اگر بجٹ میں عوام کو ریلیف نہ ملا تو شدید رد عمل سامنے آ سکتا ہے
نومنتخب حکومت کو تین بڑے محاذوں پر مسائل درپیش ہیں، اور یہ مسائل انتہائی غیر معمولی نوعیت کے ہیں، جن کے حل کے لیے ملک میں ہر پالیسی ساز فورم اور ملک کی تمام قومی سیاسی جماعتوں کو یکسو ہونا ہوگا، اس کے بغیر یہ مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ ملکی معیشت میں بہتری اور استحکام لانا پہلا مسئلہ ہے، اس علاقے میں موجود ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری دوسرا بڑا مسئلہ ہے، اور تیسرا مسئلہ جس نے اب تیزی سے سر اٹھانا شروع کردیا ہے وہ پاکستان اور بھارت کے مابین پانی کی تقسیم کا معاملہ ہے۔ اس خطے میں پائیدار امن کے لیے لازمی ہے کہ دیکھا جائے کہ پاک بھارت تعلقات کس نہج پر ہیں اور کس کھائی کی جانب لڑھک رہے ہیں۔ پاکستان میں نئی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کا منظرنامہ کیا ہوگا؟ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے شہبازشریف کو وزیراعظم منتخب ہونے پر مبارک باد نے دونوں ممالک کے درمیان مستقبل کے تعلقات کی ایک ہلکی سی جھلک سامنے رکھ دی ہے۔ مبارک باد کا پیغام دیا تو گیا ہے تاہم سفارتی ماہرین اسے ایک نامکمل پیغام سمجھ رہے ہیں، کیونکہ اِس بار دیا جانے والا پیغام ماضی میں دیے جانے والے پیغامات کے مقابلے میں مختصر تھا کیونکہ اس میں تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے کسی خواہش کا اظہار نہیں کیا گیا، جبکہ وزیراعظم شہبازشریف کا جواب بھی اتنا ہی مختصر تھا۔ بھارت کی جانب سے مبارک باد اور اسلام آباد کے جواب میں پورا پیغام چھپا ہوا ہے۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات اگست 2019ء سے تعطل کا شکار ہیں کہ جب بھارت نے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیرقانونی طور پر جموں و کشمیر کی متنازع ریاست کے ساتھ الحاق کیا۔ بھارت کے اگست 2019ء کے غیرقانونی اقدام کے نتیجے میں مقبوضہ وادی پر طویل عرصے کے لیے لاک ڈاؤن اور پابندیاں لگائی گئیں جس نے پاکستان کو تجارت معطل اور اپنے ہائی کمشنر کو وطن واپس بلاکر سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر مجبور کیا۔ پاکستان نے فیصلہ کیا کہ بھارت کی جانب سے اگست 2019ء کے الحاق کے فیصلے کو واپس لینے پر ہی مذاکرات بحال ہوسکتے ہیں۔ جواب میں بھارت نے کسی بھی بات چیت میں دلچسپی نہیں دکھائی بلکہ اُس نے وہی کچھ کیا جو وہ کرنا چاہتا تھا، اس نے کشمیر میں اپنی جابرانہ پالیسیاں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری رکھیں۔ پاکستان کے احتجاج کے باوجود بھارت نے کشمیری مسلمانوں پر اُن کی زمین تنگ کرنے کے لیے قانونی، آبادیاتی اور انتخابی حوالوں سے اقدامات کیے۔ دو تین سال قبل دونوں ممالک کے مابین پردے کے پیچھے رابطے ہوئے، جس سے برف کچھ پگھلی اور مفاہمت ہوئی کہ لائن آف کنٹرول پر سیز فائر برقرار رکھا جائے گا۔ گزشتہ 3 سال سے ایل او سی پر جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد ہورہا ہے، لیکن کشمیر جو اصل مسئلہ ہے، اس پر کوئی بات چیت نہیں ہورہی۔ گزشتہ سال اُس وقت کے وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے شنگھائی کارپوریشن کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی اور بھارت جاکر کسی حد تک تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کی، لیکن یہ سب کچھ ابھی تک نتیجہ خیز نہیں ہوا ہے بلکہ بھارت نے تنازعات کی فہرست بڑھا دی ہے اور 1960ء میں طے ہونے والا سندھ طاس معاہدہ اب متنازع بنانے پر تل گیا ہے۔ بھارت سندھ طاس معاہدے میں تبدیلی لانے کی کوشش میں ہے جس سے دریائے چناب اور جہلم پر بھارتی ہائیڈرو الیکٹرک منصوبوں کا اثر پاکستان پر پڑے گا۔ اپریل اور مئی میں بھارتی انتخابات متوقع ہیں، اس دوران بی جے پی کی انتخابی مہم اور بیانیے سے ہی مودی کے عزائم کا پتا چل جائے گا۔ بھارت کا تبدیل ہوتا ہوا چہرہ شہباز حکومت کے لیے انتہائی سنگین چیلنج بن جائے گا، بھارت زور دے گا کہ پاکستان اس کے ساتھ بات چیت اس کی شرط پر کرے، جس کا مطلب ہوا کہ پاکستان کو کشمیر کا تنازع ایک جانب کرکے تجارت اور ہائی کمشنر کی سطح پر سفارتی تعلقات بحال کرنے چاہئیں۔ اس طرح کے مذاکرات مکمل طور پر بھارت کی شرائط پر ہوں گے جس کا مطلب کشمیر کو چھوڑنا اور اگست 2019ء کے اُس کے اقدام کو غیر اعلانیہ طور پر تسلیم کرنا ہوگا۔ ان شرائط پر مذاکرات کرنے کا مطلب یہی ہوگا کہ ہم کشمیر پر اپنے دعووں سے دست بردار ہوگئے ہیں۔ سفارتی ماہرین رائے دے رہے ہیں کہ پاکستان اپنی طے شدہ ریڈ لائنز کی خلاف ورزی کیے بغیر تعلقات کی برف پگھلانے کی کوشش کرے۔
شہباز حکومت کے لیے دوسرا بڑا محاذ معیشت ہے۔بین الاقوامی اقتصادی ماہرین 2024ء اور 2025ء کو بھی مشکل سال قرار دے رہے ہیں۔ یہ اندازہ اُن ملکوں کے لیے ہے جہاں اقتصادی حالات ہم سے کہیں بہتر ہیں۔ اس سے اندازہ کرلیں کہ ہم پر کیا گزرے گی! اس حکومت کی اخلاقی حیثیت بہت کمزور ہے، اگر یہ خلوص کے ساتھ کفایت شعاری پر عمل درآمد کرتی ہے تو قبولیت حاصل کرسکتی ہے، چالیس سال سے ملکی معیشت خراب کرنے کے داغ دھوسکتی ہے۔ جہاں تک آئی ایم ایف کا معاملہ ہے، اس کے ساتھ جاری اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ جلد ہی ختم ہوجائے گا اور حکومت آئی ایم ایف سے توسیع شدہ سہولت کاایک اور پروگرام لینا چاہتی ہے۔ وزیراعظم سے سفارش کی گئی ہے کہ وہ براہِ راست معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی کریں۔ کابینہ ڈویژن ایک خصوصی یونٹ قائم کرنے کی تجویز پربھی غور کررہا ہے تاکہ فیصلوں کے نفاذکی نگرانی ہوسکے۔ اقتصادی وزارتوں کی کارکردگی بہتر بنانے اور ان کے مابین بہتر رابطہ کاری کے لیے ایک ادارہ جاتی میکنزم قائم کرنے اور وزیراعظم ہائوس کو آئی ایم ایف پروگرام کے نفاذ کی مانیٹرنگ کا کام بھی سونپنے پر غور ہورہا ہے۔ وزیراعظم کو ان کے معاشی مشیروں اور ماہرین نے تجویز دی ہے کہ وہ فرنٹ فٹ پر آکر کھیلیں اور اقتصادی نوعیت کی وزارتوں میں کام کی تقسیم در تقسیم کا عمل بند کریں جس سے بہتر ادارہ جاتی میکنزم کی ضرورت سامنے آئے گی۔ لہٰذا اب وفاقی حکومت سخت ادارہ جاتی میکنزم بنانے پر بھی غور کررہی ہے تاکہ پروگراموں اور مداخلتوں کو مربوط بنایا جاسکے۔ وزیراعظم کو بین الوزارتی اکنامک ایکشن کمیٹی کی تشکیل کی سفارش کی گئی ہے جس کے پاس خصوصی مینڈیٹ ہو کہ وہ اقتصادی رابطہ کمیٹی میں اچھی طرح سوچ بچار کی ہوئی تجاویز پیش کرسکے اور اس کے فیصلوں کا نفاذ کرا سکے۔ خزانہ، منصوبہ بندی، تجارت، صنعت، ریونیو، سرمایہ کاری بورڈ، پیٹرولیم، بجلی، قومی غذائی سیکورٹی اور سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارتوں کے سیکریٹریز پر مشتمل ایک کمیٹی بھی بنائی جارہی ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام سے کہہ دیا ہے کہ آمدنی بڑھانے کو یقینی بنائیں اور اپنے بے لگام اخراجات کو کنٹرول کریں۔ بات چیت کے دوران یہ چیزبھی سامنے آئی کہ ایف بی آر کو پنجاب میں ٹیکس جمع کرنے کے اختیارات دیے جائیں، جب یہ جمع ہوجائیں تو پھر یہ محصولات جمع کرنے کی فیس کاٹ کر باقی رقم پنجاب کو دی جائے گی۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ مالی وفاقیت کو بہتر بنایا جائے، اور اس نے تجویز دی ہے کہ مرکز اور صوبوں کے اتفاقِ رائے سے عبوری بنیادوں پر این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کی جائے۔ فی الوقت آئی ایم ایف صوبوں کی وفاقی حکومت کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت بہتر بنانے سمیت بہتر رابطہ کاری کے ذریعے مالی سال 2024ء کے بجٹ اہداف کی ضمانت اور اس کے مکمل نفاذ کا خواہاں ہے۔ پنجاب حکومت نے اس حوالے سے مفاہمت کی ایک یادداشت کے ذریعے اپنے اخراجات میں 115 ارب روپے کی کٹوتی کا وعدہ کررکھا ہے جس سے مالی سال 2024ء کے باقی ماندہ عرصے میں سرپلس حاصل کیا جائے گا۔ صوبائی حکومتوں نے ایک عشرے کے طویل عرصے میں جمع ہونے والی اشیا کے قرض کی توثیق اور ایک نظام الاوقات کے ذریعے اس قرض کے نفاذ اور بالآخر اس کی ادائیگی پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ حکومت پرچون فروشوں پر ٹیکس عائد کرنے کے حوالے سے پہلے ہی گزشتہ بجٹ کے دوران ٹیکس قوانین میں یہ اختیار حاصل کرچکی ہے۔ اس اسکیم میں پارلیمنٹ سے کسی قانونی منظوری کی ضرورت نہیں ہوگی، لیکن مسلم لیگ(ن) حکومت اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لیے دکان داروں پر ٹیکس لگانے کی منظوری دینے میں متذبذب ہے۔ آئی ایم ایف نے مارچ سے جون کے چار ماہ کے دوران مختلف تخمینے دکھائے جن کے بارے میں اُس کا دعویٰ ہے کہ یہ وزارتِ خزانہ نے شیئر کیے ہیں۔ تاہم ایف بی آر نے وضاحت کی ہے کہ وہ 9415 ارب روپے کا سالانہ ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کرلے گا اور اس حوالے سے کسی ضمنی بجٹ کی کوئی ضرورت نہیں۔ آئی ایم ایف نے ایف بی آر کے لیے یہ لازمی قرار دے دیا ہے کہ وہ اپریل تک حاصل ہونے والے محصولات 3 مئی 2024ء تک شیئر کرے۔ آئی ایم ایف نے ایف بی آر کے سرکردہ افسران کو یاد دلایا کہ ایف بی آر نے صوبائی دارالحکومتوں اور وفاقی دارالحکومت میں گھرگھر جاکر نان فائلر پرچون فروشوں کی رجسٹریشن کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس منصوبے کے تحت کراس ریفرنسنگ کے ذریعے بجلی کے میٹر کے ڈیٹا کے ساتھ فائلنگ کرنا مقصود تھا تاکہ ایف بی آر ٹیکس سے بچنے کے حربوں کا پتا چلا سکے اور جب ضرورت ہو تو اس کا آڈٹ کرسکے۔ ایف بی آر کا منصوبہ ہے کہ وہ سخت نگرانی اور یک بیک آڈٹ کے ذریعے اپنے حفاظتی اقدامات نافذ کرے۔ اس اسکیم کو لانچ کرنے کے حوالے سے ایف بی آر کا ارادہ یہ تھاکہ اس میں فیلڈ افسران کی صوابدید کم سے کم ہو اور وہ تعینِ قدر اور تخمینوں کو تبدیل نہ کرسکیں تاکہ ان اقدامات سے ٹیکس آمدن کو تحفظ دیا جاسکے۔ دہری ٹیکسیشن سے بچنے کے لیے ماہانہ ایڈوانس ٹیکس ادائیگیاں اس اسکیم کے تحت ہوں گی جو ریٹرن فائلنگ کے وقت حتمی انکم ٹیکس واجبات کو ختم کردیاکرے گا۔ لیکن اس قسم کی ایڈوانس ادائیگیوں کا کوئی ریفنڈ نہیں ہوگا۔ آئی ایم ایف نے بڑھتے ہوئے اخراجات، بشمول قرض کی ادائیگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات سمیت دیگر اخراجات کا حوالہ بھی دیاجس کے نتیجے میں وفاقی حکومت سے بجٹ خسارے کا طے شدہ ہدف بڑھ رہا ہے اور جس پر نظرثانی کرنا پڑ سکتی ہے، اور جو جی ڈی پی کی 7.9کی شرح تک پہنچ سکتا ہے۔پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے کہا ہے کہ بجلی کے نرخوں میں سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ ہو یا سالانہ بیس فیصد،ٹیرف پر نظرثانی کو صارف کی جانب منتقل کیا جائے گا، اس کے نتیجے میں بجلی کی قیمت میں اضافے کا تعین ہوا تو کیا جائے گا۔ گیس شعبے کے گردشی قرضے میں کمی اور گیس کی قیمتوں کی ایڈجسٹمنٹ بروقت کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے۔
وزارت سنبھالتے ہی وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کو آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکراتی ٹیم کی سربراہی کرنا پڑگئی۔ بجٹ میں عوام کو ریلیف کی توقع ہوتی ہے، لیکن جس طرح آئی ایم ایف کو یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں اس میں تو عوام کے لیے سوائے مہنگائی اور مزید ٹیکس کے اور کچھ نہیں ہے۔ ایک عرصے سے عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، اگر اب بھی بجٹ میں ان کو ریلیف نہ ملا تو شدید رد عمل سامنے آ سکتا ہے۔