ڈائو میڈیکل کالج کے طلبہ کے ایک گروپ نےمریضوں کی خدمت کے سلسلے کا آغاز کیا
ڈاکٹر عبدالباری خان کا پاکستانی معاشرے میں خدمت کے حوالے سے اہم اور بڑا نام ہے۔ آپ پاکستانی افرادِ معاشرہ کی بڑی تعداد کو ایک چھت کے نیچے صحت کی معیاری سہولیات منظم انداز میں فراہم کررہے ہیں۔ انڈس اسپتال کی تعمیر ایک ایسا خواب تھا جو شاید کم ہی لوگ دیکھ پاتے ہیں، اور ڈاکٹر صاحب نے اپنے خواب کو حقیقت کردکھایا۔ آپ کی زندگی کی کہانی متاثر کن اور قابلِ تقلید ہے۔
پاکستان میں صحت کی سہولیات مفت فراہم کرنے اور بغیر کسی کیش کاؤنٹر کے ایک جنرل اسپتال کا خیال اسپتال کے بانی سی ای او پروفیسر ڈاکٹر عبدالباری خان نے 1987ء میں پیش کیا تھا، اور آج 2024ء میں پورے ملک میں اُن کا کام پھیل چکا ہے۔ اس وقت انڈس اسپتال کی زیر ملکیت اور زیرانتظام موجود اسپتالوں میں دی انڈس اسپتال کورنگی کیمپس کراچی، شیخ سعید میموریل کیمپس کورنگی کراچی، الفقیر ٹرسٹ کیمپس پی آئی بی کراچی، الغازی ٹرسٹ کیمپس بھونگ رحیم یار خان، انڈس اسپتال اور ہیلتھ نیٹ ورک کیو ایف، این ایس ٹی اور ایس ایم پی کیمپس لاہور، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال بدین، تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال بیدیاں روڈ لاہور، تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال مناواں لاہور، تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال رائیونڈ لاہور، تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال سبزہ زار لاہور، تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال کاہنہ نو لاہور، ملتان انسٹی ٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیز ملتان، اور رجب طیب اردوان اسپتال مظفر گڑھ شامل ہیں۔ ڈاکٹر عبدالباری کو صدارتی ایوارڈ کے علاوہ کئی ایوارڈ مل چکے ہیں۔ لیکن ہمارے نزدیک اگر ایوارڈ نہ بھی ہوں تو ان کے قد و مقام پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ڈاکٹر باری کی زندگی کی کہانی اور ان کی خدمات کو سمجھنے کے لیے ان کا یہ تفصیلی انٹرویو نوجوان نسل اور سماج کے لیے کچھ کرنے کی خواہش رکھنے والے لوگوں کے لیے یقیناً دلچسپی کا باعث ہوگا۔ انٹرویوکادوسرا حصہ نذرِ قارئین ہے۔
(دوسرا حصہ)
فرائیڈے اسپیشل: سول اسپتال میں کچھ شعبہ جات بشمول ایس آئی یو ٹی کے علاوہ ابتری اور بدحالی وہ تاریخی ہے اس کی حالت زار تبدیل نہیں ہوتی؟
یہ ایک سرکاری اسپتال ہے، اس کا ایک حصہ کچھ الگ ہی شکل پیش کررہا ہوتا ہے اگر SIUTاور کچھ شعبہ جات کو الگ کرلیں تو۔
ڈاکٹرعبدالباری: اُس زمانے سے تقابل کریں تو کافی بہتر ہے۔ جب میرے ساتھی 2004ء میں واپس آگئے تو میں نے ان سب کو جمع کیا جو کبھی میرے ساتھ ایمرجنسی میں تھے۔ میں نے کہا اب وقت آگیا ہے کہ ہم کو کچھ کرنا چاہیے۔ ہم نے جگہ دیکھنی شروع کی۔ میں نے Rufaydah Foundationبنائی، اس میں لوگوں کو جمع کیا۔ ہم لوگ جگہ دیکھ رہے تھے تو کورنگی میں یہ اسپتال پہلے اسلامک مشن اسپتال کے نام سے ہوتا تھا۔ یہ ایک پاکستانی ڈاکٹر تھے نذیرغازی جو ابوظہبی میں ہوتے تھے۔ 1980ء کی دہائی کے اختتام پر انہوں نے یہ جگہ حاصل کی تھی۔ اُس زمانے میں کویت جنگ چل رہی تھی۔ انہوں نے ابوظہبی میں پیسے جمع کیے۔ وہ شیخ زید بن سلطان النہیان کے فزیشن تھے۔ انہوں نے کام شروع کیا۔ نرسنگ کالج بن گیا تھا، اسپتال کی بلڈنگ کا اسٹرکچر بن گیا تھا، گرائونڈ فلور اور پہلی منزل تیار ہوچکی تھی۔ 1992ء میں کراچی کے حالات خراب تھے اور ڈاکٹر صاحب کے گھر پر فائرنگ کا واقعہ ہوا تو وہ سب کچھ چھوڑ کر چلے گئے۔ بعد میں بہت کوشش کی گئی مگر وہ اسپتال نہیں چل سکا۔ وجہ یہ تھی کہ وہ کوئی پروفیشنل اسپتال نہیں تھا۔ جب ہم جگہ دیکھ رہے تھے تو مشورے ملے کہ اسے تحویل میں لے لیں شاید چل پڑے۔ پھر ایک سال لگا ہمیں راضی کرنے میں۔ دسمبر 2004ء میں MOUسائن کرلیا کہ Takeoverکرتے ہیں۔ اس زمانے میں ہمارے ایک ساتھی تھے ارشد شاہد عبداللہ کے ساتھ پراجیکٹ آرکیٹیکٹ تھے طارق قیصر، اور پراجیکٹ منیجر عدنان اظہر.. یہ شروع سے ہمارے ساتھ تھے۔سول اسپتال کارڈک سرجری بھی مجھے طارق قیصر نے ڈیزائن کرکے دیا تھا۔ این آئی سی وی ڈی میں اس نے اپنا آفس بنا لیا تھا،اس میں بھی میری مدد کی۔ ہم نے اس کو Renovateکیا اور مئی کے مہینے سے کام شروع کردیا۔ پیسے زیادہ تھے نہیں، صرف ایک چیز تھی اللہ پر یقین۔ ہم نے کام شروع کرادیا۔ ٹھیکیدار سے کہا کہ جو کام کرو اس کے بل دے دیا کرو کہ آگے ڈونیشن لینے میں آسانی ہو۔ ایک دن نکلا تو جیب میں دس لاکھ کے بل تھے، اکائونٹ چیک کیا تو تین لاکھ روپے تھے۔ ہمارے ایک دوست جو تھائی لینڈ میں رہتے تھے اُس وقت پاکستان میں تھے اُن سے رابطہ کیا، وقت لیا کہ میں آرہا ہوں۔ اُن کو بتایا کہ خواب ہے ایک ایسا اسپتال، جو مفت بہترین طبی سہولیات دے، تو وہ ہنسے اور کہا کہ بہت مشکل ہے، مان لیتے ہیں کہ بن جائے گا مگر مفت کیسے چلے گا؟میں نے کہا اللہ چلائے گا۔ انہوں نے کہا لیکن… میں نے بات کاٹ کر کہا جب کہہ دیا اللہ چلائے گا تو اگر، مگر، لیکن میرے نزدیک شرک ہے۔ وہ کہنے لگے ہمارا ایمان ہے اللہ ہی چلائے گا مگر کوئی ذریعہ بھی تو ہوگا۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور کہا آپ ایک ذریعہ ہیں۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے، بعد میں اگر میں مر گیا، میرے بچے مر گئےپھر؟ میں نے کہا آپ کے بعد آپ کے بچوں کے پاس ایک نہیں تین آپشن ہوں گے، پہلا: آپ نے بچوں کی تربیت ایسی ضرور کی ہوگی کہ وہ آپ کے اس کام کو جاری رکھیں، دوسرا آپشن: اللہ آپ کے بچوں کو دو ہزار گنا زیادہ دے وہ آپ مجھے دے دیں، تیسرا:آپ کو خدشہ ہے اللہ کسی کو دے کر واپس نہ لے۔ آپشن پہلا ہے تو الحمدللہ، دوسرا ہے تو سبحان اللہ، تیسرا کہ یہ ذمہ داری اللہ کسی اور کو دے دےگا وہ ٹیک اوور کرلےگا۔ وہ بھی سوچنے لگے کس کے ہتھے آج چڑھ گیا ہوں۔ پوچھنے لگے آپ کتنے سنجیدہ ہیں؟ میں نے کہا انسان کا کوئی مشن قربانی کے بغیر مکمل نہیں ہوتا چاہے وہ اس کی جان کی ہو، مال کی ہو، آل اولاد کی ہو۔
میں اپنی زندگی کی ایک کہانی آپ کو بتاتا ہوں۔ جیسا میں نے بتایا میرا تعلق مڈل کلاس سے ہے۔ یہ 1995ء کی بات ہے جب میں سول اسپتال میں Cardiac Surgery بنارہا تھا، تب بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر میری تنخواہ تین ہزار روپے تھی۔ میرا بڑا بیٹا ایک سال کا تھا۔ میری بیگم پشاور سے ہیں، میری فرسٹ کزن ہیں وہ بھی ڈاکٹر ہیں۔ وہ ہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ میں آپ کے ساتھ ہوں، آپ بہت اچھا کام کررہے ہیں۔ میں کرائے کے گھر میں رہتا تھا، ایک سوزوکی ایف ایکس گاڑی تھی۔ بیگم کہا کرتی تھیں کہ ہماری اپنی چھت ہونی چاہیے، اگر کل آپ کو کچھ ہوگیا تو ہمارا کیا ہوگا؟ میں نے کہا اس دنیا میں کروڑوں لوگ فٹ پاتھ پر، جھونپڑیوں میں اور کرائے کے گھر میں رہتے ہیں، ہماری قسمت میں ہماری اپنی چھت ہوئی تو مل جائے گی۔ ایک دن میں واپس آیا تو بیگم معمول سے زیادہ خوش تھیں، عمدہ کھانے کا بھی اہتمام کیا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا کہ کیا بات ہے آج کچھ زیادہ خوش ہو، کیا والدہ کا فون آیا تھا پشاور سے؟ رات کو بتانے لگیں کہ آج جنگ اخبار میں اشتہار دیکھا۔ سعودی عرب میں ایک کارڈیک سرجن کی ضرورت ہے، سات ہزار ریال تنخواہ ہے۔ آپ کا یہاں وارڈ بن رہا ہے، دو سال تو لگیں گے۔ اگر آپ ایک سال کے لیے چلے جائیں گے تو گھر بھی بن جائے گا، کچھ سیونگ بھی ہوجائے گی۔ میں نے منع کردیا۔ پھر میں نے بچپن کے ایک دوست کی خدمات حاصل کیں کہ اپنی بھابھی کو سمجھائو۔ ایک دن دوست نے کہا :بھابھی ٹھیک کہہ رہی ہیں، تم کیوںنہیں جارہے؟ میں نے کہا: مجھ پر قرض ہے اور کروڑوں کا ہے۔ دوست کہنے لگا حالت تمہاری ایسی لگتی نہیں، کیا جوا وغیرہ کھیلتے ہو؟ میں نے بالکل سنجیدہ ہوکر جواب دیا: میں نے ایک وارڈ بنانے کے لیے لوگوں سے پیسہ لیا ہے۔ اگر میں واپس نہیں آسکا، وارڈ نہیں بن سکا تو سب یہی کہیں گے کہ عبدالباری برا انسان ہے،میں برداشت کرلوں گا مگر اس کے بعد کوئی انسان کبھی اچھے کام کے لیے پیسہ نہیں دے گا، سب کا بھروسا اٹھ جائے گا جو میں برداشت نہیں کرسکتا۔ دوست نے کہا: تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔ ایسی بات ہے تو میں کچھ رقم کا انتظام کرتا ہوں، ایک گھر لے لو۔ میں نے انکار کیا کہ میں قرض نہیں لیتا، اگر اتار نہ سکا اور مرگیا تو گھر والے کہیں گے کہ کچھ کیا تو نہیں، قرض چھوڑ کر چلے گئے۔ دوست نے کہا: یہ قرضِ حسنہ ہے، جب ہو تو واپس دے دینا، اگر مر گئے تو میرا دعویٰ نہیں ہوگا۔ میں نے منع کردیا۔ رات کو کروٹیں بدلتے بدلتے 2 بج گئے۔ اٹھا، وضو کیا، نماز تہجد ادا کی اور اللہ سے دعا کی کہ پروردگار جب میں صبح اٹھوں تو مجھے صحیح فیصلے کی توفیق عطا کرنا۔
صبح اٹھنے کے بعد میں نے تین کام کیے۔ سب سے پہلے اخبار بند کرا دیا۔ اپنی بیگم سے کہا تم پوسٹ گریجویشن کرو۔ کیوں کہ ان کا نظریہ یہ تھا کہ جب میرے بچے اسکول جائیں گے تب میں کچھ کروں گی۔ بیٹے کی پیدائش سے پہلے وہ OMIمیں نوکری کیا کرتی تھیں۔ میں نے مشورہ دیا: تم فیملی میڈیسن کرلو، جب بچے اسکول جائیں تم کام کرلینا، ان کے واپس آنے سے پہلے آجانا۔ میں نے ان کو Enroll کرادیا MCPS Family Medicine میں۔ وہ پہلی بار سول اسپتال گئیں، وہاں کے حالات دیکھے، تب ان کو اندازہ ہوا میرا شوہر بہت بڑا کام کررہا ہے۔ وہ اُس دن سے میرے ساتھ کھڑی ہوگئیں۔ اب ہمارا Mother and Child کا اسپتال وہ دیکھتی ہیں۔ مرد حضرات 17 سے 18 گھنٹے جبکہ خواتین 24 گھنٹے کام کرتی ہیں۔ میرے گھر میں جنریٹر کیسے اسٹارٹ ہوتا ہے، ڈیزل کہاں سے ڈلتا ہے، انٹرنیٹ کیسے آتا ہے، پانی کا ٹینکر کیسے آتا ہے مجھے کچھ نہیں پتا.. یہ سب وہ دیکھتی ہیں۔ مجھے تو یقین ہے وہی مجھے جنت میں لے جائیں گی۔ جیسے لوگ کہتے ہیں Behind Every Successful Man A Woman، میں کہتا ہوں Behindنہیں Beside۔ انسان بچوں کی بھی قربانیاں دیکھتا ہے۔ جب میرا بڑا بیٹا دو سال کا تھا تو میری بیگم کہنے لگیں: کل حسان نے ایک عجیب بات کی ہے۔ کیوں کہ ہماری مصروفیت بہت ہوتی تھی، جب میں گھر آیا وہ سو رہی ہیں، وہ آئیں تو میں سورہا ہوں۔ میں نے پوچھا: ایسا کیا کہہ دیا؟ بتانے لگیں: دو سال کا بچہ ہے، کہہ رہا تھا ”ایک دن بابا ہمارے گھر آئے تھے نا“۔ تب میں نے سوچا بچوں کو اسکول مَیں خود چھوڑوں گا۔ پھر نرسری سے لے کر یونیورسٹی تک بچوں کو میں خود چھوڑتا تھا۔ ایک دن بیگم کہنے لگیں کہ آپ رات گئے آتے ہیں، تھکے ہوتے ہیں، ڈرائیور ہے وہ چھوڑ آئے گا۔ میں نے کہا: یہ بڑا قیمتی وقت ہے میرا بچوں کے ساتھ، ایک دوسرے کی شکایتیں ہورہی ہوتی ہیں۔ میری تنخواہ تین ہزار تھی، اگر میں پرائیویٹ سرجری کرتا تو پورے سال کی تنخواہ ایک دن میں نکل آتی، مگر اللہ نے اس طرف رجحان جانے ہی نہیں دیا تھا۔
جب میری اسٹوری ختم ہوئی تو اُس شخص نے کہا: ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب، 10 کروڑ روپے میری طرف سے۔ ہمارے پاس 35 کروڑ روپے رہ گئے۔ یہ شخص اکیلے نہیں بلکہ 99.99 فیصد لوگ یہی کہا کرتے تھے یہ نہیں چلے گا۔ کسی نے تین مہینے، کسی نے چھے مہینے اور کسی نے زیادہ سے زیادہ سال کا کہا کہ اس کے بعد پیسے لینا شروع کردو گے۔ 11 اگست کو ہم 16 سال کے ہوگئے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ CASH LESS اسپتال کا خیال کیسے آیا، کسی سے متاثر ہوئے؟
ڈاکٹرعبدالباری: ہم نے ماڈلز دیکھے تھے NON-PROFIT والے۔ رابن ہڈ ماڈل ہوتا ہے کہ جو افورڈ کرسکتا ہے اس سے لو، اور کسی اور کو دے دو۔ لیکن میں نے غربت اتنی زیادہ دیکھی کہ بہت سوں کے پاس کرائے کے پیسے بھی نہیں۔ ماڈل ایسا ہی ہونا چاہیے، ہم بنا انہی کے لیے رہے ہیں۔ جب انسان منصف بن جاتا ہے کہ یہ مستحق ہے یا نہیں ہے تب BAISES بھی آجاتے ہیں کبھی قوم اور ذات برادری کے، اور کبھی جان پہچان کے۔ تو یہ نہیں ہوسکتا۔ دوسرا پہلو یہ کہ کچھ عرصے بعد پرائیویٹ بن جاتے ہیں اس قسم کے اسپتال۔ لوگ بہت مشورے دیتے تھے مگر میں نے کہا ماڈل تو یہی ہوگا۔ پرائیویٹ اسپتالوں کے حالات سے آپ واقف ہیں، لاش بھی روک لیتے ہیں، پہلے پیسے لیتے ہیں پھر لاش حوالے کرتے ہیں۔ سب اسپتال نہیں، مگر بیشتر ایسا ہی کرتے ہیں۔ پھر ہم نے سوچ رکھا تھا PAPER LESS اسپتال بنائیں گے۔ پہلے سافٹ ویئر انجینئرز بھرتی کیے اور ڈاکٹرز کے ساتھ انہیں بٹھا دیا کہ جیسا یہ کہتے ہیں ویسا بنادو۔ اب اس میں اونر شپ آگئی۔ میں بنواتا تو اعتراضات سامنے آتے۔ انہوں نے خود بنوایا ہے، کوئی خرابی ہوئی تو خود تبدیل کروائیں گے۔ ماشاء اللہ آپ کے پاس ڈیٹا ہے، سیونگ ہے۔ آپ کو بڑے بڑے اسٹور روم نہیں بنوانے پڑرہے ہیں۔ اس میں سے ڈیٹا نکال کر لانا ایک عذاب اور وقت کا ضیاع تھا۔ دوسری چیز معیار ہے جہاں ہم اپنا علاج کروا سکیں۔ دیکھیں، ہوٹل والے کو اپنے ہوٹل کا کھانا اچھا ہی لگے گا۔ میری ساس کو یہاں پیس میکر لگا، میرے میڈیکل ڈائریکٹر کے والد کی سرجری یہاں ہوئی، میرے انستھیسیا کے چیف کی سرجری یہاں ہوئی، وہ امریکی شہری تھے، دنیا میں کہیں بھی علاج کے متحمل ہوسکتے تھے، مگر ان کی سرجری یہاں ہوئی۔ یہ سب ممکن ہوا اللہ کے فضل سے۔ وہ تمام لوگ جو کہتے تھے کہ کچھ عرصے بعد میں پیسے لینا شروع کردوں گا وہ آئے اور اعتراف کیا کہ میں ٹھیک تھا۔ ہمارا پہلے سال کا بجٹ تخمینہ 24 کروڑ تھا مگر لگے 10 کروڑ.. کیوں کہ پہلا بجٹ مفروضہ ہوتا ہے۔ جب بجٹ آجاتا ہے تو پھر آپ اسی حساب سے خرچ کرتے رہتے ہیں۔ اس سال کا بجٹ میں نے پاس کیا ہے 57 بلین کا۔ 150بیڈ کے ایک اسپتال سے شروع کیا تھا، آج 15 اسپتال پورے پاکستان میں ہیں۔ ہمارے پرائمری ہیلتھ کے پروگرام چل رہے ہیں، موبائل کلینکس ہیں۔ 57 بلین کا بجٹ، 13 ہزار ملازمین… لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ کو نیند کیسے آتی ہے؟ میرا جواب ہوتا ہے کہ میرے گھر والوں کو مجھ سے شکایت ہے کہ بستر پر جانے سے پہلے سو چکا ہوتا ہوں، اتنے سکون کی نیند آتی ہے۔ کیوں کہ یہ سب کام میرا تو ہے نہیں، میں نہیں کررہا ہوں۔ یہ کام جو پاک ذات کرتی ہے نہ تو وہ سوتی ہے، نہ اس کے پاس حد ہے کسی چیز کی۔ اس کو صرف کہنا ہے ”کن فیکون“ اور ہوجانا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ پوچھنا کہ کیا کیا علاج ہورہا ہے اس اسپتال میں؟ اس سے بہتر ہے کہ پوچھا جائے کون سا علاج نہیں ہورہا؟
ڈاکٹرعبدالباری: نیورولوجی کے شعبے میں کچھ نہیں ہورہا۔ Adult Oncology نہیں ہورہا۔ بڑوں کے کینسر کا اسپتال نہیں ہے۔ جبکہ بچوں کے کینسرکا سب سے بڑا سیٹ اَپ ہے جس میں پورے پاکستان، بلکہ دنیا بھرسے لوگ علاج کرانے آتے ہیں۔ صرف علاج نہیں، اُن کے قیام کا بھی ہم اہتمام کرتے ہیں۔ پورے نیٹ ورک میں 5لاکھ مریض ماہانہ اور کراچی میں ڈھائی ہزار مریض روز آتے ہیں ایمرجنسی اور او پی ڈی ملاکر۔
فرائیڈے اسپیشل: کتنے مریض رش اور دبائو کی وجہ سے واپس چلے جاتے ہیں؟
ڈاکٹرعبدالباری: ایمرجنسی کا تو پتا ہے، اس کا ڈیٹا ہوتا ہے۔ اس میں 800 سے 1000 مریض روز آتے ہیں۔ ان میں سے 200 مریض ایسے ہوتے ہیں جن کو ایڈمیشن چاہیے ہوتا ہے اور اوسطاً 30 بیڈ خالی ہوتے ہیں۔باقی مریضوں کو مکمل ٹریٹمنٹ دے کر STABILIZEکیا جاتا ہے،پھر باہر REFERکرنا پڑتا ہے۔ ہم گائیڈ کردیتے ہیں کہ وہ کہاں جا سکتے ہیں۔ بیڈ پر کسی کو لٹا کر باہر نہیں کرسکتے، اس لیے ہم بستروں کی تعداد بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ کراچی کا اسپتال جو 300 بیڈ کا ہے یہ 1350 بیڈ پر چلا جائے گا اِن شاء اللہ۔
باقی جو فیلو میڈیسن میں آتے ہیں اگر وہ پہلی بار آرہے ہیں تو تھوڑی تکلیف ہوتی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ کارڈ بنتا ہے، لائن میں لگنا پڑتا ہے۔ اس میں تو لوگ رات 2 بجے 3 بجے بھی آکر بیٹھ جاتے ہیں۔ ایک بار کارڈ بن گیا تو پھر آپ کو اپائنٹمنٹ ملتا رہتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: جن مریضوں کو آپ باہر ریفر کرتے ہیں وہاں بھی ان کے اخراجات اٹھاتے ہیں؟
ڈاکٹرعبدالباری: جو ایمرجنسی سے جاتے ہیں اُن کو ہم کہہ سکتے ہیں جناح چلے جائیں، سول چلے جائیں۔ کچھ ٹیسٹ یہاں نہیں ہوتے، وہ ہم باہر سے کراتے ہیں اپنے خرچے پر۔ بچوں کے کیسنر کے آپریشن جو یہاں نہیں ہوتے ہم آغا خان سے کراتے ہیں، اس کی بھی ادائیگی ہم کرتے ہیں۔ کینسر کا جو مریض بچہ ہمارے پاس داخل ہوا اس کا سارا خرچہ ہمارا، چاہے ٹیسٹ یا آپریشن باہر سے کروانا پڑے۔ زیادہ تر علاج یہیں ہوجاتا ہے، ریڈی ایشن ہم باہر سے کرواتے ہیں۔ EXPANSION کے بعد بڑوں کے کینسر کا علاج بھی ہوگا، نیوروبھی شروع ہوجائے گا۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ نیا پراجیکٹ کہاں ہے، کیا تفصیلات ہیں؟
ڈاکٹرعبدالباری: پرانے اسپتال کے ساتھ 20 ایکڑ جگہ ہے وہیں پر، یہ اِن شاء اللہ 1350 بیڈ پر مشتمل اسپتال ہوگا۔ کوشش ہے کہ جلد یہاں سے منتقل ہوجائیں۔ ابتدائی 500 بیڈ، پھر ہر تین ماہ بعد بیڈ بڑھانے کا سلسلہ جاری رہے۔ اِن شاء اللہ 2027ء تک یہ مکمل ہوجائے گا۔ سندھ یونیورسٹی بھی اس میں بن رہی ہے، نرسنگ کالج تو چل ہی رہا ہے۔ پیرامیڈیسن کالج، فزیکل تھراپی اینڈ ری ہیبلیٹیشن کالج، پبلک ہیلتھ اینڈ فیملی میڈیسن کالج چل رہے ہیں۔ میڈیکل کالج اِن شاء اللہ 2025ء میں شروع ہوجائے گا۔ آج ہی ایک ڈونر آئے تھے، انہوں نے اسپانسر کیا ہے۔ پھر فارمیسی اور ڈینٹل کالج ہوجائے گا۔ اسی طرح ہم نے لاہور میں ایک اسپتال شروع کیا ہے 600 بیڈ کا۔ 100بیڈ آپریشنل ہوگئے ہیں، اِن شاء اللہ دسمبر تک 400بیڈ ہوجائیں گے اور اگلے سال یہ مکمل ہوجائے گا۔
فرائیڈے اسپیشل: ریسرچ کے لیے آپ کے کیا اقدامات ہیں؟
ڈاکٹرعبدالباری: پہلے دن سے ہی ہاسپٹل ریسرچ سینٹر بنا دیا تھا۔ ریسرچ کا کام جاری ہے۔ سب سے اچھی بات ہمارے پاس ڈیٹا موجود ہے۔ ریسرچ کی بنیاد پر مستند PUBLICATIONS نکلتی ہیں۔ ہم نے اسے پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ کے لیے دوسرے سال ہی رجسٹرڈ کروا لیا تھا کالج آف فزیشن اینڈ سرجنز سے ۔ 200 سے 250 تو پاس آئوٹ بھی کرگئے۔ ٹرینی 270 ابھی موجود ہیں۔ (جاری ہے)