الطاف حسن قریشی صرف مدیر ہی نہیں بلکہ بہت عمدہ نثر نگار بھی ہیں۔ چنانچہ حال ہی میں ان کی کتاب ’’قافلے دل کے چلے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے جو ان کے متعدد بار حج اور عمرے کی دلآویز داستان ہے۔ یہ صرف سفرنامہ یا آپ بیتی نہیں بلکہ اس سفر میں روحانیت کی ایک لہر بھی قاری کے دل و دماغ میں رواں دواں رہتی ہے۔ قریشی صاحب چونکہ قومی اور بین الاقوامی سیاست کے اندرونی خدوخال میں دلچسپی رکھتے ہیں چنانچہ ’’قافلے دل کے چلے‘‘ میں اس کی جھلکیاں جا بہ جا ملتی ہیں۔ ایک فلسطینی خاتون کی پاکستان سے محبت کا بیان تو قاری کو جذباتی کردیتا ہے۔ قریشی صاحب نے مناسکِ حج کا ذکر بھی کیا ہے اور ایک بہت اہم حصہ منیٰ میں شاہ فیصل مرحوم سے پہلی ملاقات ہے جو صرف تین منٹ پر محیط تھی لیکن اس مختصر ترین ملاقات میں دوطرفہ محبت کی جھلکیاں ملتی ہیں۔
دراصل یہ کتاب قلم سے نہیں بلکہ خونِ دل میں انگلیاں ڈبو کر جذبات کے فائونٹین پین سے ضبطِ تحریر میں لائی گئی ہے۔ اس کے پبلشر علامہ عبدالستار عاصم ہیں۔ الطاف حسن قریشی صاحب کی عمرِ عزیز نوّے برس سے زائد ہے۔ پیرانہ سالی کے باوجود علمی اور تحقیقی کاموں میں متحرک رہتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً ان کی تحریریں ہمیں پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں۔ آپ نے کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ تھمنے نہیں دیا۔ اس کام کے لیے آپ کے پوتے ایقان حسن قریشی آپ کی معاونت کرتے ہیں۔
عمومی طور پر دیارِ حجاز کے متعلق لکھے جانے والے سفرنامے اور تحریریں قارئین نہایت عقیدت و احترام سے پڑھتے ہیں۔ اللہ کے گھر کعبہ اور نبی کریمؐ کے روضہ اقدس پر حاضری سے جڑے مشاہدات اور محسوسات کا بیان ایک خاص تاثیر کا حامل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سفر حجاز کی روداد کسی عام سے مصنف نے بھی لکھی ہو تو اس کی اپنی ایک خاص اہمیت ہوتی ہے۔ قاری یہ مشاہدات نہایت انہماک سے پڑھتا ہے۔ ’’قافلے دل کے چلے‘‘ میں شامل تحریروں کی خاص بات یہ ہے کہ الطاف حسن قریشی کے قلم اور اندازِ بیان نے اس روداد کی تاثیر کو دوچند کردیا ہے۔ قاری ان تحریروں کو پڑھ کر محاورتاً نہیں، واقعتاً ان کے سحر میں کھو جاتا ہے۔
قریشی صاحب نے حج کے تمام مراحل کا نہایت تفصیل سے تذکرہ کیا ہے، تاکہ قاری کو ان کے روحانی تجربات سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ مناسک حج کے بارے میں بھی آگاہی فراہم ہوتی رہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ مختلف مقامات کی تاریخی اہمیت بھی بیان کرتے ہیں۔ اس سفرنامے میں الطاف حسن قریشی نے ان مشکلات کا تذکرہ بھی کیا ہے جن سے حاجیوں کو گزرنا پڑتا ہے۔ حج کے متعلق آگاہی رکھنے کے خواہش مند قارئین کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ ’’قافلے دل کے چلے‘‘ منفرد روحانی تجربات، حیرت انگیز مشاہدات اور لازوال جذبوں سے معمور دیارِ حرم اور سرزمینِ عرب کے بیش بہا تاریخی واقعات میں جھانکتے سفرنامے ہیں۔
کتاب کے چودہ ابواب یہ ہیں:
پہلا باب: حج کی دعوت کا اچانک مژدۂ جاں فزا، دوسرا باب: جبل الرحمت پر پہلے عالمی منشور کا اعلان، تیسرا باب: عرفات سے مزدلفہ تک یادگار پیدل سفر، چوتھا باب: منیٰ میں خادم الحرمین شاہ فیصل سے پہلی ملاقات، پانچواں باب: لبنانی عالم کے ہمراہ فریضۂ قربانی کی ادائیگی، چھٹا باب: روضۂ رسولؐ کے پہلو میں ناقابلِ فراموش روحانی تجربہ، ساتواں باب: سعودی عوام سے دلچسپ مکالمے، آٹھواں باب: سعودی عرب میں پہلا پاکستانی اسکول، نواں باب: کویت… خوب صورت مساجد کا شہرِ نگاراں، دسواں باب: اردن کے فلسطینی کیمپ میں روح تڑپا دینے والا منظر، گیارہواں باب: دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس کے خوش گوار اثرات، بارہواں باب: تیس برس بعد حج کا صبر آزما تجربہ، تیرہواں باب: وادی منیٰ میں محشر کی گھڑی کا آنکھوں دیکھا حال، چودھواں باب: نظام حج میں بنیادی تبدیلیوں کی تجاویز۔
ان سفرناموں سے اندازہ ہوتا ہے کہ عرب دنیا سے پاکستان کے تعلقات کتنے گہرے تھے اور پاکستان کو کس طرح توقعات کی نگاہ سے دیکھا جاتا، اس سے کیا کیا امیدیں بندھی ہوئی تھیں۔ نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے معاملات اہلِ پاکستان کے لیے تقویت کا باعث رہے ہیں، تو پاکستان نے بھی اپنے عرب بھائیوں کے جذبات و احساسات کو نظرانداز نہیں ہونے دیا۔ اسرائیل کے معاملے میں دوٹوک مؤقف نے پاکستان کی قدر و منزلت میں اضافہ کیا اور وہ دعائوں اور تمنائوں کا مرکز بنتا چلا گیا۔
قریشی صاحب کے قلم کا یہ اعجاز ہے کہ ان کی تحریر کی جو رعنائی اور دل ربائی پہلے تھی، آج بھی ویسی ہی دل کشی اور بھرپور اثرانگیزی کے ساتھ قاری کے دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ وہ نثرنگاری نہیں، ساحری کرتے ہیں۔ یہ سفرنامۂ حجازِ مقدس ہے۔ کتاب کا اصل حسن وہی ہے جو دنیا کے سب سے حسین مقامات کی منظرکشی کے لیے ان کے حسنِ بیان سے پیدا ہوا ہے اور جسے اس سفرنامے کے قاری دیر تک اپنے سکونِ قلب کا ذریعہ بنائے رکھیں گے۔ اس حسن کو عام و خاص تک پہنچانے والے قلم فائونڈیشن کے روحِ رواں علامہ عبدالستار عاصم اور قریشی صاحب کے پوتے محترم المقام ایقان حسن قریشی بھی لائقِ تحسین ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ ایں سعادت بہ زور بازونیست… تانہ بخشد خدائے بخشندہ۔ کتاب خوب صورت ڈسٹ کور کے ساتھ اعلیٰ سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوئی ہے۔