انڈس اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹرعبدالباری کا انٹرویو

بہترین طبی سہولتوں کے ساتھ مفت اسپتال کا خواب کیسے پورا ہواڈائو میڈیکل کالج کے طلبہ کے ایک گروپ نے مریضوں کی خدمت کے سلسلے کا آغاز کیاانڈس اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹرعبدالباری کا انٹرویو

ڈاکٹر عبدالباری خان کا پاکستانی معاشرے میں خدمت کے حوالے سے اہم اور بڑا نام ہے۔ آپ پاکستانی افرادِ معاشرہ کی بڑی تعداد کو ایک چھت کے نیچے صحت کی معیاری سہولیات منظم انداز میں فراہم کررہے ہیں۔ انڈس اسپتال کی تعمیر ایک ایسا خواب تھا جو شاید کم ہی لوگ دیکھ پاتے ہیں، اور ڈاکٹر صاحب نے اپنے خواب کو حقیقت کردکھایا۔ آپ کی زندگی کی کہانی متاثر کن اور قابلِ تقلید ہے۔

پاکستان میں صحت کی سہولیات مفت فراہم کرنے اور بغیر کسی کیش کاؤنٹر کے ایک جنرل اسپتال کا خیال اسپتال کے بانی سی ای او پروفیسر ڈاکٹر عبدالباری خان نے 1987ء میں پیش کیا تھا، اور آج 2024ء میں پورے ملک میں اُن کا کام پھیل چکا ہے۔ اس وقت انڈس اسپتال کی زیر ملکیت اور زیرانتظام موجود اسپتالوں میں دی انڈس اسپتال کورنگی کیمپس کراچی، شیخ سیعد میموریل کیمپس کورنگی کراچی، الفقیر ٹرسٹ کیمپس پی آئی بی کراچی، الغازی ٹرسٹ کیمپس بھونگ رحیم یار خان، انڈس اسپتال اور ہیلتھ نیٹ ورک کیو ایف، این ایس ٹی اور ایس ایم پی کیمپس لاہور، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال بدین، تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال بیدیاں روڈ لاہور، تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال مناواں لاہور، تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال رائیونڈ لاہور، تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال سبزہ زار لاہور، تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال کاہنہ نو لاہور، ملتان انسٹی ٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیز ملتان، اور رجب طیب اردوان اسپتال مظفر گڑھ شامل ہیں۔ ڈاکٹر عبدالباری کو صدارتی ایوارڈ کے علاوہ کئی ایوارڈ مل چکے ہیں۔ لیکن ہمارے نزدیک اگر ایوارڈ نہ بھی ہوں تو ان کے قد و مقام پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ڈاکٹر باری کی زندگی کی کہانی اور ان کی خدمات کو سمجھنے کے لیے ان کا یہ تفصیلی انٹرویو نوجوان نسل اور سماج کے لیے کچھ کرنے کی خواہش رکھنے والے لوگوں کے لیے یقیناً دلچسپی کا باعث ہوگا۔ انٹرویو نذرِ قارئین ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: آپ کہاں پیدا ہوئے، بچپن کیسا تھا، کہاں سے تعلق ہے، تربیت کن لوگوں میں ہوئی؟

ڈاکٹرعبدالباری: میری پیدائش کراچی کی ہے، والدین کا تعلق پشاور سے ہے۔ میرے والد صاحب 1956ء میں کراچی آگئے تھے۔ تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے تھا۔ دو سے ڈھائی کمروں کا گھر تھا اور ماشاء اللہ ہم گیارہ بہن بھائی [سات بھائی، چار بہنیں]۔ سب سے بڑی بہن کی شادی کی یادیں بھی بہت دھندلی سی ہیں۔ اسکول کی تعلیم کراچی میں حاصل کی۔ کچھ عرصہ مدرسہ بنوری ٹائون میں بھی پڑھا۔ ناظرہ اور حفظ کرنے کی کوشش کی مگر جاری نہ رکھ سکا۔ مجھ سے بڑے بھائی حافظ بنے، مفتی بنے، پھر عالم بنے۔ اقراء روضۃ الاطفال کا پورا انتظام دیکھا۔ گھر کا ماحول دینی، اور بزرگوں کا آنا جانا رہتا تھا۔ ہمارا مولانا اشرف علی تھانوی کے خلفاء سے تعلق رہا۔ میرے والد صاحب مفتی حسن صاحب سے بیعت تھے جو لاہور والے تھے۔ اس کے بعد سب مفتی عمر صاحب سے بیعت ہوئے۔ وعظ میں بھی شرکت کرتے تھے۔ والد محترم بھی تہجد گزار تھے، سب کے لیے دعا کرتے تھے، اور میں نے اپنے لیے ہمیشہ یہ دعا سنی کہ عبدالباری کو خدمتِ خلق کے جذبے کے ساتھ ڈاکٹر بنانا، اور میرے بڑے بھائی کے لیے یہ کہ اس کو دین کی خدمت کرنا نصیب ہو۔ والد صاحب کی دونوں دعائیں قبول ہوئیں۔ وہ رمضان سے پہلے شعبان میں چلے جاتے تھے سعودی عرب عمرہ کی نیت سے، اور پھر حج کی سعادت حاصل کرکے آیا کرتے تھے۔ ہمارا معمول تھا کہ مغرب کی اذان سے پہلے گھر آجایا کرتے تھے۔ میٹرک تک کسی کو سنیما جانے کی اجازت نہیں تھی۔ میں نے پہلی فلم جناح دیکھی تھی میڈیکل کالج کے زمانے میں۔

فرائیڈے اسپیشل: بچپن یا زمانہ طالب علمی میں کن مشکلات کا سامنا رہا اور ان کے ساتھ کیسے آگے بڑھے؟

ڈاکٹرعبدالباری: الحمدللہ سفید پوشی میں زندگی گزری۔ رہائش کراچی میں تھی تو جو رشتہ دار آتا، ہمارے گھر میں قیام کرتا۔ تب دل بڑے اور گھر چھوٹے ہوتے تھے۔ آج معاملہ اس کے برعکس ہوتا جارہا ہے۔ رہائش جہانگیر روڈ پر تھی۔ قرآن کی تعلیم کے لیے بنوری ٹائون اور اسکول سولجر بازار کی طرف تھا آدم جی کالج کے قریب۔ آٹھویں تک وہاں تعلیم حاصل کی کیوں کہ وہاں سائنس نہیں تھی۔ پھر اسپرنگ فیلڈ کارساز سے میٹرک کیا، اور آدم جی کالج، پھر ڈائو میڈیکل کالج سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی۔

فرائیڈے اسپیشل: ڈاکٹر بننا والد صاحب کی دعا کے علاوہ آپ کی اپنی خواہش تھی کہ جذبہ خدمت سے اس شعبے کی طرف آنا ہے؟

ڈاکٹرعبدالباری: شروع سے میرا ارادہ اسی شعبے سے وابستہ ہونے کا تھا۔ اُس وقت جس طالب علم سے پوچھو وہ ڈاکٹریا انجینئر بننا چاہتا تھا۔ ڈاکٹر کیوں بننا ہے؟ اس لیے کہ انسانیت کی خدمت کرنی ہے۔ گھر میں بالکونی مجھے یاد ہے جہاں سونے اور پڑھنے کی جگہ تھی۔ پورا سال مہمان داری… اور کبھی خیال تک نہ آیا کہ یہ مہمان اتنے کیوں آتے ہیں؟

فرائیڈے اسپیشل: میڈیکل کالج کے ساتھی جو آج بھی ساتھ ہوں، اسی جذبہ خدمت کے ساتھ کام کررہے ہوں، ان کا ذکر کرنا چاہیں گے؟

ڈاکٹرعبدالباری: جب ڈائو میں داخلہ ہوا تو ساتھ میں سول اسپتال تھا۔ اُس وقت سول اسپتال کے حالات بہت خراب ہوا کرتے تھے۔ اسپتال میں بیڈ اور ڈاکٹر تو مل جاتے تھے، مگر بیڈ پر چادر ہے یا نہیں ہے، چادر صاف ہے یا گندی ہے، بیڈ پر میٹرس بھی آلودہ ہے ہر قسم کی غلاظت سے، اسی پر مریضوں کا لیٹنا… جس کے پاس تھوڑی سی بھی استطاعت ہوتی وہ یہاں نہ آتا۔ زیادہ تر غریب انسان آتے تھے۔ ساتھ ایک کہانی کہ کچھ نہ کچھ بیچ کر یہاں آیا ہے۔ مایوسی کی انتہا بھی دیکھی جہاں مریض کے ساتھ آنے والے کہتے تھے کہ اللہ اسے اٹھا لے، یا ڈاکٹر اس کو مرجانے دو کہ یہ سودا برا نہیں، ایک کو مرجانے دیا جائے اور گھر پر دیگر کو بچا لیا جائے معاشی طور پر۔ 1979ء میں ڈائو میڈیکل کالج کے طلبہ ڈاکٹر عبدالرحمان، ڈاکٹر عنایت اور ڈاکٹر اقبال جنہوں نے ایک آرگنائزیشن بنائی پیشنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن وہ آج تک چل رہی ہے، جس کے تحت پیسے جمع کرکے دوائیوں، خون اور دیگر ضروریات کا انتظام کیا جاتا تھا۔ کیوں کہ اُس وقت خون حاصل کرنے کا ذریعہ سول اسپتال کے باہر موجود چرسی موالی ہوا کرتے تھے، ان کا ایک ٹھیکیدار تھا کالے خان۔ جس گروپ کا خون چاہیے ہوتا وہ ایک آواز لگاتا اور ایک لڑکھڑاتا ہوا چرسی خون دینے آجاتا، جس کے خون میں خون کے سوا تمام بیماریاں ہوتی تھیں۔ ایک صحت مند انسان دو سے تین مہینے میں خون دینے کے قابل ہوتا ہے، یہ چرسی موالی ہفتے میں دو بار خون بیچا کرتے تھے جو ہیپاٹائٹس پھیلنے کی بڑی وجہ بنا۔ یہ چرسی موالی 1981ء میں ہڑتال پر چلے گئے، مطالبہ تھا کہ ان کے پیسے بڑھائے جائیں، جس کی وجہ سے بہت اموات ہوئیں۔ رضاکارانہ طور پر خون عطیہ کرنے کا رجحان کم تھا اور شعور بھی نہیں تھا۔ ایک مریض آتا تو اُس کے ساتھ پچاس لوگ آتے مگر خون دینے کے وقت سب غائب ہوجاتے تھے۔ میں نے پیشنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن 1979ء میں جوائن کرلی تھی۔ ہم نے اپنے ساتھیوں کو جمع کیا کہ ہم خود خون کا انتظام کرتے ہیں۔ چرسی موالیوں کی یہ ہڑتال ایک نیا موڑ لائی اور ہم نے ارادہ کیا کہ اپنا بلڈ بینک بناتے ہیں۔ پہلارضاکارانہ بلڈ بینک ڈائو یونیورسٹی کے طالب علموں نے بنایا۔ میری خوش قسمتی کہ میں اس کا ڈائریکٹر تھا۔ جو کمرہ ملا اسے توڑا، مستری لے کر آئے اور نئے سرے سے اس کمرے کو بنوایا۔ ایک کمرے سے کام شروع کیا، پھر بلڈ کو اسکرین کرنا شروع کیا، لوگوں کو آمادہ کیا، نایاب گروپ ہم راتوں کو گھروں سے جاکر لاتے تھے۔ یوں سمجھ لیں اس شعبے میں خدمت کا کام بلڈ بینک سے شروع کیا۔

میں سوچتا تھا پیشنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن بڑا کام کررہی ہے، دوائیاں دے رہی ہے، بلڈ دے رہی ہے۔ پھر جب پروفیشنل زندگی میں آیا تو احساس ہوا PWA ایک ادارہ ہے جس نے مجھے گروم کیا، ہمارے جیسے بہت سارے لوگوں کو گروم کیا ،ان کو ایک مختلف ڈاکٹر بنایا۔ جب یہ لوگ باہر نکلے تو ان کو فیس لینا نہیں آتی تھی۔ کسی نے فیس دی تو ٹھیک، نہیں تو کوئی بات نہیں۔ PWA سے جو گزرا ہے وہ مسیحا ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: خیال تو آپ اور دیگر ڈاکٹرز کو بھی آتا ہوگا کہ ڈاکٹر بن گئے، پیسہ کمانا ہے، ملک سے باہر جانا ہے۔

ڈاکٹرعبدالباری: جی آپ نے درست کہا۔ مگر جب آپ ایک سوچ، ایک جذبے کے تحت کام کررہے ہوں تو مذکورہ معاملات ثانوی ہوجاتے ہیں۔ اس وقت سب کو ہول بلڈ (Whole Blood)ملا کرتا تھا، سب کو Components کا کوئی تصور نہیں تھا۔ Paxilہوتا تھا، اس کا طریقہ یہ تھا کہ خون کو لٹکا دیں تین گھنٹے کے لیے، ریڈ بلڈ سیل Settleہوجائیں گے، اوپر سے پلازما (Plazma)کو نکال کر پھینک دیا جبکہ وہ بھی کام میں آتا ہے۔ ہماری سالانہ جنرل میٹنگ ہر سال لازمی ہوتی تھی جس میں سارے معاملات سامنے رکھے جاتے اور اگلے سال کے اہداف طے کیے جاتے تھے۔ جب میں چوتھے سال میں پہنچا تو ہم نے طے کرلیا تھا کہ ہم خون کے اجزاء (Blood Components) بنانا شروع کریں گے۔ کچھ دنوں بعد ہی ہمیں ایک صاحب مل گئے جنہوں نے پیش کش کی کہ وہ ہمیں سارا سامان مہیا کریں گے۔ ہماری ڈونیشن پانچ سو یا ہزار روپے آتی تھی۔ میں

Preparation Leave پر تھا، مجھے گھر پر فون آیا کہ ایک صاحب آئے ہیں اس سلسلے میں، اور سارا کچھ آپ کے پاس ہے۔ پھر میں پہنچا اور طے پایا کہ ہم یہ کام کریں گے۔ ایک برائون لفافے کے اندر 4لاکھ 50ہزار روپے ہمارے حوالے کردیے جو پورے پراجیکٹ کا تخمینہ تھا۔ بینک کا وقت ختم ہوچکا تھا، اب سوال یہ پیدا ہوا کہ کہاں رکھیں یہ رقم؟ تو ایک سینئر کے گھر یہ رقم رکھی۔ پھر میں ٹریننگ کے لیے جرمنی چلا گیا۔ اس سے پہلے جب سامان اگیا تو خود کلیئر کرایا، کوئی ایجنٹ نہیں لیا کہ قدم قدم پر پیسہ بچانا تھا۔ اس معاملے میں تھوڑی تکلیف کا سامنا رہا۔ کچھ سامان ائیرپورٹ، کچھ سی پورٹ پر آیا۔ ایئرپورٹ پر چالان 4250روپے کا تھا جو نیشنل بینک میں جمع ہونا تھا۔ جب رقم لے کر میں گیا تو بار بار بینک والا واپس کررہا تھا۔ وہاں ایک صاحب سب کچھ دیکھ رہے تھے، انہوں نے بلایا اور پوچھا کیا معاملہ ہے؟ ان کو معاملہ بتایا تو کہنے لگے میں کچھ کرتا ہوں۔ انہوں نے چالان کی رقم سے 250 روپے اپنے پاس رکھ کر 500کا نوٹ رکھ دیا اور کہا اب جائیں چالان جمع کروائیں۔ میں گیا اور چالان دیا تو فوراً اسٹیمپ لگ گئی اور چالان جمع ہوگیا۔ مجھے بہت افسوس ہوا کہ اُس وقت کسٹم تو بدنام تھا مگر بینک میں یہ ہونا بہت تکلیف دہ تھا۔ اس کے بعد سی پورٹ.. جہاں کچھ کام جان پہچان، کچھ خود سے ہوگیا۔ مشینری بڑی تھی۔ جب وہاں پہنچے تو شیڈ بند اور لنچ ٹائم ہوگیا تھا۔ کے پی ٹی صبح ساڑھے سات بجے کام شروع کرتی تھی اور گیارہ بجے ان کا لنچ ہوتا تھا۔ شیڈ سارے کے پی ٹی کے تھے۔ کچھ دیر بعد ہم پون بجے آئے تو کسٹم والوں کا لنچ ہوگیا۔ عملی طور پر 11 بجے سے 2 بجے تک کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔ 1986ء میں میری گریجویشن تھی اور 1985ء میں ہی کراچی کے حالات مخدوش ہونا شروع ہوئے۔ مشہور کیس ہوا تھا بشریٰ زیدی کا، اور 1986ء میں بوہری بازار میں بم دھماکہ ہوا تھا۔ میں ہائوس جاب کررہا تھا اور سول اسپتال میں Casualties بہت آتی تھیں۔ تو جب باڈیز آنا شروع ہوگئیں تو ڈیڈ باڈیز میں سے زخمیوں کو نکالنا، پھر جانچ کرنا کہ کون بچ سکتا ہے، اس کا علاج کرنا… اس سارے معاملے میں ایک اچھی چیز کہ رضاکارانہ خون دینے والوں کی لمبی قطار ایمرجنسی کے باہر تک موجود تھی۔ ان حالات میں بھی لوگ بڑی تعداد میں موجود تھے۔ مجھے لیبر روم سے کال آئی بلڈ کے لیے۔ زخمی پٹھان عورت کو خون کی اشد ضرورت تھی۔ میں نے اس کے شوہر سے کہا کہ آپ خون دیں، تو ہمارے پٹھان بھائی نے بڑے معصومانہ انداز میں جواب دیا کہ اگر میں نے اپنی بیوی کو خون دیا تو وہ میری بہن بن جائے گی۔ میں نے غلط فہمی دور کی کہ ایسے کوئی بہن بھائی نہیں بن جاتا۔ پھر اسے لے کر بلڈ بینک کی طرف جارہا تھا کہ اس کا بوڑھا باپ مل گیا، اسے پتا چلا تو بیٹے سے کہنے لگا کہ تم خون نہیں دو گے، اگر دیا تو میں دیوار سے سر ٹکرا ٹکرا کر جان دے دوں گا۔ میں نے کہا: بابا جی آپ کی بہو مر جائے گی۔ وہ کہنے لگے: مرجائے گی تو دوسری آجائے گی۔ ان مشکل حالات کا ڈائو کے اسٹوڈنٹس ہی مقابلہ کررہے ہیں۔ 275 یونٹ یومیہ جاتا ہے۔ پروفیشنل ڈونر اب ختم ہوگئے ہیں۔ دوسری اچھی چیز، ایک بڑی تعداد اُن افراد کی تھی جو تھیلوں میں پیسے لے کر پوچھ رہے تھے آپ کو کس چیز کی ضرورت ہے؟ اس دن مجھے احساس ہوا کہ یہ عجیب قوم ہے، اس میں جذبہ بہت ہے۔ مشکل حالات میں پاکستانیوں سے اچھی قوم کوئی نہیں ہے چاہے 2005ء کا زلزلہ ہو، 2010ء کا سیلاب ہو یا کورونا۔ میری دعا ہے اللہ سے کہ اس قوم کو عام حالات میں بھی ایسا ہی کردے جیسے یہ مشکل وقت میں نظر آتی ہے۔ جب ہم ایمرجنسی سے فارغ ہوئے تو خیال آیا کہ اتنا بڑا شہر ہے، ابھی ایک بم دھماکہ ہوا ہے اور ہمارے پاس شہر میں کوئی بڑی ایمرجنسی نہیں ہے تو اسے بڑا کرتے ہیں۔ ہم ارشد شاہد عبداللہ آرکیٹیکٹ کے پاس گئے اور سے درخواست کی کہ 100 بیڈ کی ایمرجنسی بنادیں۔ انہوں نے نقشہ بنا کر بھیج دیا اور پوری سپورٹ کی۔ ہم نے اس کا بجٹ بنوایا تو 36لاکھ کا بنا۔ ہم نے پیسے جمع کرنا شروع کیے تو ہماری ملاقات ایک فوٹوگرافر سے ہوئی جس کی دکان جائے حادثہ کے قریب تھی، اُس کے پاس بکھرے انسانی اعضاء اور تباہ شدہ عمارتوں کی ساری تصاویر نکل آئیں۔ ہم نے وہ تصاویر حاصل کیں اور ان کی سلائیڈز بنوائیں۔ ایمرجنسی بنوانے کے لیے پیسہ کم آرہا تھا، 10 سے 12 لاکھ بھی نہیں ہورہے تھے اور ہمیں ایمرجنسی بالکل اَپ ٹو ڈیٹ بنوانی تھی، تو فیصلہ کیا کہ شہر کے نامور بڑے اسکول جائیں گے Money Bagsکے ساتھ۔ ہمارا ایک ساتھی تھا جس کی پلاسٹک کی فیکٹری تھی، اُس سے کہا تو اُس نے کہا کہ اچار کے بڑے مرتبان ہیں وہ میں آپ کو دے سکتا ہوں۔ ہم نے رات بھر میں اس میں سوراخ کیے، پھر اسکول جاتے، پریزنٹیشن دیتے۔ ان 36 لاکھ میں سے 24 لاکھ بچوں نے جمع کیے۔ 3 لاکھ تو ریزگاری کی شکل میں تھے۔ تمام ڈونیشن چالیس بوریوں میں تھی جو بولٹن مارکیٹ میں جا کر تبدیل کروائی۔ اس دوران ہمیں PWD نے بہت تنگ کیا۔افتتاح سے ایک رات پہلے جب بورڈ لگ رہا تھا تو میں نے اپنے ساتھیوں کو جمع کیا اور کہا اِن شاءاللہ ہم ایک ایسا اسپتال بنائیں گے جوبہترین طبی سہولیات مفت فراہم کرے گا۔ اس کے بعد سارے ساتھی مختلف ممالک چلے گئے، میں پاکستان میں ہی رہا۔ اس اسپتال کا خواب 1987ءمیں دیکھا جو2007ء میں شرمندئہ تعبیر ہوا۔ میرے والد صاحب کو لگتا تھا کہ میرا دل کرتا ہوگا کہ میں بھی باہر چلا جائوں،والد صاحب کہتے تھے کہ جتنا تم کو ملے گا اتنا تمہارے ساتھیوں کو نہیں ملے گا۔ میرا وژن یہ تھا کہ مجھے cardiac surgeryکرنی ہے۔ اُس زمانے میں صرف Cardiac Vascular میں سرجری ہوتی تھی، پورے پاکستان سے لوگ وہاں آیا کرتے تھے۔ سرجن رحمان میرے Mentor تھے، میں ان کے پاس پہنچ گیاکہ مجھے Cardiac Surgeryکرنی ہے۔ پارٹ ون کیا College of Physician and Surgeonسے، پھر وہاں ٹریننگ کے لیے چلا گیا۔ وہاں پہنچا تو دو تھیٹر تھے.10 بیڈ کا ICUتھا۔ Waiting listتین سال تھی۔ ان کو پتا تھا آدھے سے زیادہ مریض نہیں آئیں گے۔ میرا ایک ٹریک بن چکا تھا، لوگوں کو اعتماد تھا کہ یہ کچھ کرتا ہے۔ لوگ کہا کرتے تھے کہ پیسے کی ضرورت ہو تو بتادینا۔ میں نے سرجن رحمان سے کہا: جیسا لوگ کہتے ہیں تو کیا پیسے دے دیں گے؟ سرجن رحمان نے کہا: اگر ہم انفرااسٹرکچر بنا لیں تو Massesکو فائدہ ہوگا۔ تین مہینے میں ہم نے 8 کروڑ روپے جمع کیے۔ دو تھیٹر Add کردیے۔ ICU دوگنا ہوگیا۔ Waiting Listچھے ماہ پر آگئی۔ شروع میں جب میں کام دیکھنے جاتا تھا تو سب سمجھتے تھے یہ ٹھیکیدار ہے۔ 1995ء میں Cardiac Surgeryمیں فیلوشپ مکمل کرلی۔ میں سندھ حکومت کا ملازم تھا، ڈیپوٹیشن پر یہاں آیا ہوا تھا۔ واپس گیا تو مجھے ڈائو میڈیکل کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر کی جاب دے دی۔ 3 ہزار روپے میری تنخواہ تھی۔ مجھے کہہ دیا گیا تھا کہ آگے فنڈ نہیں ہیں۔ مجھے پتا تھا ایسا ہی ہونا ہے۔ میرامشن یہ تھا کہ کارڈک سرجری کرنی ہے اور سول اسپتال میں کارڈک سرجری ڈپارٹمنٹ بنانا ہے۔ اب میں نے یہاں جگہ دیکھنا شروع کی تو ایک جگہ نظر آئی۔ انہوں نے کہا یہ لے لو۔ وہاں کچھ سامان ٹھیکیداروں کا پڑا ہوا تھا، کہا کہ اسے نکالو، مگر نہیں نکلا۔ ایک دن دیکھا کہ بہت صفائی ستھرائی ہورہی ہے۔ میں نے تو کسی کو کہا بھی نہیں، یہ کیسے ہوگیا! میں نے دیکھا کچھ سیاسی چہرے ہیں جن میں رضا ربانی اور رحیم بلوچ ایم این اے شامل ہیں۔ وہاں سے انہوں نے فیصلہ کیا اسپتال کا بورڈ بناتے ہیں۔ میں نے بنا تو دیا بورڈ، اب آفس کے لیے جگہ چاہیے۔ انہوں نے کہا یہ جگہ ہے جوکارڈک سرجری ڈپارٹمنٹ کے لیے تھی۔ میں نیچے اترا تو رش دیکھا۔ پوچھنے پر کہنے لگے ابھی بتاتے ہیں۔ میں نے MS سے پوچھا تو پتا چلا وہ یہاں اپنا آفس بنانا چاہتے ہیں۔ پرنسپل شفیق رشید صاحب نے میری بڑی مدد کی، انہوں نے یقین دلایا کہ یہ میں ہونے نہیں دوں گا، اور انہوں نے مجھے وہ جگہ دلوا دی۔ پھر 2000ء میں ہمارا یہ ڈیپارٹمنٹ بن گیا اور ہم نے پہلا آپریشن کیاوہ بھی بالکل مفت۔ اب تک 10500 آپریشن ہوچکے ہیں۔

(جاری ہے)