افسوسناک امر یہ ہے کہ محمودخان اچکزئی بلوچستان اسمبلی سے ایک بھی ووٹ نہ لے سکے
بلوچستان میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کا مرحلہ 2 مارچ 2024ء کو مکمل ہوا۔ پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار سرفراز بگٹی بلامقابلہ وزیراعلیٰ بن گئے۔ سرفراز بگٹی نگراں وفاقی وزیر داخلہ تھے۔ دسمبر 2023ء میں عام انتخابات کے شیڈول کے اعلان سے صرف چند گھنٹے قبل عہدے سے استعفیٰ دیا اور پی بی10ڈیرہ بگٹی سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے۔ پیش ازیں پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔
انتخابات میں دھاندلی کے خلاف بلوچستان میں بہت شور ہوا۔ اب یہ آواز پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی تک محدود ہوگئی ہے۔ نیشنل پارٹی اگرچہ احتجاج میں شامل تھی، اسمبلی کے اندر پہلے اجلاس کے دوران واک آؤٹ بھی کیا، مگر سیاست کی بھول بھلیوں میں کھوگئی ہے اور پارلیمانی سیاست کے داؤ پیچ میں مصروف ہوگئی ہے۔ جمعیت علماء اسلام صوبے میں اقتدار سے باہر ہے۔ سینیٹ کے حالیہ (14 مارچ2024ء) ضمنی انتخابات میں ایک شخص عبدالشکور کو کامیاب کرایا۔ یہ خاندان اداروں کے زیراثر ہے۔ محمود خان اچکزئی کا مخالف ہے، نوعیت خونی دشمنی کی ہے۔ ضلع قلعہ عبداللہ کے اندر منشیات کے متعدد کارخانے اور سنگین جرائم اس گھرانے کے ایک فرد سے منسوب کیے جاتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد اشرف غنی حکومت کے کمانڈر، جنگجو اور دوسرے جرائم پیشہ افراد اس خاندان کی سرپرستی میں ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان جرائم پیشہ افراد کو افغان طالبان کو دباؤ میں رکھنے کی خاطر یہاں بسایا گیا ہے۔ جمعیت علماء اسلام نے 2اپریل 2024ء کے سینیٹ انتخابات کے لیے سابق سینیٹر احمد خان کو ٹکٹ جاری کرنے کا کارنامہ دکھایا ہے۔ احمد خان حال ہی میں سینیٹ سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ وہ بلوچستان عوامی پارٹی سے وابستہ تھے، سرمایہ دار ہیں اور اداروں کے زیر دست ہیں۔ ملک کی ایک بڑی تعمیراتی کمپنی ”زیڈ کے بی“ کے مالک کے بیٹے ہیں۔ 2018ء کے سینیٹ انتخابات میں سرمائے کا بے دریغ استعمال کرکے سینیٹر بنے۔ اِس بار بھی جمعیت کے ٹکٹ کے لیے نوازشات کے چرچے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یقینی طور پر جے یو آئی کی صوبائی اور مرکزی قیادت پر نوازشات کی ہوں گی۔ احمد خان آگے جاکر کامیابی کے لیے ووٹ بھی خریدیں گے۔جے یو آئی کے وابستگان کہتے ہیں کہ اس شخص نے 8فروری2024ءکے عام انتخابات میں حلقہ پی بی38کچلاک پر جے یو آئی (ف) کے امیدار عین اللہ شمس کے مخالف امیدوار نعیم بازئی کے لیے اوپر سازباز کرائی تھی۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ صدارتی انتخابات میں محمودخان اچکزئی بلوچستان اسمبلی سے ایک بھی ووٹ نہ لے سکے۔ محمود خان اچکزئی سے لاکھ اختلاف سہی، مگر اِس وقت وہ اسٹیبلشمنٹ کے مدمقابل امیدوار تھے۔ ”حق دو گوادر کو “تحریک کے مولانا ہدایت الرحمان اور جماعت اسلامی کے رکن عبدالمجید بادینی نے صدارتی انتخاب میں کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہیں دیا۔ ان دو ارکان نے بلوچستان اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی حمایت کررکھی ہے۔اسی طرح نیشنل پارٹی نے آصف علی زرداری کو ووٹ دیا۔ نیشنل پار ٹی نے پہلے محمود خان اچکزئی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔یہاں نیشنل پارٹی کے اندر نزاع پیدا ہوا۔ بلوچستان اسمبلی کے اندر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سمیت چاروں ارکان اور قومی اسمبلی میں واحد رکن پھلین بلوچ نے آصف علی ز رداری کو ووٹ دیا،جبکہ نیشنل پارٹی کے سینیٹ اراکین طاہر بزنجو اور اکرم دشتی نے حسب ِوعدہ محمود خان اچکزئی کو ووٹ دیا۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے سینٹرل کمیٹی کے فیصلے کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی، پَر چھپ نہ پائے۔ان کا تضاد آشکار ہوا ہے۔ محمود خان اچکزئی نے ان پر کیلے پر پھسلنے اور مولانا فضل الرحمان پر سو جانے کا طعنہ کسا۔محمود خان اچکزئی نے این اے 261 پشین پر مولانا فضل الرحمان کے مدمقابل غیر مشروط طور پر انتخاب نہ لڑ کر عظیم احسان کیا ہے وگرنہ مولانا کے لیے جیتنا مشکل ہوتا۔ مولانا کی جماعت نے اس کا صلہ دینے کے بجائے الٹا سینیٹ کے ضمنی انتخاب میں محمود خان اچکزئی کے انتہائی مخالف گھرانے کے فرد کو کامیاب کرایا جس کا سطورِ بالا میں ذکر ہوچکا ہے۔ دیکھا جائے تو جمعیت علماء اسلام بہت گندی سیاست کا شکار ہوچکی ہے۔ یہ جماعت اپنے دین دار اور نظریاتی کارکنوں کی جدوجہد، لگن اور اخلاص کا سودا اور اپنے کارکنوں کا استحصال کررہی ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں جے یو آئی کا ایک بھی رکن عالمِ دین نہیں ہے۔ کوئی سرمایہ دار ہے، کوئی سردار ہے تو کوئی نواب ہے۔
ذکر صدارتی انتخاب کا ہورہا تھا۔ بلوچستان کے اندر آصف علی زرداری کے لیے مہم کہیں اور سے چلائی جارہی تھی۔ محمود خان اچکزئی کی کردارکشی کی مہم بھی اسی مرکز سے ہورہی تھی۔ اس مہم میں بعض تو باقاعدہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور گروپس میں نمودار تھے۔ باقی چیلے خواہ وہ نگراں حکومت کے تھے یا جو اِس وقت پیپلز پارٹی میں جمع ہیں، الگ اپنی کارکردگی دکھا رہے تھے۔ 3 مارچ کو رات کے وقت ضلعی انتظامیہ کی قیادت میں پولیس محمود خان اچکزئی کے گھر گئی اور دیوار گرادی۔ کہا کہ محمود خان اچکزئی نے پلاٹ پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اگر واقعی اچکزئی نے زمین پر قبضہ کررکھا تھا تو انتظامیہ اتنے سال خاموش کیوں تھی؟ المیہ یہ ہے کہ پوری کی پوری سول مشنری بے دست و پا کردی گئی ہے۔ ان کی دستوری خودمختاری نہیں رہی ہے۔ کہا کہ محمود خان اچکزئی یا ان کے لوگوں نے پلاٹ کے مالک کو قتل کیا، اُس کی اہلیہ کو اغوا کیا اور زبردستی دستخط کراکر چلتی گاڑی سے پھینک دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پارسی برادری کا ”ابادان“ نامی شخص سالوں پہلے، شاید بیس تیس سال قبل لاپتا ہوا تھا جس کی پھر کوئی خیر خبر نہ ہوئی۔ اس خاندان کے پاس وائن کا پرمٹ ہے۔ اس کے بعد ابادان کی اہلیہ کاروبار دیکھتی تھی۔ محمودخان اچکزئی نے اس خاتون کو تحفظ دیا تھا، اور یہ خاتون کمزور ہرگز نہیں ہے، اس کی جائداد پر قبضہ ہوتا تو بالکل خاموش نہ رہتی۔ تعلیم یافتہ اور جہاں دیدہ خاتون ہے۔ خاتون کے اغوا کا احوال یوں بتایا جاتا ہے کہ چند سال قبل جب کوئٹہ اور صوبے میں امن انتہائی خراب تھا، اس دوران متواتر اغوا کی وارداتیں بھی ہورہی تھیں تب یہ خاتون اغوا ہوئی تھی۔ تاوان کی رقم وصول کی گئی تو چھوڑنے کے بجائے مزید رقم طلب کی گئی۔ وہ رقم بھی وصول ہوئی تو خاتون کو کوئٹہ کی ایک شاہراہ پر چلتی گاڑی سے پھینک دیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ خاتون کو خضدار کے ایک بااثر شخص کے لوگوں نے اغوا کیا تھا جو مسلح جتھہ رکھتا ہے اور سردار اختر مینگل کا حریف ہے۔ یہ ہے اس اغوا کی کہانی جو بتائی جاتی ہے، اور یار لوگوں نے یہ قبیح فعل محمود خان اچکزئی کے سر تھوپنے کی کوشش کی ہے۔
غرض محمود خان اچکزئی کے خلاف انتقامی اقدام پر پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی نے احتجاج کیا۔ کوئٹہ، چمن، پشین، ہرنائی اور دیگر اضلاع میں احتجاجی ریلیاں منعقد ہوئیں، کوئٹہ میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔ بہرحال جو کچھ صدارتی انتخاب کے دوران محمود خان اچکزئی کے ساتھ ہوا انتہائی شرمناک تھا، اور باری باری یہ سبھی رہنماؤں کے ساتھ روا رکھا جائے گا۔ اس وقت نون لیگ، پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ آپس میں جڑی ضرور ہیں، بغل میں ایم کیو ایم بھی کھڑی ہے، اور جے یو آئی احتجاج کے نام پر کام نکلوا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی اپنے انجام کی فکر کرے جو کچھ بلوچستان کے اندر آصف علی زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر دھاندلی اور فراڈ انتخابات کا جو مکروہ کھیل کھیلا ہے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔