”حکمران ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں گاڑی کو چلانا ہوتا ہے۔ وہ جدھر گاڑی کو لے جانا چاہے گا اُدھر لوگوں کو جانا پڑے گا۔ بے شک وہ روئیں، دُعائیں کریں، اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ وہ گاڑی کو گنگا کو لے جارہا ہے تو وہ مکہ نہیں پہنچے گی۔ اگر مکہ جانا ہے تو اُس آدمی کو اسٹیرنگ پر بٹھائو جو گاڑی کو مکہ کی طرف لے جانے کا ارادہ رکھتا ہو۔ اس لیے اگر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو چھیڑے بغیر ہی دین پر عمل ہوجائیں گے تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ آہستہ آہستہ نمازیں بھی چھوٹ جائیں گی۔ اب دیکھیے جمعہ کی چھٹی ختم ہوجانے کی وجہ سے لوگ خطبہ نہیں سن سکتے اور بمشکل جمعہ پڑھ پاتے ہیں۔ غیر مسلم ملکوں میں لوگ کہتے ہیں کہ کمپنیاں ہمیں نماز پڑھنے کے لیے چھٹی نہیں دیتی ہیں۔ اس لیے ظالم حکومت کو برداشت کرنا آہستہ آہستہ سارے دین کو ختم کردینے کے مترادف ہے۔“