جوانقلاباتِ زمانہ کے تھپیڑے کھاتی صدیوں تک سرگردان اور بے خانماں رہی
جس وقت بنی اسرائیل چالیس سالہ صحرا نوردی کے بعد ارضِ فلسطین و شام میں داخل ہوئے تھے تو اس سارے علاقے میں قد آور اور قوی مشرک قبیلوں کی حکمرانی تھی‘ ان کی مجموعی تعداد بنی اسرائیل سے کہیں زیادہ تھی‘ ان کے مال و دولت اور سامانِ حرب کی بھی فراوانی تھی اور صدیوں کی جمی جمائی حکومتیں اور عملداریاں موجود تھیں۔ ان کے مقابلے میں بنی اسرائیل تعداد میں بھی کم تھے‘ مال و اسباب اور سامان جنگ بھی ان کے پاس نہ ہونے کے برابر تھا مگر ایک سچے نصب العین کی لگن‘ ایمان کا قوی تر قومی جذبہ اور زبردست تحریکی قوت ایسی تھی جس کا مقابلہ ارض فلسطین پر قابض حکمران اپنی قوت و شوکت کے باوجود نہ کرسکتے تھے۔ چنانچہ بہت جلد بنی اسرائیل نے اللہ کی نصرت و مدد سے اس سارے علاقے کو زیر نگیں کر لیا اور وہاں ایک مستحکم خدا پرستانہ سلطنت قائم کر دی۔ پھر ایک دو انقلاب و تغیرات کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں وہ دنیا کی پہلی اور واحد زبردست قوت بن گئے۔ یہ ان کے انتہائی عروج کا زمانہ تھا۔
بعد کے ادوار میں انہوں نے اللہ کے عہد کو توڑ دیا اور شرک و نفاق میں مبتلا ہوئے اور نا فرمان قوموں کی طرح اللہ کی زمین پر ظلم و ستم کرنے لگے، اور اخلاقی انحطاط کے پست ترین درجے تک پہنچ گئے کہ ان کی برائیوں نے ان کی بھلائیوں کو ڈھک لیا تو پھر اللہ نے بھی ان کو اپنی حمایت و نصرت سے محروم کردیا اور انہیں کو دنیا کی دوسری جابر و قاہر قوموں کے سامنے بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ اس وقت وہ تعداد میں بہت زیادہ تھے‘ احوال و اسباب کی کثرت و فراوانی میں بھی سب سے آگے تھے۔ ان کے پاس مضبوط قلعہ بند شہر تھے جن کی حفاظت سجے سجائے لشکر کرتے تھے۔ علوم و فنون‘ تہذیب و تمدن میں ان کا کوئی ہمسر و مماثل نہ تھا، مگر اپنی کثرت‘ اپنے تمول‘ اپنی عسکری قوت‘ اپنی علمی بڑائی اور اپنی تمام تر شان و شوکت کے باوجود قلیل التعداد حملہ آور فوجوں کی تاب نہ لا سکے اور ان کے سامنے دہشت زدہ گیدڑوں کی طرح بھاگ کھڑے ہوئے کیوں کہ دنیا کی ساری قوتوں کے باوجود جذبۂ ایمان کے بغیر وہ کمزور اور بے حوصلہ تھے اور اللہ ان سے بے نیاز ہو چکا تھا۔
…٭…
اس میںشک نہیں کہ بابلی اور رومی مشرک تھے‘ معبود حقیقی کو اللہ ماننے کے بجائے وہ غیر اللہ کو اللہ بنائے ہوئے تھے‘ وہ ستاروں کو پوجتے اور بتوں کی پرستش کرتے۔ اللہ کی ہدایات سے محروم تھے، نہ وہ توحید کے قائل تھے، نہ رسالت کے، نہ آخرت کے۔ ان کے مقابلے میں یہودی اہل کتاب اور صاحب شریعت تھے‘ موحد تھے‘ توحید ورسالت اور آخرت پر ایمان رکھتے تھے‘ مسجدوں میں اللہ کے حضور نمازیں پڑھتے تھے، اس کی آیات کی تلاوت کرتے تھے‘ اللہ کے نام پر قربانی کرتے اور بغیر ذبیحہ کیے گوشت نہیں کھاتے تھے۔ شریعت موسوی کے مطابق ختنہ کرواتے تھے جو ان کے موحد و مسلم ہونے کا ایک شعار تھا۔ مقررہ دنوں میں روزے رکھتے تھے۔ مگر اس دین داری کے مراسم و مظاہر کے باوجود اللہ نے مشرکوں اور باغیوں کے مقابلے میں ان کی کوئی مدد نہیں کی۔کیوں کہ انہوں نے اپنے رسول کی شریعت کو مذاق بنا رکھا تھا کہ اس کے بعض احکام پر تو عمل کرتے تھے جو ان کی خواہشِ نفس پر کچھ زیادہ گراں نہیں تھے اور بعض احکام کو ترک کر دیا تھا جو ان کے مقتدر طبقے کے اغراض و مقاصد اور عوام الناس کی نفسانی خواہشات میں حارج ہوتے تھے۔ دین موسوی کو انہوں نے مشرکوں کی طرح ایک نجی مذہب بنا رکھا تھا۔ اجتماعی مسائل و معاملات میں انہوں نے اللہ کے بجائے دنیا پرست پیشوائوں متمول سربراہوں اور مقتدر حاکموں کو اپنا آلہ بنا رکھا تھا۔ اپنی تقریبات میں توریت کی تلاوت ضرور کرتے تھے اور حضرت موسیٰ کی میلاد بھی مناتے تھے مگر اپنے قومی دساتیر اور ملکی قوانین میں نہ احکامِ توریت کو ملحوظ رکھتے تھے اور نہ سنت موسوی کو اہمیت دیتے تھے۔کتاب و سنت سے بے نیاز من مانی قانون سازی کرتے اور مخلوقِ خدا کے حقوق پر دیدہ دلیری سے دست درازی کرتے رہتے تھے ان کی سرکشی اور انحراف اور ان کی شرم ناک بدکاریوں اور ہولناک مظالم ہی کی وجہ سے اللہ کا عتاب ان پر نازل ہوا اور وہ اسلام سے نسبت رکھنے کے باوجود مشرک قوموں کے ہاتھوں بری طرح ذلیل و خوار ہوئے اور اس طرح تباہ و برباد ہوئے کہ دو ہزار سال تک پھر ان کو عزت اور آبرو کی زندگی نصیب نہ ہو سکی۔
…٭…
بنی اسرائیل کا زوال کسی معین وقت پر رونما نہیں ہوا بلکہ اپنے انحطاط کے آخری پست ترین درجے تک پہنچنے میں ایک طویل مدت گزر گئی، ابتدا میں ان کی ریاستوں میں بعض ہمسایہ مشرک حکومتوں کا اثر رسوخ بڑھ گیا اور وہ ان کی فوج‘ ان کے انتظامی اداروں اور ان کے سیاسی امور میں بہت زیادہ دخیل ہو گئے۔ جب ان کی زیادتیوں اور حق تلفیوں سے جو وہ اسرائیلی حکمرانوں کے زیر سایہ کر رہے تھے اسرائیلی عوام تنگ آگئے اور انہوں نے مشرکانہ اثرات سے محفوظ رہنے کی جدوجہد کی تو اللہ نے ان کی مدد کی اوردوبارہ ان کو مشرک بادشاہوں پر غالب کر دیا، اور پھر جب اپنے عہد عروج کے بعد وہ دوبارہ بگڑے تو ایک طویل عرصے تک ان کو اپنے اعمال و افعال کے لیے مہلت حاصل رہی یہاں تک کہ باغی ان کو غلام بنا کر یروشلم سے نکال لے گئے‘ پھر ایک بار اللہ نے ان کو موقع دیا اور ایسے اسباب پیدا کر دیے کہ وہ ہر جگہ سے لوٹ کر یروشلم میں جمع ہو گئے اور پھر بڑے عرصے تک وہ خوش حال زندگی بسر کرتے رہے، مگر جب ان کی نیکیاں ان کے گناہوں کے انبار میں دب گئیں تو دوبارہ ان کو رومنوں نے مغلوب کیا اور طویل عرصے تک انہیں غلام بنائے رکھا۔
…٭…
اس کے بعد ایک زرین موقع ان کے سامنے آیا کہ ان ہی ایک درمیان سے اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تجدید دین کے لیے مبعوث فرمایا مگر انہوں نے اپنی نمائشی دین داری کے غرور میں دعوتِ عیسوی کو ٹھکرا دیا اور حضرت موسیٰ کی جان کے دشمن ہو گئے‘ یہودی تو اس نعمتِ حق سے محروم رہے مگر مشرک رومنوں نے اس کو خوش دلی سے اپنا لیا‘ یہاں تک کہ عیسائی غالب و مقتدر ہو گئے، اور پھر بعد کے عیسائی حکمرانوں نے یہودیوں پر مصر‘ شام‘ فلسطین، یمن اور عراق غرض ہر جگہ وہ مظالم ڈھائے کہ ان کے لیے سانس لینا دوبھر ہو گیا۔
…٭…
پھر ایک آخری موقع حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے ان کو ملا کہ وہ نبی آخر الزماںؐ پر جن کے وہ خود بھی منتظر تھے اور آپؐ کو انہوں نے بخوبی پہچان بھی لیا تھا‘ ایمان لے آتے اور شریعت کو قبول کر لیتے جو شریعت موسوی کی تصدیق کر رہی تھی اور انہیں دین کی طرف دعوت دے رہی تھی‘ جو دین حضرت موسیٰ لے کر آئے تھے، مگر اس موقع پر ان یہودیوں نے موحد مسلمانوں کے مقابلے پر بت پرست مشرکوں سے ساز باز رکھی‘ محض نسلی غرور کے سبب دین حق کے مخالف بن بیٹھے آخرکار اپنی فتنہ پردازیوںکی پاداش میں ان کو سرزمین عرب سےجلا وطن ہونا پڑا اور پھر صدیوں تک وہ اپنا ٹھکانہ نہ بنا سکے۔
…٭…
زوال و انحطاط کے آخری درجے تک پہنچتے پہنچتے اللہ تعالیٰ نے بار بار ان کو موقع دیا کہ وہ اپنی کافرانہ روش سے باز آجائیں‘ مکر و نفاق کو چھوڑ کر مخلص مومن بن جائیں۔ اس درمیان میں جب بھی وہ دین حق کی طرف مائل ہوئے اور شریعت سے ازسر نو وابستگی پر اللہ نے ان کو اپنی تمام تر نعمتوں سے سرفراز کیا‘ کھویا ہو وقار بحال ہو گیا‘ ان کی حکومت و سیاست، ان کے شہر نعمتوں اور برکتوں مالا مال ہو گئے اور کھیتیاں خوب پھلنے پھولنے لگیں، اور پھر جب دوبارہ انہوں نے کج ادائیاں شروع کیں وہ آلام و افکار‘ حوادث و پریشانیوں میں مبتلا ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ وہ اپنے دردناک اور عبرت ناک انجام تک جا پہنچے۔