نومبر 2020ء میں جوبائیڈن نے صدرڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ کیا تھا، اور اِس سال 5 نومبر کو صدر جوبائیڈن اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ایک بار پھر میدان سجے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے 2020ء کا معرکہ ختم ہوتے ہی 2024ء کے لیے کمر کس لی تھی اور وہ گزشتہ چار سال سے انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ اس طویل مہم کے نتیجے میں ریپبلکن پارٹی پر ان کی گرفت آہنی سے زیادہ جابرانہ ہوچکی ہے۔ گزشتہ ہفتے ان کی بہو محترمہ لارا ٹرمپ پارٹی کی شریک سربراہ (co chair) منتخب ہوگئیں۔
جیسا کہ ہم پہلے ایک نشست میں عرض کرچکے ہیں کہ اس وقت پارٹی ٹکٹ کا مرحلہ درپیش ہے۔ امریکہ میں پارلیمانی بورڈ اپنے امیدواروں کو ٹکٹ جاری نہیں کرتے، بلکہ نامزدگی کے لیے پارٹیوں کے پرائمری انتخابات منعقد ہوتے ہیں جن کا اہتمام ریاستوں کی ذمہ داری ہے۔ سیاسی جماعتوں کی رکنیت کی نہ کوئی فیس ہے اور نہ منظوری کا کھکھیڑ۔ ووٹ رجسٹر کراتے وقت جماعتی وابستگی ظاہر کرنا کافی ہے۔ بعض ریاستوں میں تو یہ تکلف بھی غیر ضروری ہے۔ پرائمری کے روز پولنگ اسٹیشن جاکر آپ کسی بھی پارٹی کا بیلٹ حاصل کرسکتے ہیں۔
دونوں جماعتیں اپنے امیدوار کا انتخاب مرکزی اجتماع میں کرتی ہیں، اور ریاستی یا پرائمری انتخابات میں سالانہ اجتماع کے لیے مندوبین کا چنائو ہوتا ہے۔ ہر ریاست سے مندوبین کی نشستیں آبادی کے مطابق ہیں۔ پرائمری انتخابات میں امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے ان کے مندوبین کو منتخب قرار دے دیا جاتا ہے۔ اِس بار ریپبلکن پارٹی کا انتخابی اجتماع 15 تا 18 جولائی ریاست وسکونسن کے شہر ملواکی میں منعقد ہوگا جہاں مندوبین اپنے صدارتی امیدوار کا چنائو کریں گے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی بیٹھک اِس بار 12 سے 19 اگست تک شکاگو میں سجے گی۔ صدربائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹکٹ اب تقریباً پکے ہوچکے ہیں لہٰذا پرائمری انتخابات کے باقی مراحل اور انتخابی اجتماعات کی حیثیت اب رسم و روایت سے زیادہ کچھ نہیں۔
اِس سال نومبر میں پڑنے والا جوڑ 1956ء کے بعد پہلا واقعہ ہوگا کہ دو امیدوار پے درپے دو بار ایک دوسرے کے سامنے آئے ہیں، 1952ء میں ریپبلکن ڈویٹ آئزن ہاور (Dwight Eisenhower) نے ایڈلائی اسٹیونسن (Adlai Stevenson)کو شکست دی، چار سال بعد 1956ء میں یہ دونوں حضرات ایک بار پھر مدمقابل ہوئے اور جناب اسٹیونسن دوسری بار بھی ہار گئے۔
اب تک پہلی مدت کے بعد شکست کھا جانے والے 6 سابق صدور نے انتخابات میں حصہ لیا ہے جن میں سے صرف صدر گروور کلیولینڈ (Grover Cleveland)کو کامیابی نصیب ہوئی۔ صدر کلیولینڈ 1884ء میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر صدر منتخب ہوئے، اور چار سال بعد 1888ء میں انھیں صدر بن یامین ہیریسن (Benjamin Harrison) نے ہرا دیا۔ 1892ء کے انتخابات میں وہ ایک بار پھر سامنے آئے اور صدر بن یامین ہیریسن کو ہراکر انھوں نے اپنی شکست کا بدلہ لے لیا۔ حالیہ امریکی انتخابات اس اعتبار سے بھی تاریخی ہیں کہ صفِ اوّل کے دونوں امیدوار خاصی بڑی عمر کے ہیں۔ 81 سالہ جوبائیڈن کو امریکی تاریخ کے معمر ترین صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہے تو اُن کے حریف ڈونلڈ ٹرمپ 76 سال کے ہیں۔
انتخابات میں اصل مقابلہ صدر بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہے، لیکن سابق سینیٹر رابرٹ کینیڈی کے 70 سالہ صاحبزادے رابرٹ کینیڈی جونیئر ایک مضبوط آزاد امیدوار سمجھے جارہے ہیں اور رائے عامہ کے جائزوں میں اُن کی مقبولیت 8 فیصد سے زائد ہے۔ معروف فلسفی اور استاد جناب کورنیل ویسٹ اور گرین پارٹی کی ڈاکٹر جِل اسٹائن بھی اپنی کامیابی کے بارے میں پُرامید ہیں۔
امریکہ میں صدارتی انتخاب کا طریقہ دنیا میں مروج نظام سے ذرا مختلف ہے۔ یہ طریقہ کار کیا ہے، اس پر چند سطور:
ریاست ہائے متحدہ امریکہ 50 آزاد و خودمختار ریاستوں پر مشتمل ایک وفاق کا نام ہے۔ وفاق کی ہر ریاست کا اپنا دستور، جھنڈا اورمسلح فوج ہے۔ وفاق کی علامت اور نمائندے کی حیثیت سے مسلح افواج کی کمان صدر کے پاس ہے۔ صدر کے انتخاب میں ہر ریاست انفرادی اکائی کی حیثیت سے ووٹ ڈالتی ہے اور اس مقصد کے لیے ایک کلیہ انتخاب یا Electoral-College تشکیل دیا گیا ہے۔
کلیہ انتخاب میں ہر ریاست کو اُس کی آبادی کے مطابق نمائندگی دی گئی ہے، اور یہ اس ریاست کے لیے ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی یا لوک سبھا) اور سینیٹ (راجیا سبھا) کے لیے مختص نشستوں کے برابر ہے۔ امریکہ میں ایوانِ نمائندگان کی نشستیں آبادی کے مطابق ہیں، جبکہ سینیٹ میں تمام ریاستوں کی نمائندگی یکساں ہے، یعنی ہر ریاست سے دو دو سینیٹر منتخب کیے جاتے ہیں۔ امریکہ کے ایوانِ نمائندگان کی نشستوں کی مجموعی تعداد 435 ہے، جبکہ 50 ریاستوں سے 100 سینیٹر منتخب ہوتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کے، انتخابی کالج میں 3 ووٹ ہیں۔گویا کلیہ انتخاب 538 ارکان پر مشتمل ہے۔ الیکٹورل کالج کی ہیئت کو اس طرح سمجھیے کہ نیویارک کے لیے ایوانِ نمائندگان کی 26 نشستیں مختص ہیں، چنانچہ 2 سینیٹرز کو ملاکر انتخابی کالج میں نیویارک کے 28 ووٹ ہیں۔ یہاں ’سارے ووٹ جیتنے والے کے لیے‘ کا اصول اختیار کیا جاتا ہے، یعنی ریاست میں جس امیدوار کو بھی برتری حاصل ہوئی اُس ریاست سے انتخابی کالج کے لیے مختص سارے ووٹ اُس امیدوار کے کھاتے میں لکھ دیے جاتے ہیں۔ یعنی اگر نیویارک سے کسی امیدوار نے ایک ووٹ کی برتری بھی حاصل کرلی تو تمام کے تمام28 الیکٹورل ووٹ اُسے مل جائیں گے۔ صرف ریاست مین (Maine) اور نیبراسکا میں ایک تہائی الیکٹورل ووٹ ایوانِ نمائندگان کی حلقہ بندیوں کے مطابق الاٹ کیے جاتے ہیں ورنہ باقی سارے امریکہ میں ریاست کے مجموعی ووٹوں کی بنیاد پر فیصلہ ہوتا ہے۔ دلچسپ بات کہ 5 نومبر کو ہونے والی ووٹنگ کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں بلکہ صدر اور نائب صدر کے انتخاب کے لیے 15 دسمبر کو تمام ریاستی دارالحکومتوں میں پولنگ ہوگی جس میں الیکٹورل کالج کے ارکان خفیہ بیلٹ کے ذریعے صدر اور نائب صدر کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔ ووٹنگ کے بعد نتائج ترتیب دیے جائیں گے اور اسے ایک بکس میں بند کرکے وفاقی دارالحکومت بھیج دیا جائے گا۔ 6 جنوری 2025ء کو چیئرمین سینیٹ کی نگرانی میں تمام ریاستوں سے آنے والے بکسوں کو کھول کر صدارتی انتخاب کے سرکاری نتیجے کا اعلان ہوگا۔ واضح رہے کہ قانونی طور پر الیکٹورل کالج کے ارکان کسی مخصوص امیدوار کو ووٹ دینے کے پابند نہیں اور انتخاب بھی خفیہ بیلٹ پیپر کے ذریعے ہوتا ہے، اس کے باوجود گزشتہ ڈھائی سو سال کے دوران ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا کہ الیکٹورل کالج میں عوامی امنگوں کے برخلاف ووٹ ڈالا گیا ہو۔
آنے والے انتخابات کے اہم ترین نکات اسقاطِ حمل اور امیگریشن ہیں۔ امریکی سپریم کورٹ نے ایک فیصلے کے ذریعے اسقاط کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کا معاملہ ریاستوں کے حوالے کردیا ہے اور ریپبلکن پارٹی کی زیر حکومت ریاستوں میں چند استثنیٰ کے ساتھ اسقاطِ حمل قابل سزا جرم ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی اسے عورت کے جسم پر حکومت کا جابرانہ کنٹرول قراردیتی ہے۔ صدر بائیڈن کہتے ہیں کہ اسقاط یا ولادت کا فیصلہ پُرامید مائوں کا اختیار ہے۔جناب ٹرمپ اس معاملے پر کھل کر نہیں بولتے لیکن ریپبلکن پارٹی کے قدامت پسند اسقاط کو قتل سمجھتے ہیں۔
امیگریشن کے معاملے پر ڈونلڈ ٹرمپ اور ریپبلکن پارٹی کا مؤقف بہت سخت ہے۔ وہ میکسیکو سے ملنے والی امریکی سرحد پر فوج تعینات کرکے غیر قانونی تارکینِ وطن کی امریکہ آمد کا راستہ مسدود کردینا چاہتے ہیں۔ ایک موقع پر جناب ٹرمپ یہاں تک کہہ گئے کہ دوبارہ صدر بن جانے پر کمانڈر انچیف کی حیثیت سے وہ غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والوں کو گولی ماردینے کا حکم بھی دے سکتے ہیں۔اسی کے ساتھ ماحولیاتی کثافت و موسمی تبدیلی، معیشت، مہنگائی، صحت و اعلیٰ تعلیم کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور خارجہ پالیسی پر بھی بحث جاری ہے۔
صدر بائیڈن، ڈونلڈ ٹرمپ کو فاشسٹ خیالات کا انتہا پسند اور جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ انتخابات میں امریکیوں کو جمہوریت کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔ وہ ٹرمپ کی امریکی نشاۃ ثانیہ کی تحریک Make America Great Again یا MAGA کے ایجنڈے کو جمہوری عقائد سے متصادم ثابت کررہے ہیں۔ انھیں خوف ہے کہ ’ماگا‘ انتہا پسند ایجنڈے کا نفاذ جمہوری اداروں کی بنیادی ہیئت کو مسخ کردے گا۔
غزہ خونریزی پر مسلمانوں کی فکرمندی بہت عیاں ہے۔ نائن الیون کے بعد سے مسلمانوں کی ہمدردیاں ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ ہیں اور گزشتہ بار کئی ریاستوں میں مسلمانوں کے ووٹ جوبائیڈن کے حق میں فیصلہ کن ثابت ہوئے تھے۔ غزہ کے معاملے پر جوبائیڈن نے جس بے حسی اور طوطا چشمی کا ثبوت دیا ہے اس پر مسلمان سخت غصے میں ہیں۔ دوسری طرف مسلمانوں کے بارے میں جناب ٹرمپ کا رویہ متعصبانہ ہے اور اسرائیل ان دونوں کا لاڈلا ہے، یعنی مسلمانوں کے لیے ایک جانب کنواں تو دوسرے رخ پر کھائی ہے۔
صدر بائیڈن کو پریشانی اس بات کی ہے کہ گزشتہ انتخابات میں ایریزونا، مینی سوٹا، مشی گن، پینسلوانیا اور جارجیا سے انھوں نے معمولی ووٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی اور یہاں مسلمان ووٹ کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔ اِن پانچ ریاستوں میں انتخابی ووٹوں کی مجموعی تعداد 71 ہے، یہ ووٹ اگر بائیڈن کو نہ ملے تو ان کی شکست یقینی ہے۔ پرائمری انتخابات میں مینی سوٹا اور مشی گن کے مسلمانوں نے اپنی ناراضی کا بہت نپے تلے انداز میں اظہار کیا، یعنی وہ رہے تو ڈیموکریٹک پارٹی کے کیمپ میں ہی، لیکن کنونشن کے لیے انھوں نے بائیڈن کے حمایتیوں کے بجائے آزاد (uncommitted) مندوبین کا انتخاب کیا۔
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ صدر بائیڈن سے آگے ہیں۔ آزاد امیدوار رابرٹ کینیڈی کی پیش قدمی اور مسلمانوں کی ناراضی جناب بائیڈن کے لیے مزید مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔ تاہم انتخابات میں آٹھ ماہ باقی ہیں یعنی پلوں کے نیچے سے کافی پانی ابھی اور بہنا ہے۔
5 نومبر کو صدارتی انتخابات کے ساتھ سینیٹ کی 33 اور ایوانِ نمائندگان کی 435 نشستوں کے لیے بھی ووٹ ڈالے جائیں گے۔ اِس وقت ایوانِ نمائندگان میں 213 ڈیموکریٹ ارکان کے مقابلے میں ریپبلکن ارکان کی تعداد 219 ہے، جبکہ سینیٹ کی 48 نشستیں ڈیموکریٹک پارٹی کے پاس ہیں اور 49 پر ریپبلکن ارکان براجمان ہیں۔ 2آزاد سینیٹرز نے خود کو ڈیموکریٹک پارلیمانی پارٹی سے وابستہ کررکھا ہے۔ ایریزونا کی آزاد سینیٹر محترمہ کرسٹن کسی کے ساتھ نہیں۔
سینیٹ کی جن نشستوں پر انتخابات ہورہے ہیں اُن میں سے 20 ڈیموکریٹک اور 10 ریپبلکن سینیٹرز کی مدت مکمل ہونے پر خالی ہورہی ہیں۔ گویا ایوانِ صدر کے ساتھ ڈیموکریٹک پارٹی کو سینیٹ پر اپنی اکثریت برقرار رکھنے کے لیے بھی سخت محنت کرنی پڑے گی۔
………
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔