حکومتی اتحاد کو درپیش مسائل اور چیلنجز پہلے کی نسبت زیادہ تشویش ناک ہیں
ملک میں عام انتخابات کے بعد نئی حکومت تشکیل پاچکی ہے اور صدر مملکت کے عہدے کا انتخاب بھی مکمل ہوچکا ہے۔ نومنتخب اپنے عہدے کا حلف اٹھا چکے ہیں، وفاقی کابینہ بھی بن چکی ہے۔ کابینہ کتنی انقلابی اور ’’خادم اعظم‘‘ کی اپنی اور ملک کی کتنی وفادار اور عوام کی کتنی ہمدرد ہے اس کا اندازہ بھی جلد ہی ہوجائے گا۔ جمہوری ایوانوں میں ابھی ایک ایوان نامکمل ہے، لہٰذا اب سینیٹ کے ارکان کی نصف تعداد کا انتخاب باقی ہے، جس کے لیے 2 اپریل کی تاریخ طے کی گئی ہے۔ کم از کم 2 اپریل تک تو چیئرمین سینیٹ کا اہم آئینی عہدہ خالی رہے گا۔ سینیٹ کے انتخابات کے بعد چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین کے لیے انتخاب ہوگا۔
صدارتی انتخاب میں پیپلزپارٹی کے آصف علی زرداری الیکٹورل کالج سے411 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے، اُن کے مدمقابل امیدوار محمود خان اچکزئی کو 181 ووٹ ملے۔ صدارتی انتخابات میں 1044 ووٹ ڈالے گئے جبکہ 9 ووٹ مسترد ہوئے۔ آصف علی زرداری دوسری بار صدرِ مملکت منتخب کیے گئے ہیں، اِس بار انہیں ماضی کے مقابلے میں70 ووٹ کم ملے ہیں، اس کی وجہ صدر کے انتخاب کے لیے الیکٹورل کالج میں ان کے سیاسی حریفوں کی تعداد میں اضافہ ہونا، یا ان کے متوقع حامیوں کا اس انتخاب سے لاتعلق رہنا ہے۔ پارلیمنٹ کی اہم جماعتیں جے یو آئی، جی ڈی اے اور جماعت اسلامی صدارتی انتخاب کے عمل سے لاتعلق رہی ہیں، ان کے ارکان نے صدارتی عہدے کے لیے کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہیں دیا۔ بہرحال پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں سے آصف علی زرداری بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے، جبکہ خیبر پختون خوا اسمبلی میں محمود خان اچکزئی کا پلڑا بھاری رہا۔
صدارتی انتخاب میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے تمام اراکین کا ووٹ شمار کیا جاتا ہے، جبکہ ہر صوبائی اسمبلی کے مجموعی الیکٹورل ووٹوں کو سب سے چھوٹی اسمبلی کے ارکان کی تعداد سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ 4 سینیٹرز نے بھی ووٹ نہیں ڈالا جن میں شبلی فراز، اعجاز چودھری، اعظم سواتی اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے مظفر حسین شاہ شامل ہیں۔
بہرحال ملک میں صدارتی انتخاب کا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے، صدر زرداری نے پہلا صدارتی حکم اپنی صاحب زادی آصفہ بھٹو کے لیے جاری کیا اور انہیں خاتونِ اول کا درجہ دیا گیا ہے۔ ملکی تاریخ میں یہ دوسری بار ہوا کہ کسی صدر نے اپنی صاحب زادی کو خاتونِ اول کا درجہ دیا۔ اس سے پہلے یہ کام صدر ایوب خان نے کیا تھا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ صدر زرداری پارٹی کی سیاسی قیادت کے لیے آصفہ بھٹو کو تیار کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔
وزیراعظم شہبازشریف، وفاقی کابینہ اور صدر زرداری کی جانب سے ابھی تک 9 مئی کے واقعے کے بارے میں کوئی واضح حکمت عملی سامنے نہیں آئی، اب سوال یہ ہے کہ کیا ’’نو مئی‘‘ کہیں کھوگیا ہے؟ وفاقی حکومت کے لیے ایک چیلنج کے پی کے حکومت ہے، جس نے پَر نکال لیے ہیں اور وفاق کو بہت ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے وفاقی حکومت کے ساتھ چیف سیکرٹری کی تبدیلی کا پہلا معرکہ سر کرنے کے لیے خط لکھ دیا ہے۔
ملکی سیاسی منظرنامے میں ابھی اگلے ہفتے 14 مارچ کو سینیٹ کی خالی ہونے والی 11 نشستوں پر انتخاب ہونا ہے، اس کے بعد 2 اپریل کو سینیٹ کے نصف ارکان کا 6 سال کے لیے انتخاب ہوگا۔ پیپلزپارٹی سینیٹ کے چیئرمین کے عہدے کی امیدوار ہے، تاہم سابق نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ بھی اس عہدے میں دلچسپی رکھتے ہیں، اگر قرعہ فال اُن کے نام نکلا تو چیئرمین سینیٹ کا عہدہ بلوچستان کو مل جائے گا اور اس کے بعد ملک میں آئینی جمہوری ایوانوں کا انتخابی عمل مکمل ہوجائے گا، اور مسلم لیگ(ن) کی نئی حکومت کے لیے وفاق میں سیاسی، معاشی بحران کے علاوہ پیپلزپارٹی کا سیاسی رویہ بھی کسی بحران سے کم نہیں ہوگا۔ پیپلزپارٹی ا ِس بارکسی سیاسی نقصان کی حصہ دار بننے کے بجائے اپنے حصے سے کہں زیادہ سیاسی فائدے سمیٹنے کی حکمت عملی اپنا کر ایوان میں بیٹھی ہے، اب اس کی نظریں بجٹ پر ہیں، وہ بجٹ میں سندھ اور بلوچستان کے لیے غیر معمولی حصہ مانگے گی، مسلم لیگ(ن) اسے کیا کچھ دے سکتی ہے اور کیا دینا چاہے گی؟ اس سوال کا جواب بجٹ دستاویز سے مل سکے گا۔
ملک کے اہم سیاسی اور صحافتی حلقوں میں یہ بھی دعویٰ کیا جارہا ہے کہ تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان برف پگھل رہی ہے۔ نوازشریف کو لاہور کی سیٹ سے ہروا دیا جائے گا جس کے بعد وہ لندن چلے جائیں گے۔ آئندہ 6 ماہ کے دوران یہ ہوجائے گا۔ نوازشریف کو کہا جا رہا ہے کہ وہ لندن چلے جائیں۔ نوازشریف سے خطرہ ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے خلاف ہیں جس سے مہنگائی آئے گی، اور وہ اس پر آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔ نوازشریف سے کہا جارہا ہے کہ پنجاب اور وفاق کو ہم ہی چلائیں گے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے جن حالات میں اپنا دور حکومت شروع کیا ہے وہ نہایت گمبھیر ہیں۔ اگر حکومت اور پارلیمنٹ نے حالیہ انتخابات کے نتائج کے حوالے سے ملک بھر میں پھیلے ہوئے خدشات اور تحفظات دور کرنے کی کوئی قانونی راہ نکالی تو بہت حد تک ممکن ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت اچھی شروعات کرسکتے۔ ورنہ اس حکومت کے آگے کھائی اور پیچھے گہرے گڑھے ہیں، جن کی وجہ سے وہ اپنا راستہ کھو سکتی ہے۔ یوں اس حکومت کا ہنی مون شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوسکتا ہے۔ یہ بات مذاق میں نہ لکھی جارہی ہے اور نہ کہی جارہی ہے، حقیقت یہ ہے کہ ملک مشکل میں ہے۔ پاکستان اور پورے خطے کے بہتر مستقبل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو ذمہ داری کا احساس کرنا ہو گا، ایک دوسرے کو سنبھالنا ہو گا، مل جل کر کام کرنا ہو گا۔ یہ سب کی عقل اور فہم کا امتحان ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ معاشرے سے انتشار ختم کرنے کے لیے اپنے رویّے میں تبدیلی لائیں، بیانات ضرور دیں لیکن تہذیب کا دامن نہ چھوڑیں، ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے اور دشنام طرازی میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنے اپنے کام اور ذمہ داریوں پر توجہ دیں۔ سیاسی تقسیم گہری ہوچکی لیکن اِس کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیںہوئے،اِس لیے اِسے ختم کرنے پر غور کریں،’’کھیلوں گا اور نہ کھیلنے دوں گا‘‘ جیسا رویہ مناسب نہیں ہے۔ اب حکومت پر لازم ہے کہ وہ دیگر سیاسی جماعتوں کے تحفظات پر سنجیدگی سے غور کرے،ان کی جائز شکایات دور کر کے ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام پیدا کرنے میں پہل کرے۔ ملک میں معاشی استحکام اسی صورت آسکتا ہے کہ سیاست سے انتشار اور تقسیم کو ختم کیا جائے۔
وطنِ عزیز میں عام انتخابات کے انعقاد کے بعد حکومت کے لحاظ سے مثبت معاشی خبروں کی آمد شروع ہوگئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ معاشی امکانات روشن ہورہے ہیں۔ بڑی خبر یہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) تین ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) پروگرام کے دوسرے جائزے کے لیے اپنا مشن اسلام آباد بھیجنے کے لیے تیار ہے۔ آئی ایم ایف ترجمان کے مطابق مالیاتی فنڈ پاکستانی عوام کی بھلائی اور میکرو اکنامک استحکام کے لیے اسلام آباد کے ساتھ مل کرکام کرنے کے لیے تیار ہے۔ موجودہ اسٹینڈ بائی پروگرام اپریل 2024ء میں ختم ہورہا ہے جبکہ پاکستان یقینی طور پر نیا قرضہ لینا چاہے گا۔ معیشت کے حوالے سے دوسری بڑی خبر عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز کا تازہ فیصلہ ہے جس کے تحت پاکستان کے بینکنگ شعبے کی ریٹنگ منفی سے مستحکم کردی گئی ہے۔ موڈیز کے مطابق رواں برس پاکستان میں معاشی ترقی کی شرح 2فیصد تک ہوسکتی ہے، جبکہ افراطِ زر کی شرح گزشتہ سال کے مقابلے میں 29فیصد سے کم ہوکر23فیصد رہے گی۔ موڈیز کے مطابق بینکنگ شعبے کا منافع آئندہ برس شرح سود اور بلند ٹیکسوں کی وجہ سے کم ہوسکتا ہے، پاکستان نے مشکل وقت میں بینکوں کی مدد کی جس سے ڈپازٹرز کا نقصان نہیں ہوا، بینکوں کے منافع کے باعث بہتر فنڈنگ، لیکویڈیٹی، معاشی چیلنجز اورسیاسی بحران سے نمٹنے میں مدد ملی اور پاکستانی بینکنگ نظام پر معاشی ومالیاتی دبائو کم ہورہا ہے۔ آئی ایم ایف نے بھی فیڈرل بیورو آف ریونیو(ایف بی آر) سے پرچون فروشوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے حوالے سے ٹائم فریم پر استفسار کیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ کام نئی کابینہ کی تشکیل کے بعد ہوگا۔ اہم بات یہ کہ آئی ایم ایف شرائط کے نتیجے میں اچھے نتائج کے ساتھ مالیاتی معاملات ڈسپلن میں آرہے ہیں۔ اس ڈسپلن کو برقرار رکھتے ہوئے غریبوں کو ریلیف دینے اور امیروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی تدابیر کی جانی چاہئیں۔ اچھے اور مثبت نتائج کے لیے شہبازشریف کے لیے کیا سبق ہے؟ پہلا: اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جھگڑے سے گریز کریں۔ دوسرا: اپوزیشن کو کچھ جگہ دیں، اور تیسرا: پڑوسیوں یا دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ تنازعات کو ہوا دیے بغیر معیشت پر توجہ دیں اور جذباتیت کو ایک طرف رکھیں۔تاہم اِس بار کمزور حکومتی اتحاد کو درپیش مسائل اور چیلنجز پہلے کی نسبت زیادہ تشویش ناک ہیں۔ ان کے پہلے دورِ حکومت میں کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہوا اور ان کی نئی حکومت کو بھی متوقع طور پر پیچیدہ صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔نئی انتظامیہ کے لیے ایک بڑا چیلنج طویل عرصے سے زیرِ التوا ریاستی اداروں کی نجکاری کا عمل شروع کرنا ہوگا۔ یہ ادارے معیشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو اس حوالے سے سخت تحفظات ہیں مگر اس معاملے پر دیگر اتحادی جماعتوں کا واضح مؤقف سامنے نہیں آیا۔
اقتصادی پہلو کے حوالے سے ایک اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ نئی حکومت قرضوں کی بدترین صورتِ حال سے کیسے نمٹتی ہے؟ قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں وزیراعظم شہبازشریف نے افسوس کا اظہار کیا کہ پوری وفاقی حکومت کے اخراجات قرضے کی رقم سے پورے کیے جاتے ہیں، صوبوں کو فنڈز کی منتقلی کے بعد وفاقی حکومت کے پاس بہت کم رقم رہ جاتی ہے۔ یہ یقیناً ملک کی مالی پریشانیوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔ شہبازشریف نے قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ سے نمٹنے کے لیے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ (این ایف سی) پر نظرثانی کا عندیہ دیا ہے۔ لیکن این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کے لیے تمام صوبوں کے اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں اتفاقِ رائے ہونا ناممکن نظر آتا ہے۔ صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے، بالخصوص خیبرپختون خوا جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ موجودہ انتظامات میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کے لیے سیاسی مفاہمت کی ضرورت ہوگی جو محاذ آرائی کے موجودہ ماحول میں ہونے کی امید نہیں۔
شہبازحکومت کے لیے ایک اور بڑا چیلنج آئی ایم ایف کے ساتھ 6 ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ کے لیے بات چیت کرنا ہوگا جوکہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان نے گزشتہ موسم گرما میں آئی ایم ایف کے قلیل مدتی بیل آؤٹ کی وجہ سے ڈیفالٹ کے خطرے کو ٹال دیا تھا، لیکن آئی ایم ایف کا یہ پروگرام جلد ہی ختم ہونے والا ہے۔ چند ہفتوں میں ایک نئے پیکیج کے لیے عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ بات چیت شروع ہونے کی امید ہے۔ آئی ایم ایف نے پہلے ہی اپنی شرائط پیش کردی ہیں اور حکومت کو کسی بھی نئے معاہدے سے پہلے ان شرائط پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ان میں سے کچھ شرائط تو ایسی ہیں جن سے پہلے سے عدم استحکام کا شکار حکومت مزید غیر مقبول ہوگی اور اس پر شدید سیاسی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ شہبازشریف کی پچھلی حکومت جس میں اسحاق ڈار وزیرخزانہ تھے، اسے آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ البتہ آخری لمحات میں دیے گئے آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج کی بدولت ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا تھا۔لیکن صرف معیشت نہیں بلکہ داخلی سلامتی سے متعلق مسائل بھی درپیش ہیں جن پر تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان وسیع تر قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے اور اپوزیشن کو آن بورڈ لینے کی ضرورت ہے۔