نئی حکومت آتی ہے تو نئی نئی بھرتیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ نئے وزیراعظم بھرتی کیے جاتے ہیں، نئے وزیر اور نئے مشیر۔ پَر ہوتے یہ سب پُرانے ہی شکاری ہیں، جال سمیت۔ کبھی ہوتا ہوگا کہ ’نیا جال لائے پُرانے شکاری‘۔ مگر اب تو جال بدلنے کی بھی زحمت نہیں کرتے۔
’بھرتی‘ عجیب لفظ ہے۔ اس کے لفظی معنی ہیں: کسی چیز کو کسی چیز میں بھردینا۔ خالی جگہ پُر کرنا۔ بھرنے کے عمل میں بسا اوقات اچھی خاصی زور زبردستی بھی کرنی پڑتی ہے۔ بھری جانے والی چیزوں کو کبھی کُوٹ کُوٹ کر بھرا جاتا ہے، کبھی ٹھونس ٹھونس کر۔ پرانے محکموں میں نئے ملازم رکھے جاتے ہیں تو، نہ جانے کیوں، اس کارِ ضروری کو بھی ’بھرتی‘ ہی کا عمل گردانا جاتا ہے۔ ہم نے تو سنا ہے کہ فوج میں بھی ’بھرتی‘ ہوا کرتی ہے۔ شاید یہی دیکھ کر حضرتِ داغؔ بھی ایک ’بھرتی گھر‘کھول کر بیٹھ گئے تھے، جنت دوزخ کا بھرتی گھر۔ پھر اس پھیر میں پڑگئے:
دوزخ جگہ عذاب کی، جنت ثواب کی
بھرتی کہاں کروں دلِ خانہ خراب کی؟
’بھرتی‘ کا ایک مفہوم ’بُری بھلی چیز سے کوئی کمی پوری کردینا‘ بھی ہے۔ کمی پوری کرنے کا یہ کام اکثر وبیشتر شاعری میں کیا جاتا ہے، جس سے بھرتی کے اشعار کی صنعت وجود میں آتی ہے۔ مگر کابینہ نئی ہو یا پرانی… وزرا، مُشرا کُوٹ کُوٹ کر بھرے گئے ہوں یا ٹھونس ٹھونس کر… بغور جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ ہیں سب ’بھرتی‘ کے۔ میرؔ صاحب، یوں تو کہا کرتے تھے کہ ’’ہو کوئی بادشاہ، کوئی یاں وزیر ہو۔ اپنی بلا سے، بیٹھ رہے جب فقیر ہو‘‘۔ مگر پتا چلا کہ ’’اندرخانے‘‘ اُن کا دل کسی ’گھریلو کابینہ‘ (Kitchen Cabinet) میں مشیر بھرتی ہوگیا تھا، انجام وہی ہوا جو کسی خاندانی کابینہ کا باورچی خانے کے مشیروں کے ہاتھوں (باورچی خانے سے صوبائی ’کابینے‘ تک) ہوا کرتا ہے:
ایسا ہی اُس کے گھر کو بھی آباد دیکھیو
جس خانماں خراب کا یہ دل مشیر ہو
بھرتی کا موضوع آج یوں چھڑ گیا کہ نئی سرکار آتی ہے تو پُرانے سرکاری افسروں سے بھی چھیڑ چھاڑ فرماتی ہے۔ شطرنج کے مہروں کی طرح اِسے یہاں سے اُٹھایا، وہاں رکھ دیا اور جو وہاں تھا اُسے نہ جانے کہاں رکھ دیا؟ رکھ کر بھول گئے۔کسی کو ’ناکارہ‘ جانا تو اُسے ’افسر بکارِ خاص‘ بنادیا۔ پہلے سے بھرتی کیے گئے افسروں کے ساتھ کیا جانے والا یہ سلوک ’ تعیناتی‘ (تلفظ: تعی ناتی) کہلاتا ہے۔ مگر ہمارے ذرائع ابلاغ پر آج کل تواتر سے اس عمل کو ’تعیُّناتی‘ کہا جارہا ہے۔ تواتر سے یوں کہا جارہا ہے کہ نئی نئی تعیناتیاں بھی تواتُر ہی سے ہورہی ہیں۔
تعیُّن کا مطلب ہے مخصوص کرنا، معیّن کرنا، طے کرنا، نشان دہی کرنا یا حد بندی کرنا۔ کسی کو بغیر شبہے کے دیکھنا، مثلاً چوری یا قتل کے مجرم کا یقین سے تَعَیُّن۔ تعیُّن کا ایک مطلب کوئی چیز مثلاً وقت وغیرہ مُعیّن کردینا بھی ہے۔ جیسے تسلیمؔ اپنی کوتاہی تسلیم کرتے ہوئے کہتے ہیں:
کیوں کر کہوں احباب سے کس وقت ملوں گا
اوقات کا وحشت میں تعیُّن نہیں ہوتا
تعیُّن اصطلاحِ تصوف میںقید، روک اور مطلق کے برعکس ہونے کو بھی کہتے ہیں۔جیسا کہ سوداؔ نے کہا:
پردے کو تعیُّن کے درِ دل سے اُٹھا دے
کھلتا ہے ابھی پل میں طلسمات جہاں کا
پردہ اُٹھواتے اُٹھواتے سوداؔ ’طلسمات‘ کو ’واحد‘ باندھ بیٹھے۔ لیکن کیوں؟ بھئی مرضی اُن کی! اُردو اُن کے گھر کی لونڈی تھی۔
تعیُّن کی جگہ اکثر ہم تَعیین (تلفظ: تَع اِین) بھی بولتے ہیں۔ جیسے اقبالؔ نے بولا اور غالباً ’کابینہ سازی‘ ہی کے کھیل میں بولا کہ
اس کھیل میں تعیینِ مراتب ہے ضروری
شاطر کی عنایت سے تُو فرزیں میں پیادہ
بے چارہ پیادہ تو ہے اک مُہرۂ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارارہ
اسی تَعیین سے ہم نے تعینات اور تعیناتی بنا لیا ہے، جس کا تلفظ ’تعی نات‘ اور ’تعی ناتی‘ بنتا ہے۔ مگر اہلِ زبان کو ہم نے ’تعے نات‘ اور ’تعے ناتی‘ بولتے بھی سنا ہے۔ ’تعینات‘ کرنے کا مطلب ہے کسی شخص کو کسی کام پر مقرر کردینا، اورتعیناتی کا مطلب ہے ’تقرری‘، کوئی فریضہ سونپنا یا کسی کو کسی پر مسلط کردینا۔ خوب اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن میں جب ہم اپنی نانی اماں (رحمہا اللہ) کو پریشان کرتے اور جس کام میں وہ مصروف ہوتیں اُس میں حرج ڈالنے والی حرکتیں کرتے تو وہ جھنجلا کرکہا کرتیں:
’’تم کیوں ہمارے اوپر تعینات کردیے گئے ہو؟‘‘
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ لفظ ’تعیُّنات‘ یا ’تعیُّناتی‘ نہیں ہے۔ ذرائع ابلاغ پرسرکاری اطلاعات ’منہ زبانی‘ پہنچانے والے یا پڑھ پڑھ کر خبریں سنانے والے اگر چاہیں تو اپنے تلفظ کی اصلاح کرلیں۔ چلتے چلتے ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ تعیُّن عربی لفظ ہے، تَعیین فارسی لفظ ہے اور تعینات یا تعیناتی خالص اُردو اصطلاح ہے۔
خالص اُردو اصطلاحات استعمال کرنے کا رواج اب کم ہوتا جارہا ہے۔ اتفاق سے کل ملا واحدی کی معرکہ آرا کتاب ’’میرے زمانے کی دلی‘‘ پھر ہاتھ آگئی۔ پھر پڑھا، پھر مزہ آیا۔صحافی، شاعر، ادیب مولانا عارف ہسوی مرحوم کا ذکر کرتے ہوئے ملا واحدی لکھتے ہیں:
’’عارف صاحب ہندو مسلم اتحاد کے زبردست حامی تھے، کسی قیمت پر اتحاد کو توڑنا پسند نہیں کرتے تھے اور اتحاد توڑنے والے ہندو، مسلمانوں کو انگریز کا گرگا سمجھتے تھے‘‘۔
’گُرگا‘ کا لفظ پڑھ کر لطف آگیا۔ واحدی صاحب نے جس موقعے پر ’گُرگا‘ استعمال کیا ہے اب ایسے موقعے پر عموماً ‘Agent’کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ مگر ایجنٹ تو بھلے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثبت نمائندگی اور باوقار نیابت کے لیے۔ علاوہ ازیں اگر کوئی کسی کا سیانا کارندہ ہو، کسی کا زرخرید ہو، کسی کا گماشتہ ہو، کسی کا چمچہ ہو یا کسی کا ایسا تنخواہ دار ہو جو کہیں اور جاکر اُس کی خاطر کوئی منفی کام کررہا ہو تو ایجنٹ وہ بھی کہلاتا ہے، مگرجہاں واحدی صاحب نے استعمال کیا ہے وہاں ’گُرگا‘ سے زیادہ موزوں لفظ کوئی ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
’گُرگا‘ دہلی والوں کی زبان میں چھوکرے، چیلے اور شاگرد کو کہتے ہیں۔ جب کہ لکھنؤ والے اس سے مراد ’شیطان، بدکار، بدوضع اور گھٹیا ملازم‘ لیتے ہیں۔ لیکن فرہنگِ آصفیہ والے مولوی سید احمد دہلوی نے اپنی فرہنگ میں ’گُرگا‘ کے، مندرجہ بالا مطالب کے علاوہ جو معنی لکھے ہیں اُن کو پڑھ کر ملا واحدی مرحوم کو داد دینے کا دل چاہتا ہے کہ صاحب کیا لفظ چنا ہے ایجنٹی کرنے والوں کے لیے۔ فرہنگِ آصفیہ میں ’گرگا‘ کے جو مزید معنی دیے گئے ہیں وہ یہ ہیں:
’’برتن مانجھنے والا، برتن دھونے والا، کمینہ نوکر، کمینہ مصاحب، سفلہ مقرب، ادنیٰ ہم راز، شیطونگڑا، اخوان الشیاطین میں سے‘‘۔
جب کہ نوراللغات کے مطابق فارسی میں ’گُرگا‘ ایک قسم کی جوتی (گرگابی)کو بھی کہتے ہیں۔ ضرورت پڑی تو پہن لی، کام نکل گیا تو اُتار پھینکی۔