدم کے قصے میں بھی ’بہکائے جانے اور زمین پر اتارے جانے‘ جیسا ہے۔ کیئرکیگارڈ ان دونوں بنیادی قصوں کو مثال بناکر کہتا ہے کہ آدمی کبھی بھی اپنے وجود کی حدود کو پار نہیں کرسکتا، اور اپنے وجود کا گڑھا پاٹنا اُس کے بس سے باہر ہے۔ اور نہ ہی وہ اس تقسیم کو قوتِ تصور سے متحد کرسکتا ہے۔ کوئی بھی آدمی جب یہ تسلیم کرلیتا ہے کہ اُس کا اس دُہرے پن پر کوئی بس نہیں چلتا، وہ مایوسی میں پناہ لے لیتا ہے۔ یہ بے ریاست بادشاہ بن جاتا ہے۔

اس طرح پرومیتھین نے جو خداؤں کی مقدس آگ چرائی تو یہ بالکل ایسا تھا جیسے ’خدائی تدبر‘ پر نقب لگانے کی کوشش کی گئی۔ ایک ایسی سنجیدہ حقیقت جس کی خدا کے ہاں بڑی قدر ہے، یہ کہ آدمی اپنی محدودیت اور وجودیت پر قانع ہوجائے۔ انسانی مفادات اور اہمیت پر گزارا کرے۔ آدمی اپنے وجود کی حدوں میں رہے، یہی عقل مندی ہے۔ اس طرح یہ ذات اس قدر مایوس ہوجائے کہ خود کو وہ نہ سمجھے کہ جو وہ ہے نہیں۔ یہ سراسر ذات تک محدود رہے، یہاں تک کہ اس کوشش میں ذات کی بھی نفی کردے۔ اس ساری بحث میں ذات ایک ایسا بادشاہ ہے جس کی کہیں کوئی بادشاہت قائم نہیں۔

اس متن میں دو باتیں سمجھ میں آتی ہیں جو اپنی فطرت میں جدید ہیں۔ پہلی بات یہ مشاہدہ کہ پرومیتھین پروجیکٹ ایک افسانہ تھا کہ آدمی خدا کی جگہ لے لے۔ یہ محض ذات کی دُہری نقل تھی، اپنے ہی موضوعی تصور سے خدا خلق کرنے کی کوشش تھی۔ درحقیقت آدمی اپنے ہی عکس کی مذمت کررہا تھا۔ کیئرکیگارڈ کے لیے یہ جرمن مثالیت پسندوں اور ہیگل سے سیکھا جانے والا آخری سبق تھا۔ دوسری بات نسبتاً زیادہ جدید ہے جو اس متن میں ملتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی کی خودشناسی کی کوئی حقیقت نہیں۔ رومانوی مثالیت پسندی کی پرومیتھین ’توقع‘ کی قسمت میں ناکامی لکھی ہے۔ وجودیت نے’توقع‘ کا یہ شکار گھات لگا کے کیا ہے۔ یہ خوفناک دریافت کہ آدمی کے تصور کی گہرائی محض خالی پن ہے۔ کیئر کیگارڈ نے ماورائیت پسند مثالیت پسندوں کی امید پرستی کو سختی سے مسترد کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ آدمی کی موضوعیت کا باطنی جوہر کھوکھلے پن میں ہے۔ ایسا وجودی ہیولا جو فضا میں تحلیل ہوجائے، اس کی کسی کاوش کی کوئی وقعت نہیں۔ اس کا اپنے حادثاتی وجود سے فرار ممکن نہیں، اُسے اسی بے معنویت میں گزربسر کرنی ہے۔ یہاں کیئرکیگارڈ پیش بینی کرتا ہے کہ وجودی فلسفہ عدمیت بیسویں صدی کے مفکرین البرٹ کامیو اور سارتر کی مرکزی تھیم بننے جارہا ہے۔

اسی متن میں آگے چل کر کیئر کیگارڈ تسلیم کرتا ہے کہ مسیحیت سے بڑھ کر کسی عقیدے نے خدا اور آدم کو باہم اتنا قریب نہیں کیا۔ صرف خدا خالقِ حقیقی ہے اور ہر انسانی ایجاد اور جدت بالآخر ایک دھندلا تصور جو خواب بن کر رہ جائے گی۔ آج تک کسی عقیدے میں اتنی شدت سے کسی توہینِ مذہب کا دفاع نہیں کیا گیا جتنا عیسائیت نے ’’آدمی میں خدا کے حلول‘‘ کا کیا ہے۔ دونوں کو ایک کردیا گیا اور ایسا جبر و تشدد کی مدد سے کیا گیا۔

یہ گناہ کو بھلانے کی کوشش کرنا ہے، اور اس کی جڑ آدم کے اس قیاس میں ہے کہ آدمی خدائی کے ساتھ وحدت میں آسکتا ہے۔ مگر ان تصوراتی خام خیالیوں نے آدمی کے وجود کی حقیقت اور محدودیت کا کچھ نہیں بگاڑا، ہمارا گناہ گار ہونا اور فانی ہونا جوں کا توں قائم رہا۔

آدمی کے عارضی وجود سے غافل ہونا رومانیت پسندوں کی کوششوں میں نمایاں تھا۔ اور یہ مثالیت پسندی صرف جمالیاتی رویّے تک محدود نہ تھی، یہ مذہبی رجحان میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ مگر کیئرکیگارڈ کہتا ہے کہ جیسے جیسے ’خدا کی سلطنت‘ کی اصطلاح دنیا کے لیے استعمال ہوتی گئی، عیسائیت منسوخ ہوتی چلی گئی۔

کیئرکیگارڈ کو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جدیدیت کی روح کی سب سے بڑی غلطی آدمی کے تصور کو خدائی سے گڈمڈ کرنا ہے۔ یہ بیک وقت آدمی کے وجود کی محدودیت اور خدا کی لامحدودیت میں الجھا دیتا ہے۔ کیئر کیگارڈ نوجوان مثالیت پسند کی کہانی کی جانب لوٹتا ہے اور پرومیتھین کی تصوراتی گمراہیوں اور عیسائیت کی نظریاتی دست درازیوں میں ربط تلاش کرتا ہے، اسے مستحکم کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ سامنے کا مشاہدہ ہے کہ بچے اور نوجوان زندگی کے بارے میں جوشیلی خواہشات رکھتے ہیں اور ٹھوس تجربے کے لیے کوئی خانہ خالی نہیں چھوڑتے۔

لہٰذا مثبت کلچر جمالیاتی اور مذہبی دونوں زاویوں سے مسترد کردیا جاتا ہے۔ یوں وجودی آدمی اپنے تمام دکھوں، تنہائیوں، اکیلے پن اور خام خیالیوں کے ساتھ نمایاں ہوکر سامنے آجاتا ہے۔ وجودی آدمی کے لیے نہ دنیا میں کوئی راہِ نجات ہے اور نہ اپنی ذات میں ہی کوئی معنی موجود ہیں۔ کیئر کیگارڈ کے لیے صرف خدا پر ایمان بچتا ہے مگر وہ بھی خوف پر مبنی ہے جس سے آدمی کا معروضی یقین شک و شبہ کی نذر ہوجاتا ہے۔(جاری ہے)