اس کرئہ ارض پر انسانی علم و ترقی کی داستان طویل بھی ہے اور حیرت انگیز بھی۔ کہاں لوگ جنگل میں رہ کر جانوروں کی کھالوں سے اپنی پوشاک، اور گوشت سے اپنی خوراک حاصل کرکے مطمئن تھے، اور کہاں اب ذائقے اور ذوق کے معاملے میں نت نئی اختراعات بھی انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتیں۔ تجسس و تحقیق کی خصوصیت انسان کو جنگل سے نکال کر بستیوں اور شہروں میں کھینچ لائی۔ زمین کی تسخیر سے جی نہ بھرا تو انسان نے خلا پر ہاتھ صاف کرنا شروع کردیا۔ خوب سے خوب تر کی جستجو اپنی جگہ، مگر حضرتِ انسان اور اس کا نقد علم ابھی تک حقیقی اور پائیدار خوشی کے تعین میں بھی ناکام رہے ہیں۔
مصنف نے اس کتاب کے پہلے حصے میں انسانی علم کے اسی المناک پہلو کا ذکر کیا ہے۔ کتاب کے دوسرے حصے میں انسانی علم کے برعکس ایک دوسری قسم کے علم کا ذکر کیا ہے جو انسانی حواس سے ماورا ہے۔ یہ علم ہمیں وحیِ ربانی سے متعارف کرواتا ہے۔ اس علم کی تلاش کرتے ہوئے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وحی پر مبنی علم میں انسانی علوم کی آمیزش اسے کیا بنادیتی ہے۔ تحقیق و تجسس کی اس جستجو کے نتیجے میں پتا چلتا ہے کہ گزشتہ انبیائے کرام علیہم السلام پر نازل ہونے والی کتابوں کو خود ان کے ماننے والوں نے کس طرح مسخ کر ڈالا۔ ان کتابوں میں ہونے والی ترامیم اور اضافے کہیں تو شعوری کوشش اور مخصوص مقاصد کے حصول کی خاطر وقوع پذیر ہوئے اور کہیں ہر زمانے کے خصوصی حالات نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔
تحقیق کے بعد یہ پوری طرح ثابت ہوجاتا ہے کہ اس کرئہ ارض پر صرف قرآن مجید ہی شروع سے مکمل طور پر اصلی حالت میں موجود ہے۔ غیر مسلم مفکرین کی قرآن کے بارے میں آرا سے یہ ثابت ہے کہ واقعی قرآن مجید ہی واحد کتاب ہدایت غیر مبتدل وحی الٰہی کی صورت میں موجود ہے۔
دوسرے حصے کی فصل سوئم اور چہارم میں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ علمائے متاخرین سے زیادہ استفادہ کیا جائے اور ناگزیر صورت میں ہی علمائے متقدمین سے رجوع کیا جائے۔
اس کتاب میں مصنف نے جدیدیت کے علمی اور تہذیبی انقلاب پر ضرب لگائی ہے۔ ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقات، خصوصاً اگر اس کتاب کو غور سے پڑھ سکیں تو الحاد کی کثیرالاطراف یلغار میں کم از کم خود کو محفوظ رکھنے کا سازو سامان حاصل کرلیں گے۔ مصنف نے ڈاکٹر برہان احمد فاروقی مرحوم کی ایک بنیادی تھیوری کو باقاعدہ اطلاقی مراحل سے گزار کر دکھایا ہے۔ یہ کتاب اس نقشے پر بننے والی پہلی عمارت ہے۔ فاضل مصنف نے موضوعات اور مباحث کی ترتیب ایسی رکھی ہے کہ استدلال کی ایک مربوط زنجیر سی بن گئی ہے جس کی کوئی کڑی آج کے ذہن کے لیے نہ اجنبی ہے اور نہ ہی کسی جبر و تحکم کا احساس دلاتی ہے۔ انسان کی اصل اور متفقہ تعریف کو بالکل معروضی انداز میں تاریخ کے سیاق و سباق میں ظاہر ہوتے ہوئے اس طرح دکھایا گیا ہے کہ سائبر ٹیکنالوجی کے زیراثر جس ذہن کو اپنی ضروریات کا علم بھی نہیں رہ گیا ہے، وہ اپنی اصل پر واپسی کی اہمیت ضرور محسوس کرے گا اور پھر اس طرف واپسی کا ایک مجمل مگر محکم لائحہ عمل بھی اس کی دسترس میں آجائے گا۔ ”ہدایت کی تلاش“ لکھتے ہوئے مصنف نے ذرائع علم اور ذرائع ہدیٰ سب کو دیکھنا چاہا ہے۔ معاشرتی علوم، سائنسی تحقیقات، فلسفہ و اخلاق، مابعد الطبیعات اور آسمانی مذاہب سے آئی ہدایت سب کی راہ نمائی کو عقل ہی سے آزما کر دیکھا ہے۔
انور عباسی صاحب نے ایک طرح سے اس کاوش کو تقابلی مطالعہ بناتے ہوئے مسائل اور وسائل کے تناظر میں ہدایتِ سماوی بالخصوص قرآن و حدیث کی راہ نمائی تک اپنے قاری کی جو رہبری کی ہے وہ محض متکلمانہ کاوش نہیں رہ جاتی ہے بلکہ ایک عالمانہ راہ نمائی فراہم کرتی ہے۔ اس ناتے جو اسلام کی راہ نمائی پر ایقان ظاہر کرتے ہیں، اس نتیجے تک رسائی خاصی اہم یافت بنتی ہے۔ کتاب خوب صورت سرورق کے ساتھ سفید اعلیٰ کاغذ پر اچھی طبع ہوئی ہے۔ ایمل مطبوعات نے اپنے اعلیٰ ذوق اور معیار کو قائم رکھا ہے۔