فلسفہ وجودیت سب سے جُدا ہے، یہ آدمی کی ’محدودیت‘ کا فلسفہ ہے۔ یہ اس دنیا میں آدمی کو اُس کی ٹھوس حالت میں بیان کرتا ہے۔ یوں کہ جب رومانوی موضوعیت اس کی میراث بھی ہے، یہ آدمی کی تخلیقی صلاحیتوں کی وجودی بندشیں ظاہر کردیتا ہے۔ مثال کے طور پر فلسفہ وجودیت رومانوی مثالیت پسندی کی ’امید‘ پر ضرب لگاتا ہے۔ یہ ’ماورائی تصور‘ کے پَر باندھ دیتا ہے اور اُس کی راہ میں شب و روز کی مشکلات حائل کردیتا ہے، تاکہ وہ اڑان نہ بھرسکے۔ رومانیت پسندوں کے دعوے کے برخلاف، کہ ’تصور‘ ماوراالطبیعات اور آفاقی ہے، وجودیت اس بارے میں بڑی تلخ ہے، بلکہ شدید مایوس ہے۔ یہ ’تصور‘ کو ماورا سے زمین پر واپس کھینچ لائی ہے۔ فلسفہ وجودیت کی اصطلاحیں خود بولتی ہیں: صدمہ، خوف، بدنصیبی، حماقت، فنا، عدم، کراہت، گھٹن، متلی وغیرہ۔
مختصراً فلسفہ وجودیت ’تخلیقی تصور‘ کے بارے میں زیادہ تر المناک اصطلاحوں سے کام لیتا ہے۔
مثبت تنقید کا کلچر
رومانوی مثالیت پسندی کے لیے عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ اٹھارہویں صدی کے اواخر سے انیسویں صدی کے اوائل تک مغربی ’’تصور‘‘ کے نظریات پر اثرانداز رہی، یعنی کانٹ کی تنقید ”عقلِ محض“ کی پہلی اشاعت سے شیلے کی Defence of Poetryتک جو 1821ء میں شائع ہوئی۔ اسی طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ انیسویں صدی کے وسط سے بیسویں صدی کے وسط تک وجودیت کا فلسفہ مغربی فکر پہ چھایا رہا یعنی کیئرکیگارڈ سے نٹشے اور پھر سارتر تک۔ یہ سلسلہ فلسفہ کا ’اثبات‘ سے ’انکار‘ تک کا سفر تھا۔ ’’فکر‘‘ کی تاریخ میں دیگر فلسفوں کی مانند یہ بھی مقفل ذہن کے خالی پن میں ظاہر نہیں ہوا تھا بلکہ سماجی اور تاریخی حالات و حوادث میں ہی اس کی جڑیں تھیں۔
ہربرٹ مارکوز (Herbert Marcuse) اور دیگر مفکرین نے رومانوی مثالیت پسندی کے عہد اور مغربی متوسط طبقے کی اٹھان میں گہرا تعلق شناخت کیا ہے۔ یہاں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ایک سماجی گروہ ہے جو تصور کی روحانی دنیا میں سرگرم رہا اور مادی دنیا کے خلاف مزاحمت کرتا رہا، اس نے مثبت تنقید کے کلچر کو پروان چڑھایا تاکہ افادیت پرستی اور صنعتی شور شرابے کی مخالفت کا سامنا کرسکے۔ مارکوز اس کی وضاحت یوں کرتا ہے:
’’ایک ایسی ثقافت جس کی سرزمین ’آرٹ‘ہے، یہ پورے سماجی نظام سے محاذ آرا ہے۔ اس مثبت ثقافت کی اقدار اور مثالیے سماجی حقیقت سے بلند ہونا چاہتے ہیں۔ یہ کلچر خود کو سماجی نظم سے الگ کردیتا ہے۔ اس ثقافت کی خصوصیات عالمانہ تعلیم وتحقیق، فکری سرگرمیاں، اور آزادی سے رہنا ہے… آزادی سوچنے کی اور اس فکر کے پھیلاؤ کی۔ ایک ایسی فکر جو سماجی نظم کو للکار رہی تھی۔ یہ ’آرٹ‘ کی نجات دہندہ کارگزاری تھی۔ یہ سیاست میں ڈھل کر انقلاب برپا کردینا چاہتی تھی۔‘‘
جب کہ رومانوی کلچر جب جمالیات کی ’موجودگی‘ کا اثبات کررہا تھا، وہ سماجی ’موجودگی‘ کی حالت سے نظریں چرا رہا تھا۔ اس نے جمالیات کی داخلی دنیا بسا رکھی تھی۔ حقیقی دنیا سے یہ مخاصمانہ تعلقات تصوراتی اقلیم کے اندر حالتِ ’سکون‘ میں تھے۔ تاہم مثبت کلچر ایسا نہ تھا۔ یہ اپنے افکار حقیقت کی دنیا میں پھیلانا چاہتا تھا، فرد کی خوشی کا مطالبہ کررہا تھا۔ جب کہ جاگیردارانہ قدیم معاشروں میں ایسے مطالبے کا سوچنا بھی محال تھا کہ جہاں آدمی نظام کی چکی میں پس رہا تھا، اور سوال اٹھانے کی کسی میں جرات نہ ہوتی تھی۔ اگر رومانوی مثالیت پسندی آدمی کی آزادی کو خودساختہ دنیا میں مقید کررہی تھی تو اس کی ایک اہم وجہ کمزور سیاسی نظام بھی تھا۔ مگر جوں ہی متوسط معاشرہ بطور ”اسٹیٹس کو“ مستحکم ہوا، اس کی ثقافت کا اثباتی کردار کمزور پڑتا چلا گیا۔ جب آزادی، خوشی، اور جمالیات جدید متوسط طبقے کے تثلیثی ہدف کے طور پر باقی رہ گئے، تو اصل ہدف کا احساسِ زیاں بھی سماج سے رخصت ہوا۔ یہ ایک افسانہ بن کر رہ گیا۔ یہ اب زیادہ سے زیادہ گریز کی طرف مائل ہوگیا۔ آرٹ کی خالص انسان پرستی بس حقیقت سے اخذ شدہ تصویر کی جوابی تصویر بن کررہ گئی۔ بورژوا طبقہ ترقی پر یقین رکھتا تھا، ایک بہتر مستقبل کے لیے وہ پرانی پابندیوں اور جامد نظام سے حالتِ بغاوت میں تھا، اس لیے دھیرے دھیرے ’نجات‘ کے عقائد سے پھر گیا۔ آزادی نے بھی بورژوا طبقے کو مفادات سے آگے نہ جانے دیا، یوں یہ طبقہ معاشرے کے بڑے حصے سے بتدریج الجھ گیا۔ اس کا ’مثالیت پسند‘ وصف اب زیادہ تر ’خام خیال تلافی‘ کی کارگزاری بن کر رہ گیا۔ ایک الگ تھلگ محروم فرد کی ضرورت کا جواب عمومی انسانیت سے دیا جانے لگا۔ اذیت زدہ جسم کو روح کے نغموں سے بہلایا جانے لگا اور اندر کی آزادی سے باہر کی جکڑبندی کا مداوا کیا جانے لگا۔
مثبت کلچر کی فلسفیانہ علامات کانٹ اور جرمن مثالیت پسندوں کے ماورائی عقائد میں نمایاں تھیں۔ یہاں انسانیت کی بطور ایک باطنی حالت تعریف پیش کی گئی، تاریخ کو فرد کا باطنی معاملہ کہا گیا، اور ’فنا‘ کو آدمی کے باطنی قانون کا فیصلہ سمجھا گیا۔ کانٹ نے ہمیں ’ماورائی فلسفہ‘ کا مفصل خاکہ فراہم کردیا ہے کہ جب وہ لکھتا ہے کہ آدمی کی مسرت اور مکمل ہونے کا احساس دراصل باطنی ہے۔ ’ماورائی تصور‘ سے آشنائی آدمی کو تمام دنیاوی اور آسمانی واسطوں سے ماورا و بے نیاز کردیتی ہے، اور وہ خود ’قدر‘ کا براہِ راست ذریعہ بن جاتا ہے۔ مگر اسی طرز پر آدمی ایک خیالی حالت میں ڈھل جاتا ہے: ’’اس کی روحانی باطنیت اور آزادی آدمیوں کی ٹھوس موجودگی کو وجود میں لانے کے بجائے خود ایک ’آدمی‘ بن جاتی ہیں۔ تاہم ’ماورائی ذات‘ کی اس رفعت کے باوجود ہر فرد تاریخی طور پر اپنے روزمرہ وجود سے بندھا ہوا ہے۔ آدمی صرف اُسی صورت خود کو خود کفایت بناکر پیش کرسکتا ہے جب وہ زندہ انسانوں سے قطع تعلق کرلے۔ اگر وہ آدمی کے خیالی وجود کی تلاش میں رہے گا تو حقیقت پسندی کی مخالفت کرے گا۔ اس فلسفیانہ جمود اور آفاقیت میں اس حقیقت کو چھپانے کی خواہش اُسے حالیہ امورِ زندگی سے بے دخل کردے گی۔ ادراک کے ہرعمل میں فرد کو لازماً پھر سے دنیاوی تجربے کی منظم درجہ بندی کرنی ہوگی۔ کیونکہ ماورائیت کے دائرے میں سوچنے کا تخلیقی عمل نئی دنیا کی تشکیل ممکن نہیں رہنے دیتا۔“
اگرچہ وجودیت انسان کی تخلیقی قوت کا اظہار کرتی رہی مگر اس نے خود کو ماورائی مثالیت پسندی کے خیالی اثبات سے دور رکھا۔ وجودیت نے ازسرنو انسانی مسائل کو متعارف کرایا کہ جنہیں مثالیت پسندی نے نظرانداز کردیا تھا۔ اور اس طرح کرنے میں وجودیت نے ماورائیت کی تنہائی کو نمایاں کیا۔ فرد کو واپس گھسیٹ کر وجود کی مشکلات کے موسموں میں لاکھڑا کیا۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کیئر کیگارڈ نے مثالیت پسندی کی خوش فہمی کی مذمت کی اور اس بات کا اعلان کیا کہ انسانی زندگی کسمپرسی اور موت تک سفر کے سوا کچھ نہیں ہے۔ نٹشے نے اعلان کیا کہ سچ سب دھوکا ہے اور کسی فرد کا سب سے جرات مندانہ عمل زندگی کی من مانی گردش قبول کرلینا ہے۔ آگے چل کر سارتر اور بیسویں صدی کے دیگر وجودیوں نے تصور کے اثباتی رجحان کو الٹ کے رکھ دیا۔
سارتر جب رومانوی انسان پرستی کے قضیے کا جائزہ لیتا ہے، اسے اس کے ’بے تکے پن‘ کی انتہا پرلے جاتا ہے۔ آدمی وہی کچھ ہے جو وہ خود کو بناتا ہے، سارتر کہتا ہے کہ انسان کی خلّاقیت کا عمل بغیر کسی بنیاد اور مقصد کے جاری ہے۔ سارتر انسان کی مہربان فطرت کا انکار کرتا ہے کہ جس کی تشہیر کانٹ اور جرمن مثالیت پسند کرتے رہے تھے۔ اس کا اصرار ہے کہ ہم، ہماری پیدائش بے معنی ہے اور ہمارا وجود بلا جواز ہے۔ وہ جو مسلسل یہ کہتے ہیں کہ وجود ’ناگزیر‘ ہے، دھوکے میں ہیں۔ درحقیقت زمین پر انسانی نسل کا ظہور محض ایک حادثہ ہے۔
تاہم رومانوی مثالیت پسندی اور وجودیت کے درمیان اس اختلاف کے باوجود کئی مماثلتیں بھی نظر آتی ہیں۔ دونوں فلسفے اس بات پر متفق ہیں کہ تصور ایک تخلیقی قوت ہے جو حس اور ادراک سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ دونوں جدید تناظر میں انسان کی موضوعیت کی بالادستی کو اولین قرار دیتے ہیں۔ مگر کیئر کیگارڈ سے نٹشے تک اور 19ویں صدی کے سارتر اور کامیو تک بیسویں صدی تک وجودیت کے فلسفہ تصور کی جو راہ ہے، ہمیں اس پر چلنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ کہاں کہاں راہیں جُدا ہوتی ہیں۔(جاری ہے)