انسان کی طاقت

طاقت سے انسانوں کو غلام تو بنایا جاسکتا ہے مگر ان کے دل نہیں جیتے جا سکتے۔

طاقت کا خمیر خوف سے اٹھا ہے، چنانچہ طاقت بلند اخلاقی تصورات اور اصولوں سے بے نیاز ہوجائے تو اس کے استعمال سے خوف ہی جنم لے گا۔ خوف سے نفرت پیدا ہوتی ہے، اور نفرت کی انتہا ایک ایسی بے تعلقی ہوتی ہے جس کی نظر میں انسان شے کے مرتبے سے بھی گر جاتا ہے، اس کے بعد ہزار کیا لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا اور تہذیبوں اور قوموں کو فنا کردینا بھی کوئی مسئلہ نہیں رہتا۔

طاقت کا استعمال ایک دھاری تلوار کی حیثیت سے کیا جاتا ہے، لیکن طاقت دو دھاری تلوار کی طرح ہوتی ہے۔ یہ جتنا دوسروں کو کاٹتی ہے اس سے کچھ زیادہ طاقت استعمال کرنے والے کو لہولہان کرتی ہے۔ اس سے جتنا خوف دوسروں میں پیدا ہوتا ہے اس سے زیادہ خوف طاقت استعمال کرنے والے میں پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اس خوف کی نشاندہی آسان نہیں ہوتی، کیوں کہ طاقت کا استعمال کرنے والا ہمیشہ اپنے لیے ایسا نظریہ، خیال، تصور یا مسئلہ گھڑنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جس کی بنیاد پر طاقت کا استعمال جائز نظر آنے لگتا ہے۔ لیکن جیسا کہ ظاہر ہے یہ صورتِ حال خود طاقت کی کرشمہ سازی ہوتی ہے، یہ کرشمہ سازی اکثر مؤثر ثابت ہوتی ہے، لیکن انسانی تاریخ میں کبھی ایسی کرشمہ سازیوںکو حقیقی معنوں میں Justify نہیں کیا جاسکا ہے اور نہ کبھی کیا جاسکے گا۔ لیکن اس کے باوجود تاریخ شاہد ہے کہ انسان نے جس چیز پر سب سے زیادہ انحصار اور اعتماد کیا ہے وہ طاقت ہی ہے۔ مگر اس کی بھی ایک وجہ ہے۔

انسان کے لیے طاقت کی سب سے بڑی دل کشی یہ ہے کہ وہ انسان کو یقین دلا دیتی ہے کہ اس کے ذریعے سب کچھ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن طاقت سے بہت ہی کم قابلِ قدر کام لیے جا سکتے ہیں، جیسے مونگ پھلی توڑنا وغیرہ۔ مگر یہ بات انسان مشکل ہی سے سمجھتا ہے، چنانچہ انسان طاقت کے استعمال پر مائل رہتا ہے، اور جیسے جیسے طاقت کا استعمال بڑھتا ہے انسان طاقت کا مطیع ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طاقت میں ’’زندگی‘‘ کا احساس بہت ہوتا ہے لیکن طاقت کی ’’زندگی‘‘ بلند اخلاقی تصورات اور اقدار سے انحراف کا نتیجہ ہوتی ہے، تاہم اس میں شدت بہت ہوتی ہے اور شدید چیزوں کو اکثر انسان حقیقی اور سچی سمجھ لیتا ہے، اور جو چیزیں حقیقی اور سچی ہوں وہ یقینا قابلِ قدر بھی سمجھ لی جاتی ہیں۔ یہ پہلو طاقت کی دل کشی کا ایک اہم حصہ ہے۔ لیکن کیا طاقت سے سب کچھ کیا جاسکتا ہے؟

یہ بات قدیم دانش کا حصہ ہے کہ طاقت سے انسانوں کو غلام تو بنایا جاسکتا ہے مگر ان کے دل نہیں جیتے جا سکتے۔ اس بات کا مفہوم بالکل عیاں ہے، اور وہ یہ کہ طاقت اور اس کا استعمال انسانوں کے درمیان صرف ایک تعلق اور ایک تصور کو جنم دیتا ہے… فاتح اور مفتوح کے تعلق کو، آقا اور غلام کے تصور کو۔ آقا نرم خو بھی ہوجایا کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود آقا اور غلام کے تعلق کا عدم توازن برقرار رہتا ہے۔ اس عدم توازن میں آقا کے لیے تسکین کے ہزار پہلو ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انسان دل جیتنے سے کہیں زیادہ انسانوں کو فتح کرنے میں کیوں دل چسپی لیتا ہے؟

دل جیتنے کا مطلب انسانی سطح پر تعلق کی استواری ہے، اور تعلق کا ایک مفہوم دو طرفہ ابلاغ کے لیے دَر کھولنا ہے۔ ایسے ابلاغ کے لیے، جو ہزار باہمی مناسبتوں اور رابطوں کے انکشاف و اظہار کا وسیلہ بنتا ہے۔ ان مناسبتوں اور رابطوں کے ذریعے انسان ایک دوسرے کو زیادہ جاننے کے عمل سے گزرتے ہیں۔ زیادہ جاننے کی خواہش انسان کے اس جذبے کا اظہار ہے جسے عرفِ عام میں دوستی کہا جاتا ہے۔ طاقت اس کے برعکس عمل کرتی ہے۔ طاقت انسانی سطح پر تعلق کو مسترد کرتی ہے اور ایک بہت سطحی سماجی یا سیاسی تعلق پر زور دیتی ہے۔ طاقت اور اس کے استعمال کا مفہوم ہی یہ ہے کہ انسان دو طرفہ ابلاغ کے تمام راستے بند کرتے ہوئے یک طرفہ ابلاغ کا ’’نظام‘‘ وضع کررہا ہے۔ طاقت میں اس امر کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہوتی کہ انسان باہمی مناسبتوں اور رابطوں کے انکشاف یا اظہار کے عمل سے گزریں۔ طاقت اس حقیقت کا اعلان ہوتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو کم سے کم جاننے کی کوشش کریں گے۔ گویا طاقت دوستی کے ہر امکان کو مسترد کردیتی ہے۔ طاقت سے متعلق یہ تمام پہلو اہم اور دل چسپ ہیں، اور اگر ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی اور تاریخی تجربات کو غور سے دیکھیں تو ان پہلوئوں کا مشاہدہ اور ادراک دشوار نہیں۔

یہ ایک اہم بات ہے کہ جب انسانی تعلق میں طاقت در آتی ہے تو نام نہاد دو طرفہ تعلق سراسر منفی صورت اختیار کرلیتا ہے، اس لیے کہ انسان پھر صرف ایک دوسرے کی کمزوریوں اور منفی پہلوئوں ہی کو دیکھتے رہتے ہیں، لیکن منفی پہلوئوں کا یہ دو طرفہ مشاہدہ بھی کسی آگہی کا ذریعہ نہیں بنتا۔ اس لیے کہ کمزوریوں اور منفی پہلوئوں کے مشاہدے کا مقصد ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے اور استعمال کرنے کی خواہش سے عبارت ہوتا ہے۔ یہ صورتِ حال انسان کی انفرادی اور اجتماعی تہذیب کو تباہ کرکے رکھ دیتی ہے اور انسان کی تخلیقی صلاحیتیں سلب ہوکر رہ جاتی ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس سوال کا جواب بڑی حد تک واضح ہوکر سامنے آجاتا ہے کہ انسان دل جیتنے سے زیادہ انسانوں کو فتح کرنے میں کیوں دل چسپی لیتا ہے۔ بات یہ ہے کہ دل جیتنے کی خواہش ایک انسانی خواہش ہے، اور یہ خواہش صرف انہی لوگوںکو لاحق ہوسکتی ہے جو زندگی کو مذہبی یا اخلاقی تناظر میں دیکھتے ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ دل جیتنے کی خواہش اور جدوجہد آسان نہیں۔ اس کے لیے انسان کو خود اپنے اندر ہزار تبدیلیاں لانی پڑتی ہیں جن کے نتیجے میں انسان خود ایک مختلف شخصیت بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس طاقت کے ذریعے فتح حاصل کرنا نسبتاً بہت آسان ہے، اس کے لیے انسان کو اپنے اندر کوئی خاص تبدیلی نہیں کرنی پڑتی۔ طاقت کا استعمال یوں بھی مسئلے کا ایک ’’آسان حل‘‘ تلاش کرنے کی خواہش پر دلالت کرتا ہے۔ انسان اگر کسی چیز کو فتح نہیں کرسکتا تو کم از کم برباد تو کر ہی سکتا ہے، اور برباد کردینے سے بھی فتح کی کچھ نہ کچھ لذت حاصل ہوجاتی ہے۔ لیکن بات صرف اتنی سی نہیں ہے۔

اس سلسلے میں تصرف اور ’’حاصل‘‘کے تصورات بھی اہم ہیں۔ دل جیتنے میں ’’تصرف‘‘ کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ اس عمل میں کسی نہ کسی مرحلے پر تعلق کی نوعیت ازخود تکمیلی یا Complimentry ہوجاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تعلق کی نوعیت یہ ہوجائے گی تو پھر کسی کو ’’استعمال‘‘کرنے یا ’’تصرف‘‘ میں لانے کی خواہش بھی پیدا نہیں ہوگی۔ اس عمل میں ’’حاصل‘‘ کا مفہوم قربت اور ایک دوسرے کو جاننے کے احساس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ طاقت کا معاملہ اس کے برعکس ہے، کیوں کہ اس کے دائرے میں تصرف اور حاصل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ طاقت اگر تصرف کا ذریعہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ یہ تصرف مادّی بھی ہوسکتا ہے اور ذہنی و نفسیاتی بھی۔ حاصل کا تصور تصرف سے برآمد ہوتا ہے اور اس کے ذریعے طاقت کی ’’عظمت‘‘ اور ’’شوکت‘‘ ظاہر ہوتی ہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ طاقت کا خمیر خوف سے اٹھا ہے، لیکن اس خوف کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ یہ کم و بیش ایک بنجر خوف ہوتا ہے۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ خوف کی ایک صورت وہ بھی ہے جو ’’نامعلوم‘‘ اور ’’ماورا‘‘ سے علاقہ رکھتی ہے اور جس سے تخلیق کے سوتے پھوٹتے اورخیر اور حسن کے چشمے ابلتے ہیں۔