رفح پامال کرنے کی تیاریاں اسرائیل و امریکہ کے عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ غزہ اسرائیل کا افغانستان بننے کے قریب ہے۔
غزہ میں عرب فوج اتارنے کی بازگشت کچھ عرصے سے سنائی دے رہی تھی۔ اسرائیلی وزیر دفاع یوف گیلینٹ (Yoav Gallant) کے دورۂ امریکہ سے واپسی پر تل ابیب اور ’’ہمدرد‘‘ عرب ممالک کے درمیان رازونیاز میں اضافے سے یہ افواہ اب حقیقت کا روپ دھارتی نظر آرہی ہے۔ اسی دوران اسرائیل نے بڑی فوجی مشق کا آغاز کردیا ہے جس میں بری، بحری و فضائی فوج کے علاوہ چھاپہ مار اور بحریہ کے برآبی (Amphibious)دستے حصہ لے رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ان مشقوں کا مقصد شمال میں کسی بھی صورتِ حال سے نمٹنے کی تیاری کو مضبوط کرنا ہے۔گویا یہ لبنان کی سرحد پر ہونے والی کشیدگی سے نمٹنے کے لیے ہے، لیکن مشق میں برآبی دستے کی شمولیت سے یہ رفح پامال کرنے کا منصوبہ نظر آرہا ہے۔
غزہ کے نوحے سے پہلے غربِ اردن میں ڈکیتی کی ایک واردات کا تذکرہ:
چند روز پہلے اسرائیلی حکومت نے وادی اُردن (Jordan Valley) میں فلسطینیوں کی 1976ایکڑ اراضی کو قومی ملکیت میں لے کر اسے State Land قرار دے دیا۔ اب یہاں مکانات بناکر اسرائیلیوں کو آباد کیا جائے گا۔ امریکی اور فرانسیسی صدور نے اس قدم پر ’’گہری تشویش‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے اسے امن کوششوں کے لیے نقصان دہ قراردیا ہے۔ اسرائیلی وزرا اب اسی ماڈل پر غزہ میں بھی بستیاں آباد کرنے کی باتیں کررہے ہیں۔ سابق صدر ٹرمپ کے داماد جیررڈ کشنر غزہ کے خوبصورت و شفاف نیلگوں ساحل پر رال ٹپکاتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اگر یہاں آباد لوگوں کو کہیں اور منتقل کرکے اس کی صفائی اور تزئین و آرائش کرلی جائے تو غزہ کے Waterfrontکا دنیا میں کوئی ثانی نہیں۔ جناب کشنر Real Estate Kingکے نام سے مشہور ہیں۔
اسرائیلی ذرائع ابلاغ پر جو خبریں شایع ہورہی ہیں اُن کے مطابق واشنگٹن کی حالیہ ملاقاتوں میں اسرائیلی وزیردفاع کو اس خدشے سے آگاہ کردیا گیا کہ رفح پر حملے کی صورت میں وہاں موجود پندرہ لاکھ فلسطینی بمباری و گولہ باری کا براہِ راست نشانہ بنیں گے، اور دھاوے کا نتیجہ کچھ بھی ہو، اس کارروائی میں کئی لاکھ شہریوں کی ہلاکت یقینی ہے۔ فلسطینیوں کی موت تو ایسی کوئی بات نہیں کہ جس پر امریکی قیادت اپنی نیندیں خراب کرے، لیکن صدر بائیڈن کو ڈر یہ ہے کہ اگر امریکی مسلمانوں کے ووٹ نہ ملے تو اُن کے لیے نومبر میں انتخاب جیتنا مشکل ہوگا کہ جن ریاستوں میں کانٹے کا مقابلہ ہے وہاں مسلم ووٹ فیصلہ کن ہیں۔
چنانچہ حملے سے قبل رفح سے شہریوں کی جبری منتقلی پر امریکہ اور اسرائیل رضامند ہوچکے ہیں۔ غزہ حملے کے وقت اسرائیل کی حکمتِ عملی یہ تھی کہ شہریوں کو مصری سرحد کی جانب دھکیل کر انھیں سینائی ہجرت پر مجبور کردیا جائے۔ لیکن یہ منصوبہ کامیاب نہ ہوسکا۔ چھے ماہ کی مسلسل بمباری، عمارتوں کی مسماری اور شدید غذائی قلت بلکہ قحط کے باوجود مزاحمت کار اکثر مقامات پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ امریکی سیارے، جاسوسی ڈرون اور دوسرے جدید ترین آلات اسرائیلی قیدیوں کا سراغ یا پتا لگانے میں ناکام رہے اور اسرائیل اب تک غزہ میں کسی بھی جگہ اپنی مستقل چوکی نہیں بناسکا۔
رمضان کے آغاز سے اسرائیلی فضائیہ اوسطاً 70 حملے یومیہ کررہی ہے۔ اس کے باوجود اہلِ غزہ ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں، اور مزاحمت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ جمعرات 28 مارچ کو شفا اسپتال کے قریب تصادم میں اسرائیلی کمانڈو یونٹ کا کمانڈر مارا گیا اور 16 فوجی شدید زخمی ہوئے۔ غزہ سے معذور ہوکر واپس آنے والے جوانانِ رعنا کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ جمعہ امیدِ نو یا New Hope Party حکومتی اتحاد سے الگ ہوگئی۔ پارٹی کے سربراہ گِدون سعر نے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ حکومت غزہ میں اپنے جنگی مقاصد حاصل کرنے میں اب تک ناکام رہی ہے۔ میری جماعت اس معاملے میں اثرانداز ہونے کی صلاحیت کھوچکی ہے، لہٰذا امیدِ نو اب حکومت کا حصہ نہیں۔
انسانی حقوق کی عالمی انجمن Euro-Med Human Rights Monitor نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسرائیل غزہ پر 25ہزار ٹن بارود برسا چکا ہے، یا یوں کہیے کہ 41کلومیٹر لمبی اور 6کلومیٹر چوڑی اس پٹی پر دوایٹم بم گرادیے گئے۔ اس سفاکی نے جو تباہی پھیلائی ہے اس کا اظہار امریکی ڈاکٹروں کے ایک وفد نے کیا ہے جو 28 مارچ کو غزہ پہنچا۔ الاقصیٰ اسپتال پہنچتے ہی وفد کی قائد ڈاکٹر ثانیہ حسن نے آنکھوں دیکھا حال بتاتے ہوئے کہا ’’سامنے ایک بچے کی لاش ہے جس کے سر کو میزائیل کا ٹکڑا پاش پاش کرگیا۔ لاش کے قریب اُس کی ننھی بہن آخری سانسیں لے رہی ہے، اس بدنصیب کے چہرے کا بڑا حصہ اُڑ چکا ہے۔ ایک دس سال کا زخمی بچہ تکلیف کی شدت سے چیخ چیخ کر ماں باپ کو پکار رہا ہے۔ میں اس کو کیسے بتائوں کہ تمہارے ماں باپ تمہیں تڑپتا چھوڑ کر اپنے رب کے پاس جاچکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس کی بہن لیٹی ہے لیکن وہ اسے پہچان نہیں سکتا کہ اس بچی کا سارا جسم جلا ہوا ہے۔‘‘
اس دورے سے ایک دن پہلے الجزیرہ پر ایک بصری تراشا جاری ہوا۔ تراشے میں فلمایا منظر کچھ اس طرح ہے کہ غزہ میں دو نہتے فلسطینی جو غیر مسلح ہونے کی علامت کے طور پر سفید پرچم اٹھائے ہوئے تھے، چند گز کے فاصلے سے گولی مارکر ختم کردیے گئے۔ شاید اسے بھی Collateral Damageسمجھ کر برداشت کرلیا جاتا، لیکن اس کے بعد اُن کی لاشوں کو بلڈوزر سے کچرے کی طرح دھکیلتے ہوئے نشیب میں گراکر اس پر ملبہ ڈال دیا گیا۔ یہ منظر مغرب میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوا لیکن مذمت تو کجا، تشویش کی کوئی خبر بھی سامنے نہ آئی۔
فلسطینی تو برباد ہوگئے لیکن غزہ حملہ آوروں کے لیے بھی ایک ڈرائونا خواب بن گیا ہے۔ فوجی نقصانات پر اسرائیل کے شہری اب مایوسی کی حد تک پریشان ہیں۔ اسرائیل و امریکہ کے عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ غزہ اسرائیل کا افغانستان بننے کے قریب ہے۔ وزیر دفاع کے دورۂ واشنگٹن میں امریکہ کے دفاعی حکام نے ’’ڈرتے ڈرتے‘‘ جناب گیلینٹ کو یہ باور کرانے کی ’’ہمت‘‘کرلی کہ مزاحمت کاروں کو فنا کرنا اتنا آسان نہیں، کہ اسرائیل اپنے ترکش کا ہر تیر استعمال کرچکا ہے لیکن مستضعفین کے عزمِ مزاحمت میں کوئی کمی نہیں آئی۔
کچھ روز پہلے نیتن یاہو نے کہا تھا کہ اگر ضروری ہوا تو اسرائیل رفح حملہ مؤخر کرسکتا ہے۔ اس بات سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہوکہ اسرائیل خونریزی کے بجائے تنازعے کو بات چیت کے ذریعے پُرامن انداز میں طے کرنے پر آمادہ ہوگیا ہے۔ تاخیر کی اصل وجہ اسرائیلی فوج کی ہچکچاہٹ ہے۔ وزیردفاع گیلینٹ کے دورۂ واشنگٹن سے پہلے یہ خبر آئی تھی کہ اسرائیلی فوج کے سربراہ نے وزیراعظم نیتن یاہو سے رفح پر حملے کو مؤخر کرنے کی درخواست کی ہے۔ جنرل صاحب کا کہنا تھا کہ رفح کے لیے انھیں مزید بموں اور بمبار طیاروں کی ضرورت ہے۔ مطلوبہ اسلحے کی شاپنگ لسٹ لے کر جناب گیلینٹ واشنگٹن گئے، اور جس روز اسرائیلی و امریکی وزرائے دفاع کی ’’خوشگوار‘‘ ملاقات اور ڈیموکریٹک ارکانِ کانگریس سے ’’خوش گپیوں‘‘کی تصاویر شایع ہوئیں اسی دن واشنگٹن پوسٹ میں انکشاف ہوا کہ بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو 2000 پونڈ کے 1800 اور 500 پونڈ کے 500بم فراہم کرنے کی منظوری دے دی۔ تازہ کھیپ میں F-35 بمبار طیارے بھی شامل ہیں جن کی تعداد 25بتائی جارہی ہے۔ یہ اسلحہ اسرائیل پہنچنے میں تین سے چار ہفتے لگیں گے جس کی وجہ سے رفح حملہ مؤخر کرنا ضروری سمجھا گیا۔
صدر بائیڈن کی اس دورُخی پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیٹر برنی سینڈرزنے کہا ’’بمباری بند کرنے کی التجا اوردوسری جانب اسرائیل کو بموں کی مسلسل فراہمی… بائیڈن انتظامیہ کس کو بے وقوف بنارہی ہے؟‘‘ واضح رہے کہ سینڈرز صاحب خود بھی ایک یہودی ہیں لیکن اُن کے خیال میں اسرائیل تیزی سے ایک بنیاد پرست ملک بنتا جارہا ہے۔ یورپ کے ایک مؤقر مرکز دانش Stockholm International Peace Research Institute (SPIRI) نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ غزہ میں استعمال ہونے والا 69 فیصد اسلحہ امریکی اور 30 فیصد جرمن ساختہ ہے۔
اسلحے کے انتظار کے ساتھ رفح سے انخلا کے منصوبے پر کام شروع ہوچکا ہے۔ اس سے پہلے ایک نشست میں ہم نے اس جانب اشارہ کیا تھا۔گزشتہ ہفتے اسرائیل کے وزیرِ امورِ تزویرات (Strategic Affairs)ران ڈرمر کے حوالے سے خبر شایع ہوئی کہ غزہ آنے والی انسانی امداد کی تقسیم کے لیے تین عرب ممالک اپنی فوج بھیجنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔ ڈرمر صاحب نے ان ملکوں کے نام نہیں بتائے لیکن تاثر دیا کہ اس فہرست میں سعودی عرب اور قطر شامل نہیں۔ ساتھ ہی یہ اشارہ بھی ملا کہ مصر اور متحدہ عرب امارات کے دستے غزہ اترنے کی تیاری کررہے ہیں اور تیسرے ملک کے بارے میں کہا گیا کہ وہ اسرائیل کا دوست ہے لیکن پڑوسی نہیں، جس سے ایسا لگا کہ بحرین کے فوجی بھی غزہ آئیں گے۔
ڈرمر صاحب کے مطابق امدادی سامان سے لدے بحری جہازوں کے لیے غزہ کے ساحل پر امریکہ جو گھاٹ یا Pierتعمیر کررہا ہے، اس کی نگرانی عرب فوج کرے گی جس کے لیے ان ملکوں سے نقل و حمل اور امورِ بندرگاہ کے ماہرین بھی غزہ آئیں گے۔ امداد کی تقسیم کے لیے ’غیر عسکری‘ اہلِ غزہ کو بطور امدادی کارکن بھرتی کیا جائے گا۔ اہلِ غزہ کو بھرتی کرنے کا بنیادی مقصد مزاحمت کاروں کی جاسوسی اور اُن کے خلاف رائے عامہ کو بھڑکانا ہے کہ جو ہاتھ رزق تقسیم کریں گے اُن کے لیے دراندازی اور دست درازی آسان ہوگی۔ اسی کے ساتھ عرب فوج اہلِ رفح کو محفوظ و آرام دہ جگہ منتقل کرنے کے کام کی نگرانی بھی کرے گی۔ جب کسی نے ڈرمر صاحب سے پوچھا کہ یہ محفوظ مقام کون سا ہوگا؟ تو انھوں نے ’’ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے‘‘ کہہ کر بات ٹال دی لیکن باتوں ہی باتوں میں یہ کہہ گئے کہ غزہ کا بڑا علاقہ تو اب رہنے کے قابل نہیں رہا۔
اسی بنا پر خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ امدادی سامان کی تقسیم کے دوران جب عرب فوجی اور غزہ کے رضاکار عوام کا اعتماد حاصل کرلیں گے تب سینائی کی طرف ہجرت کا ڈول ڈالا جائے گا۔ مصر کے جنرل السیسی پُرامید ہیں کہ جیسے انھوں نے اخوان المسلمون کو مصر میں کچلا اسی طرح وہ اخوانی فکر سے وابستہ غزہ مزاحمت کاروں کو لگام دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ السیسی صاحب کا یہ اعتماد تکبر کے ساتھ زمینی حقائق سے اُن کی لاعلمی ظاہر کررہا ہے۔ مصری فوج نے 1973ء کے بعد کوئی جنگ نہیں لڑی۔ اخوان المسلمون ایک پُرامن و غیر مسلح دعوتی و سیاسی تحریک ہے جسے انھوں نے آہنی بوٹوں سے مسل دیا۔ اس کے برعکس غزہ کے مزاحمت کار نہ صرف مسلح ہیں بلکہ اسرائیلی فوج سے لڑنے کا ان کا تجربہ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔
اس تناظر میں غزہ اترنے والی عرب فوج اور اسرائیل کے مقامی گماشتوں کے لیے مستضعفین کو کچلنا اتنا آسان نہیں، لیکن بھائی کا ہاتھ اپنے ہی بھائی کے لہو سے سرخ ضرور ہوجائے گا۔ شاید یہی Strategic Ministerصاحب کی اسڑیٹجی ہے۔
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔