بلوچستان، سینیٹ کے انتخابات خرید و فروخت جاری

ایمل ولی کا بلوچستان سے انتخابات لڑنے کا فیصلہ

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی مقبولیت اور خوف نے مولانا فضل الرحمان کو بلوچستان کے ضلع پشین کے حلقہ این اے265 سے انتخاب لڑنے پر مجبور کیا۔ یہ محض خوف نہیں تھا بلکہ کھلی حقیقت تھی، کیوں کہ 2018ء کے عام انتخابات میں بھی مولانا فضل الرحمان عمران خان کی جماعت کے امیدوار علی امین گنڈاپور سے شکست کھا گئے تھے۔ چناں چہ2024ء کے عام انتخابات میں جے یو آئی کا اپنا عمل اور گفتار بتا چکی تھی کہ اِس بار بھی شکست یقینی ہے۔ بلوچستان میں بھی میدان چنداں آسان نہ تھا اگر محمود خان اچکزئی ان کے حق میں بلا شرط دست بردار نہ ہوتے۔ چوں کہ خیبر پختون خوا میں عوامی نیشنل پارٹی بھی عمران خان کی جماعت کے ہاتھوں مار کھا چکی ہے، قومی اسمبلی میں اس کی موجودگی زیرو ہوگئی ہے، سینیٹ میں صرف دو سینیٹر رہ گئے ہیں۔ خیبر پختون خوا کی صوبائی اسمبلی کی بھی صرف ایک نشست جیت سکی ہے۔ اس طرح مولانا فضل الرحمان کے بعد عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختون خوا کے صدر ایمل ولی خان نے بھی بلوچستان کا رخ کرلیا ہے۔ والد کی علالت کے بعد پارٹی کی قیادت عملاً ان کے پاس ہے۔ مولانا قومی اسمبلی کی نشست پر بلوچستان سے جیت گئے جبکہ ایمل ولی ایوانِ بالا تک رسائی کے لیے قسمت آزمائی کررہے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں عوامی نیشنل پارٹی کے ارکان کی تعداد 3 تھی، جو اب 2 رہ گئی ہے۔ پی بی 50 قلعہ عبداللہ پر عوامی نیشنل پارٹی کے زمرک اچکزئی کی جیت کا نوٹیفکیشن جاری ہوا تھا۔ زمرک اچکزئی نے رکنیت کا حلف بھی اٹھالیا تھا۔ اس حلقے پر اُن کے مدمقابل پختون خوا ملّی عوامی پارٹی کے میر وائس اچکزئی اور جے یو آئی کے محمد نواز کاکڑ نے الیکشن لڑا تھا۔ میر وائس اچکزئی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، عدالت نے دوبارہ انتخاب کا حکم دے دیا۔ اس طرح بلوچستان اسمبلی میں اے این پی کے اس وقت دو ارکان ہیں۔ ایک نعیم بازئی اور دوسری خاتون رکن ہیں جو مخصوص نشستوں پر رکن اسمبلی منتخب ہوئی ہیں۔ ایمل ولی کو پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹ کی جنرل نشست پر چنگیز جمالی، سردار محمد عمر گورگیج، ٹیکنو کریٹ پر بلال مندوخیل، خواتین پر کرن بلوچ امیدوار ہیں۔ پیپلزپارٹی اور نیشنل پارٹی کے درمیان بھی معاہدہ موجود ہے۔ نیشنل پارٹی کے امیدوار جان بلیدی ہیں۔ نیشنل پارٹی نے صدارتی انتخاب میں آصف علی زرداری کو ووٹ دیا ہے۔ ایمل ولی کا بلوچستان سے سینیٹ انتخاب لڑنا معیوب گردانا جاتا ہے اور معیوب ہے بھی۔ بلوچستان میں ماضی میں دوسرے صوبوں کے لوگ سینیٹ کا انتخاب لڑچکے ہیں۔ یہ افراد بھاری سرمایہ لگا کر جیتے ہیں۔ باہر کے لوگوں نے بالخصوس خرید و فروخت کی گندی روایت عام کی ہے۔ آصف علی زرداری نے اپنے ایک معتمد یوسف بلوچ کو 2012ء میں بلوچستان سے سینیٹ کا انتخاب لڑایا۔ یوسف بلوچ پیسوں والا بندہ ہے اور 8 فروری 2024ء کے انتخابات میں لیاری سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوا ہے۔ تب یوسف بلوچ کی نامزدگی پر بلوچستان کے اندر بڑی چوں چرا ہوئی تھی۔ پیپلزپارٹی کے اندر میر صادق عمرانی مخالف کرتے رہے، بعد ازاں انہوں نے حمایت کردی۔ اُس وقت صادق عمرانی بلوچستان اسمبلی کے رکن تھے۔ یوسف بلوچ نے ووٹ کے بدلے دولت تقسیم کی تھی، پیپلز پارٹی کے اراکینِ اسمبلی کو بھی نوازا تھا۔ مارچ2021ء میں عبدالقادر آدھمکے۔ یہ بھی سرمایہ دار ہیں۔ پہلے پی ٹی آئی نے ٹکٹ دیا۔ کارکنوں نے شور شرابا کیا تو ٹکٹ لے کر ظہور آغا کو دے دیا گیا۔ عبدالقادر نے آزاد حیثیت سے انتخاب لڑا تو پی ٹی آئی نے اپنے امیدوار کو ان کے حق میں دست بردار کرادیا۔ پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ بلوچستان عوامی پارٹی کی حمایت دلوائی گئی تھی، چناں چہ عبدالقادر خوب سرمایہ لگاکر کامیاب ہوگئے تھے اور پھر تحریک انصاف کا حصہ بن گئے۔

سینیٹ کے انتخابات میں بلوچستان کے لوگ بھی ووٹوں کی خریداری کے بل پر کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ انہی میں ایک احمد خان خلجی بھی تھے جو کامیاب ہونے کے بعد ’باپ‘ میں شامل ہوئے۔ احمد خان خلجی کو اِس بار جنرل نشست پر جے یو آئی نے ٹکٹ جاری کیا ہے۔ اس پر جمعیت کے حلقوں میں ناراضی پائی جاتی ہے۔ جے یو آئی قیادت کی دلیل یہ ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں ان کے ارکان کی تعداد 12 ہے۔ سینیٹ کی جنرل نشست پر کامیابی کے لیے سات سے آٹھ ووٹوں کی ضرورت ہے، اس طرح جے یو آئی کا ایک امیدوار کامیاب ہوسکتا ہے۔ دوسرے امیدوار کی کامیابی کے لیے مزید چارپانچ ووٹوں کی ضرورت ہے جو احمد خان خلجی خریدیں گے۔ احمد خان ملک کی ایک بڑی تعمیراتی کمپنی زیڈ کے بی کے مالک ہیں، یعنی نظام مصطفی کی داعی جماعت کہتی ہے کہ یہ بندہ باقی ووٹ خریدے گا، اس طرح سینیٹ میں ان کے ارکان کی تعداد دو ہوجائے گی جو جے یو آئی کی بھرپور نمائندگی کریں گے۔ حالاں کہ احمد خان سیاسی ہیں نہ بولنے لکھنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ 6 سال رکنِ سینیٹ رہے، نہیں خیال کہ ایک دن بھی سینیٹ میں بولے ہوں۔

بات دوبارہ ایمل ولی کی کرتے ہیں جنہوں نے اچھی روایت قائم نہیں کی ہے۔ دستور کے اندر ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں جاکر کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کی ممانعت ہے۔ ایمل ولی نے یہاں یہ تجاوز کیا ہے کہ قومی شناختی کارڈ میں پتا اپنے علاقے چارسدہ کے بجائے ارباب ہائوس کوئٹہ درج کردیا ہے۔ ارباب ہائوس نواب عبدالظاہر کاسی کی رہائش گاہ ہے۔ یہ خاندان اے این پی سے وابستہ ہے۔ ارباب عبدالظاہر کاسی کے بیٹے نواب زادہ عمر فاروق سینیٹ کے رکن ہیں۔ آئین کی شق 62میں سینیٹ کی رکنیت کے لیے باقی اہلیتوں کے ساتھ متعلقہ صوبے کا ووٹر ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اصولاً تو ایمل ولی کو نہیں آنا چاہیے تھا۔ اُن کے لیے اوپر سے راستہ صاف کرایا گیا ہے۔ اے این پی صرف دو ووٹوں پر ایمل ولی کو کامیاب نہیں کراسکتی تھی۔ صاف بات ہے کہ پیپلز پارٹی کو کہا گیا ہے کہ ایمل ولی کے لیے جگہ بنائے وگرنہ پیپلز پارٹی اضافی سیٹ جیتنے کی پوزیشن میں ہے،گویا اس نے اپنی ایک سیٹ کی قربانی دی ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے زمرک خان اچکزئی آشیرباد کے حامل گردانے جاتے ہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ جماعت اسلامی بلوچستان نے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کو بلوچستان سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کی پیشکش کی تھی جو انہوں نے قبول نہیں کی۔ آتے بھی تو دو ووٹوں سے اُن کا کیا فائدہ ہوتا!

بہرحال بلوچستان کے اندر 2 اپریل کے سینیٹ انتخابات میں بھی نرالی کہانیاں سامنے آئیں گی۔ خصوصاً باپ پارٹی کے 5 اراکان اور مسلم لیگ (ن) کے 17ارکانِ اسمبلی کا یکسو ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ جمعیت علماء اسلام بھی اسی قطار میں شمار کی جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے اندر شاید معاملہ کنٹرول میں رہے۔ نواز لیگ نے تو ابتدا میں ہی پارٹی کے ایک امیدوار سیدال خان ناصر کو باہر کرنے کی اپنے تئیں سعی کرلی تھی۔ سیدال ناصر کو نواز لیگ کے صدر وزیراعظم پاکستان شہبازشریف نے جنرل نشست پر ٹکٹ جاری کیا ہے۔ ان کی تجویز کنندہ راحیلہ درانی اور تائیدکنندہ نواب جنگیز مری تھے۔ جانچ پڑتال کے دوران نواب جنگیز مری حاضر نہ ہوئے۔ یوں سیدال ناصر کے کاغذاتِ نامزدگی قبول نہ ہوئے۔ بعد ازاں 23مارچ کو نواب جنگیز اور راحیلہ درانی الیکشن کمشنر کے روبرو پیش ہوئے تو ان کے کاغذات کی قبولیت ہوئی۔ شاید پارٹی کی مرکزی قیادت نے تاکید کردی ہوگی، وگرنہ سیدال ناصر کو باہر رکھنے کی ترکیب سوچی سمجھی باور کی جاتی ہے۔ سیدال ناصر مسلم لیگ (ن) کے بہت ہی دیرینہ کارکن اور رہنما ہیں۔ میاں نوازشریف پر کسی بھی افتاد اور مشکل وقت میں اس شخص نے ساتھ نہیں چھوڑا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 2 اپریل کو سینیٹ انتخابات والے روز نون لیگ کے اراکینِ بلوچستان اسمبلی میاں برادران کی ہدایت کی پاس داری کریں گے؟ کیوںکہ یہاں گھاگ لوگوں نے اپنے اپنے لوگوں کو فٹ کرنے کی سوچ رکھی ہے۔