بلوچستان کی وزارتِ اعلیٰ: سردار عطا اللہ مینگل سے سرفراز بگٹی تک؟

قبائلی محاذ آرائی کا نیا در کھولنا خطرناک ہوگا

پاکستان میں پہلی بار عام انتخابات جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میں 1970ء میں ہوئے، اور بدقسمتی سے پاکستان دولخت ہوگیا۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں، اِس وقت ان پر بحث مطلوب نہیں ہے۔ صوبہ بلوچستان جنرل یحییٰ خان کے دور میں بنا اور ون یونٹ ٹوٹ گیا۔ عبدالصمد خان اس طرح صوبے کے حق میں نہ تھے، وہ بلوچوں سے علیحدہ رہنا چاہتے تھے اور پشتون آبادی کو صوبہ سرحد میں ملانا چاہتے تھے۔ ولی خان جو اُس وقت نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ تھے، اس کے حق میں نہیں تھے۔ سردار عطا اللہ مینگل بلوچستان کے پہلے وزیراعلیٰ بن گئے تھے، اُن کا دور ہنگاموں کا دور تھا، نیپ اور بھٹو کی کشمکش کی وجہ سے صورتِ حال پیچیدہ ہوگئی تھی۔ سردار مینگل کی حکومت بھٹو نے توڑ دی اور سردار اپنی مدت پوری نہ کرسکے۔ اس کے بعد کیا ہوا، فی الحال اس مختصر جائزے کے بعد ہم موجودہ نقشے کی طرف لوٹیں گے اور موجودہ وزیراعلیٰ کا ایک سرسری جائزہ لیں گے۔ ہم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہے تھے اور سرفراز بگٹی کے والد سے دوستانہ مراسم تھے۔ وہ نواب بگٹی کے سیاسی حریف تھے، انہوں نے سلیم بگٹی کے مقابل انتخاب لڑا اور ہار گئے۔ سیاسی اور تھوڑی بہت قبائلی کش مکش موجود تھی جو کسی قبائلی تصادم کی طرف نہیںگئی۔ بلوچستان کے پہلے وزیراعلیٰ سردار عطا اللہ مینگل تھے۔ جام محمد یوسف، جام غلام قادر، ظفر اللہ خان جمالی، جام کمال خان، ڈاکٹر عبدالمالک، جسٹس خدا بخش مری، ہمایوں مری، جان محمد خان جمالی، نواب ذوالفقار علی مگسی، سردار محمد خان باروزئی، میر تاج محمد جمالی، نواب اسلم خان رئیسانی، سردار ثنا اللہ زہری و دیگر… ان میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ پہلے شخص تھے جو نواب تھے نہ سردار تھے، وہ وزیراعلیٰ بنے لیکن ناکام وزیراعلیٰ تھے۔ نوازشریف نے فارمولا دیا تھا کہ نصف حکومت مسلم لیگ کی ہوگی اور نصف ڈاکٹر عبدالمالک کی۔

نواب محمد اسلم خان رئیسانی کی حکومت ایک حادثے کی وجہ سے ختم کردی گئی، اور اس کا خاتمہ آصف علی زرداری نے کیا۔ یہ بہت بڑا المیہ تھا جو ہزارہ قبیلے کے ساتھ ہوا، اور اس کے نتیجے میں ایک جمہوری حکومت ختم کردی گئی۔

ہم اس حوالے سے تجزیہ کررہے ہیں کہ بلوچستان میں ایک نئی حکومت وجود میں آگئی ہے اور پی پی پی کو اکثریت مل گئی ہے۔ لیکن وہ ایک اور پارٹی کو ملاکر حکومت بنائے گی۔ یوں مسلم لیگ(ن) اور پی پی پی کی مخلوط حکومت بنے گی اور وزیراعلیٰ کا تاج نواب سرفراز بگٹی کے سر پر رکھا جائے گا۔ وہ پی پی پی میں نہ تھے، اس میں شمولیت کے بعد ہی اُن کے سر پر وزیراعلیٰ کا تاج رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ فیصلہ آصف زرداری نے بہت سوچ سمجھ کر کیا ہوگا۔

سرفراز بگٹی کا تعلق بگٹی قبیلے سے ہے، اور نواب بگٹی اور عبدالقادر بگٹی کے درمیان سیاسی اور قبائلی کش مکش موجود تھی۔ یہ کش مکش سیاسی زیادہ تھی۔

نواب اکبر خان بگٹی اور جنرل پرویزمشرف کی کش مکش شروع ہوئی جسے ہوا دینے میں گورنر بلوچستان اویس غنی کا ہاتھ تھا۔ جنرل پرویزمشرف کو خوش کرنے کے لیے نواب بگٹی کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا۔

اب مسئلہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ کا ہے۔ ایک سیاسی کش مکش نواب بگٹی اور سرفراز بگٹی کے درمیان ان کے والد کے حوالے سے موجود تھی، اب یہ کش مکش ختم ہوگئی ہے تو صوبہ بلوچستان بغیر کسی تصادم کے ترقی کی طرف پیش قدمی کرے گا، اور اگر کش مکش کو ہوا دی گئی تو بلوچستان مشکلات کا شکار ہوجائے گا اور پیش رفت نہ کرسکے گا۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ سرفراز بگٹی کے والد نواب بگٹی کی قید میں تھے اور یہ اُس وقت کی بات ہے جب نواب بگٹی کے خلاف فوجی آپریشن کی تیاری تھی اور اس کا آغاز کسی وقت بھی ہوسکتا تھا۔ نواب بگٹی کے قلعہ پر حملہ کیا گیا جس میں نواب صاحب محفوظ رہے۔ اس دوران عبدالقادر بگٹی نواب کی ذاتی جیل میں تھے، جب ان کے قلعہ پر حملہ ہوا تو اس دوران عبدالقادر بگٹی ان کی قید سے نکل گئے اور انہیں نکلنے کا موقع حملے کی وجہ سے حاصل ہوگیا۔ یہ معاملہ ان کے ذہن میں موجود ہے، دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا وہ اس واقعے کو نظرانداز کرکے پیش قدمی کریں گے! جو حالات آج بلوچستان کے ہیں اس میں آصف علی زرداری بھی نہیں چاہیں گے کہ ایک نیا محاذ کھول دیا جائے، اور یہ خطرناک بھی ہوگا۔ بڑی مشکل سے بلوچستان قبائلی نظام کی محاذ آرائی سے نکلا ہے۔ اس سے قبل نواب بگٹی اور سردار عطا اللہ مینگل کی کش مکش، اور بعد میں بھٹو اور نیپ کی کش مکش نے خطرناک صورتِ حال پیدا کردی تھی، اور ایران اس میں شامل ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں سردار کی حکومت گرادی گئی تھی۔

صدر آصف علی زرداری اس وقت بلوچستان میں کوئی نیا محاذ نہیں کھولیں گے اور نہ وہ محاذ آرائی کی طرف جائیں گے، اور سرفراز بگٹی بھی ایک نئی محاذ آرائی کی سمت بلوچستان کونہیں لے جائیں گے۔ بلوچستان کی سیاسی تاریخ محاذ آرائی سے بھرپور رہی ہے اور اس کے نتائج بھی بھگتے ہیں۔ اب بلوچستان میںایک نیا محاذ کھولنا انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے۔

امید کی جانی چاہیے کہ بلوچستان کی نئی حکومت اپنے مستقبل کی طرف توجہ مرکوز رکھے گی تاکہ صوبہ پیش رفت کرے۔ اور اگر موجودہ وزیراعلیٰ کش مکش کی طرف گئے تو اس کے سیاسی اور قبائلی نتائج کسی بھی لحاظ سے مثبت نہیں نکلیں گے۔