برصغیر پاک و ہند میں داڑھی کا مسئلہ بہت حساس رہا ہے۔ داڑھی واجب یا سنت؟ سنت ہے تو موکدہ یا غیرموکدہ؟ اس حوالے سے داڑھی کی مقدار بھی اہلِ علم کے ہاں موضوعِ بحث رہی ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر حمیداللہ مرحوم کی رائے منفرد تھی، اُن سے ایک سائل نے سوال کیا ’’داڑھی عرب کا خاص رواج تھا، یہاں تک کہ مشرک لوگ بھی داڑھی رکھتے تھے، رسم و رواج شرعی نقطہ نظر نہیں بن سکتے، لیکن آج کل داڑھی کو سنتِ موکدہ سمجھا جاتا ہے؟‘‘
ڈاکٹر حمیداللہ نے فرمایا:
’’مشرکینِ عرب ہی نہیںکارل مارکس بھی داڑھی رکھتا تھا، انڈوچائنا کے ہوچی منہ کی بھی داڑھی تھی، لینن کی بھی داڑھی تھی۔ آپ پیرس آئیں گے تو دیکھیں گے کہ ہزاروں فرانسیسی غیر مسلم داڑھی رکھتے ہیں۔ آپ داڑھی کے فرنچ کٹ سے بھی واقف ہوں گے۔ میں اس کا قائل نہیں ہوں کہ داڑھی دوسروں کی تقلید میں رکھی جائے، آپ بھی قائل نہیں ہوں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس بارے میں قرآن و حدیث میں کیا احکامات ہیں؟ قرآن مجید میں ایک جگہ اشارتاً ذکر آیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور سے نیچے اترے تو دیکھا کہ ان کی قوم یعنی یہودی گائو پرستی میں مشغول ہیں۔ وہ اپنے بھائی حضرت ہارونؑ کو اپنا نائب بناکر چھوڑ گئے تھے۔ ان پر خفا ہوئے۔ قرآن کے الفاظ (الاعراف: 150) ہیں کہ حضرت ہارون کی داڑھی کو کھینچ کر ان کے ساتھ سختی کا برتائو کیا۔ یہ اشارتاً ذکر ہے، یعنی داڑھی رکھنا پیغمبروں کی سنت ہے۔ حدیث میں اس سے زیادہ صریح الفاظ ملتے ہیں ’’داڑھی رکھو‘‘۔ اس حدیث اور سنتِ رسولؐ کے پیش نظر داڑھی رکھنا محض رسم و رواج نہیں بلکہ اسلامی حکم بن جاتا ہے۔ حکم کے متعلق آپ کو معلوم ہوگا کہ درجات پائے جاتے ہیں، یعنی اگر فرض کیجیے کہ قرآن میں صیغۂ امر استعمال کرکے کہا گیا ہے کہ ’’زکوٰۃ دو‘‘، اور وہی صیغۂ امر استعمال کرکے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’خیرات کرو‘‘ تو ظاہر ہے کہ دونوں کا حکم یکساں نہیں ہے۔ اگر زکوٰۃ دینے سے میں انکار کروں تو حضرت ابوبکر صدیقؓ تلوار کھینچ کر مجھے مجبورکرسکیں گے کہ زکوٰۃ دوں، لیکن اگر میں خیرات دینے سے انکار کردوں تو حضرت ابوبکر صدیقؓ ممکن ہے مجھے کہیں کہ برا مسلمان ہے لیکن مجھے تلوار کے ذریعے مجبور نہیںکریں گے۔ یعنی احکام میں درجہ بندی ہوتی ہے، اس لحاظ سے ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ داڑھی رکھنا بے شک اسلامی حکم ہے لیکن اس درجے کا حکم نہیں ہے جیسے اللہ کو ایک ماننا، یا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا نبی ماننا، یا مثلاً نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا وغیرہ… اس کا درجہ نسبتاً فروتر ہوگا۔‘‘
(انتخاب، تدوین اور تلخیص: محمود عالم صدیقی،’’فکر و نظر‘‘ کی ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ پر خصوصی اشاعت، اپریل۔ ستمبر 2003ء، تالیف صفحہ 282)