زیر تبصرہ کتاب کا موضوع اگر دیکھا جائے تو ایک انتہائی اہم موضوع ہے۔ یوں تو صنفی تقسیم اور صنف کے جھگڑے کلی طور پر مغرب کا علمی اور عملی مسئلہ ہے، اسلام میں اس سلسلے میں واضح احکامات موجود ہیں۔ مغرب میں عورت کے مقام کا معاملہ مساوات، انصاف اور حقوق سے ہوتا ہوا اب اپنی مرضی سے جنس کی تبدیلی تک پہنچ چکا ہے۔
تیز رفتار سماجی میڈیا کی وجہ سے یہ تبدیلیاں ہر معاشرے کو متاثر کررہی ہیں۔ ماضی میں جو سماجی اثرات مرتب ہوتے ہیں ان میں دہائیاں لگ جاتی تھیں، اب دنوں میں مرتب ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں کتاب کا موضوع انتہائی ’’موزوں‘‘ ہے، کیوں کہ ٹیکنالوجی کے زور پر تبدیل ہوتے معاشروں میں صرف ’’فرد‘‘ نہیں بدل رہا بلکہ معاشروں کی قدریں بھی بدل رہی ہیں۔
کتاب کے مصنف مرزا محمد الیاس نے بہت اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ مسلم معاشروں سے مصنف کی مراد بنیادی طور پر عرب معاشرے ہیں۔ اس کے ساتھ مصنف نے وضاحت کی ہے کہ بعض خصوصیات کی بنا پر عرب معاشروںکے ساتھ ملائشیا اور ترکی کے غیر عرب معاشروں میں مختلف ادوار میں نسائی اور جدید تحریکات کی سرکاری و غیر سرکاری سرپرستی کے اثرات کا بھی مطالعہ کیا گیا ہے۔
مسلم معاشرت کے تعارف میں مصف رقم طراز ہیں:
’’دنیا میں بین الاقوامی عورت کوئی نہیں ہے، اسی طرح بین الاقوامی مرد بھی نہیں ہے۔ انسان بہ حیثیت انسان بین الاقوامی ہے لیکن ہر تہذیب و معاشرت کا انسان مقامی ہے‘‘۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ گلوبلائزیشن کے اس دور میں مقامی انسان خواہ مرد ہو یا عورت… تلاش کرنا مشکل ہے، شہروں میں تو شاید ناممکن محسوس ہوتا ہے۔
کتاب کے پہلے باب میں مصنف نے عرب دنیا کا تعارف اقوام متحدہ کے ادارے اکنامک اینڈ سوشل کمیشن برائے مغربی ایشیا کی رپورٹ کی بنیاد پر پیش کیا ہے اور عرب دنیا کا تجزیہ اسی رپورٹ کے تناظر میں کیا ہے۔ اس باب میں مصنف کا تجزیہ یہ ہے کہ عرب ممالک بشمول مصر، شام کے مسلمانوں میں عورت سے نفرت نظر آتی ہے لیکن اس کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصنف نے کیوں کہ اپنی تحریر میں مکمل طور پر مغربی لٹریچر سے استفادہ کیا ہے، اس کی وجہ سے ان معاشروں کا تجزیہ کرتے ہوئے مصنف کا انداز معذرت خواہانہ ہے، ورنہ عرب معاشروں کو ’’جنت النسا‘‘ کا بھی خطاب دیا گیا ہے جہاں عورتوں کو سر آنکھوں پر بٹھا کر رکھا جاتا ہے۔
ایک اور اہم معاشرت جس کا تعارف و تجزیہ پیش کیا گیا ہے وہ ترکی ہے۔ ترکی کی معاشرت کا تجزیہ کرتے ہوئے مصنف کہتے ہیں کہ صنفی اعتبار سے ترک بچی کو کبھی امتیازی سلوک کا سامنا نہیں رہا ہے، یہ بہت اہم بات ہے۔ اس پر بھی تعلیم کے دروازے بچے کی طرح کھلے ہیں۔ بچی کو اسکول بھیجنے کی روایتی عادت بھی موجود ہے۔ ترکی میں شادی کی عمر لڑکے کے لیے 23 سال اور لڑکی کے لیے 20 سال مقرر کی گئی ہے۔ شادی ہونے کے بعد لڑکی ملازمت نہیں کرتی۔ مصنف کے مطابق ترک عورت تین حصوں میں تقسیم ہے: عثمانی عورت جسے ’’حرم کی قیدی‘‘ بھی کہا جاتا ہے، کمال ازم کی عورت اور ری پبلکن عورت۔ مصنف کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ عورت ہی ترک معاشرے میں اقدار و روایات کے تسلسل کی ضمانت ہے۔
کہا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب مسلم معاشروں میں عورتوں کے حوالے سے مغربی سوچ کا جائزہ اور تجزیہ ہے۔ مصنف نے اس سوچ کا جواب دینے کی کوشش بھی کی ہے۔ یہ کتاب اس موضوع پر دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے ایک اچھا مطالعہ ہے۔