غزہ پر آتش و آہن کی موسلادھار بارش نیتن یاہو کی انااسرائیل کے قاہرانہ جبر اور فلسطینیوں کے پرعزم صبر کی جنگ ہے
ہفتہ وار کالم نگار ہر سات دن بعد اس آزمائش سے گزرتے ہیں کہ اس بار کس موضوع پر طبع آزمائی کی جائے! لیکن غزہ حملے کے بعد سے ہمیں وہاں سسکتے اور تڑپتے بچوں کے سوا کوئی اور مسئلہ اہم لگتا ہی نہیں، اور بقول حضرتِ فیض ”خاک میں لِتھڑے ہوئے، خون میں نہلائے ہوئے“ ننھے لاشے ہر وقت آنکھوں کے سامنے رہتے ہیں۔ اس موضوع پر یہ ہمارا پندرہواں مضمون ہے، اور یہ تحریریں کسی بھی اعتبار و معیار سے کالم نہیں بلکہ زندہ درگور ہوجانے والے بچوں کا نوحہ ہیں۔ غزہ قتلِ عام پر سب سے حقیقت پسندانہ اور انتہائی دردناک تبصرہ ایک ننھی فلسطینی بچی کا ہے۔ کسی صحافی نے پوچھا ”غزہ کہاں واقع ہے؟“ تو غربِ اردن کی ایک 9 سالہ فلسطینی لڑکی نے جواب دیا کہ ”آدھا غزہ جنت میں، اور باقی زخموں سے چُور صحرائے سینائی کے جنوب میں بحیرہ روم کے کنارے ایڑیاں رگڑ رہا ہے۔“
برازیل کے صدر لوئز لولا ڈی سلوا نے کیا خوب کہا کہ ”غزہ خونریزی کو جنگ کہنا غلط ہے، یہ درحقیقت جدید ترین ہتھیاروں سے لیس، منظم فوج کا عورتوں اور بچوں پر حملہ ہے۔“ عدیس ابابا میں افریقی یونین کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جناب لولا بولے کہ ”غزہ میں جو ہورہا ہے وہ جنگ نہیں، نسل کُشی ہے۔ تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا سوائے ایک مرتبہ کے، جب ہٹلر نے یہودیوں کو مارنے کا فیصلہ کیا تھا۔“ عالمی عدالتِ انصاف (ICJ) کے روبرو جنوبی افریقہ کے سفیر Vusimuzi Madonsela نے کہا کہ ”اسرائیل فلسطینیوں سے جو امتیازی و توہین آمیز سلوک کررہا ہے وہ ہمارے ملک میں 1994ء تک جاری رہنے والے Apartheid سے بدتر ہے۔“
غزہ پر آتش و آہن کی موسلا دھار بارش کا یہ 142 واں دن ہے اور کالم کی اشاعت تک ڈیڑھ سو دن ہونے کو ہوں گے۔ اس خونریزی کے بند ہونے بلکہ دھیما ہونے کا کوئی امکان نہیں، کہ یہ نیتن یاہو عرف بی بی کی انا، اسرائیل کے قاہرانہ جبر اور فلسطینیوں کے پُرعزم صبر کی جنگ ہے۔ گورے مغرب کی غیر مشروط و لامحدود پشتیبانی اور دنیا کی خاموشی اس آگ کو ہوا دے رہی ہے۔
جنگ کے خلاف آوازیں اسرائیل سے بھی اٹھ رہی ہیں لیکن وہاں تشویش کا محور غزہ میں زیر حراست قیدی ہیں۔ گزشتہ ہفتے اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہود بارک نے فوجی ریڈیو پر ایک انٹرویو میں کہا کہ نیتن یاہو کے لیے دبنگ نظر آنا قیدیوں کی رہائی سے زیادہ اہم ہے۔ وہ اپنی انا کے لیے یرغمالیوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کو تیار ہیں۔ بی بی کے مزاج ٹھکانے لگانے کے لیے کنیسہ (پارلیمان) کے باہر 30,000 شہریوں کے تین ہفتے طویل دھرنے کی ضرورت ہے۔ جب ملک بند ہوجائے گا تو نیتن یاہو کو احساس ہوگا کہ ان کا وقت ختم ہوچکا۔
امریکہ بہادر کی دلچسپی بھی صرف قیدیوں سے ہے، چنانچہ پیرس، قطر، قاہرہ ہر جگہ مذاکرات کی میزیں سجی ہیں۔ ابھی (25 فروری) تھوڑی دیر پہلے امریکی صدر کے مشیر قومی سلامتی جیک سولیون نے پیرس سے ندا دی کہ ”مذاکرات کاروں کے مابین غزہ میں عارضی جنگ بندی کے بدلے قیدیوں کی رہائی کے ممکنہ معاہدے کے بنیادی خدوخال پر ”اتفاق“ ہوگیا ہے۔“ (حوالہ CNN)۔ یعنی قیدیوں کا تبادلہ مکمل ہوتے ہی بمباری دوبارہ شروع کردی جائے گی۔ اہلِ غزہ عارضی جنگ بندی کی تجاویز کو کئی بار مسترد کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ سے اسرائیلی فوج کی واپسی کے بعد ہی قیدیوں کے تبادلے پر بات ہوگی۔
عارضی فائربندی کے لیے بے قرار امریکہ چند دن قبل غزہ جنگ بندی کے لیے سلامتی کونسل میں الجزائر کی قرارداد کو ویٹو کرچکا ہے۔ مسودہ پیش ہوتے ہی واشنگٹن نے اسے ناقابلِ قبول قرار دیا تھا۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل مندوب محترمہ لنڈا ٹامس گرین فیلڈ کا کہنا تھا کہ قرارداد کی جلدبازی میں منظوری سے پائیدار امن کے لیے جاری حساس مذاکرات کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ ستم ظریفی کہ فاضل مندوب قاہرہ کے جن حساس مذاکرات کی طرف اشارہ فرما رہی تھیں وہاں سے اسرائیل کا وفد یہ کہہ کر پہلے ہی واپس جا چکا تھا کہ اہلِ غزہ کی شرائط ہمیں منظور نہیں۔
عالمی عدالتِ انصاف نے اپنے گول مول فیصلے میں اسرائیل سے جو وضاحت طلب کی تھی اس کا بھی تل ابیب نے کوئی جواب نہیں دیا۔ 26 جنوری کو سنائے جانے والے فیصلے کا جواب دینے کے لیے اسرائیل کو 30 دن کی مہلت دی گئی تھی۔ اس دوران جنوبی افریقہ نے فوری جنگ بندی کی ایک اور درخواست عدالت کے روبرو پیش کردی جس پر تادم تحریر بحث جاری ہے۔
گزشتہ ہفتے 27 رکنی یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ بیان میں اسرائیل سے ”درخواست“ کی تھی کہ وہ رفح میں ایسی فوجی کارروائی نہ کرے جس کے نتیجے میں پہلے سے تباہ کن انسانی صورتِ حال مزید خراب ہو۔ اس قدم سے بنیادی خدمات اور انسانی امداد کی فوری اور ضروری فراہمی معطل ہوجائے گی۔ ہنگری نے اس بیان پر دستخط نہیں کیے۔
غزہ کے ساتھ اب بیت المقدس سے لہو کی مہک محسوس ہورہی ہے، اور ڈر ہے کہ رمضان میں مسجد اقصیٰ میدانِ کربلا کا منظر پیش کرے گی۔ اسرائیلی اخبارات کے مطابق رمضان المبارک کے دوران فلسطینیوں کے القدس شریف میں داخلے کو محدود کرنے کے اقدامات کی وزیراعظم نیتن یاہو نے منظوری دے دی ہے۔ یہ تجویز انتہاپسند وزیر اندرونی سلامتی المعروف پولیس منسٹر اتامر بن گوئر نے پیش کی تھی۔ موصوف کا کہنا ہے کہ قبلہ اوّل کے تصور نے فلسطینیوں اور اسرائیل کے عرب شہریوں میں مسجد اقصیٰ سے جذباتی وابستگی پیدا کردی یے۔ قبلہ اول کی زیارت کے لیے رمضان اور دوسرے اسلامی تہواروں پر مسجد اقصیٰ میں غیر معمولی ہجوم ہوتا ہے اور نمازیوں کی صفیں مسجد کے دالان یعنی سارے القدس شریف(Temple Mount)تک آجاتی ہیں۔ اس دوران مسجد میں جذباتی خطاب اور القدس لنا (القدس ہمارا ہے) کے نعروں سے نمازی ذہنی طور پر مشتعل رہتے ہیں۔
اپنے ایک حالیہ خطاب میں انھوں نے کہا ٓ کہ 7 اکتوبر کے حملے کو ”طوفان الاقصیٰ“ پکارنے کے پیچھے بھی یہی حکمت عملی کارفرما تھی کہ قبلہ اول کے نام پر دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات برانگیختہ کیے جائیں۔ وزیر موصوٖف چاہتے ہیں کہ معراج النبیؐ کے حوالے سے القدس شریف کی تاریخی حیثیت تو برقرار رہے لیکن قبلہ اول کے تصور کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
منصوبے کے تحت پہلی تراویح سے اتنے ہی لوگوں کو کمپائونڈ میں آنے کی اجازت دی جائے گی جتنے مسجد اقصیٰ کے اندر سما سکیں۔ دالان میں صٖفیں بنانے کی ممانعت ہوگی۔ القدس شریف کے مختلف دروازوں خاص طور سے بابِ دمشق پر سحر و اٖفطار کے لیے اشیائے خورونوش کے جو اسٹال لگائے جاتے ہیں ان کی اجازت منسوخ کی جارہی ہے۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی شاباک(Shin Bet) نے بن گوئر کی تجویز کو داخلی سلامتی کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ مسجد اقصیٰ کے معاملے میں فلسطینی حد درجہ حساس ہیں اور پابندیوں سے غربِ اردن کے فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے عرب شہریوں میں بھی اشتعال پھیلے گا۔ تاہم پولیس منسٹر نے شاباک کی سفارش مسترد کردی اور ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق کابینہ کے حالیہ اجلاس میں وزیراعظم نے بھی جناب گوئر کے مشورے پر صاد کردیا۔
مشرقی بیت المقدس المعروف مسلم کوارٹر کا اسلامی تشخص ختم کرنے کے لیے یہاں سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کے ایک جامع منصوبے کی بھی وزیراعظم نے اصولی منظوری دے دی ہے۔ یروشلم کے مضافاتی علاقے معالی ادومیم (Ma’ale Adumim) میں فلسطینیوں کے مکانات منہدم کرکے 3ہزار نئے گھر تعمیر کیے جائیں گے۔ 1967ء میں قبضے کے فوراً بعد 49 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ رقبہ خالی کراکے یہاں 37ہزار اسرائیلیوں کو آباد، اور بے دخل کیے جانے والے ہزاروں فلسطینیوں کو خیمہ بستیوں میں ٹھونس دیا گیا تھا۔
امریکہ بہادر کو اسرائیل کے اس اعلان پر سخت ”تشویش“ہے۔ ارجنٹینا کے دارالحکومت بیونس آئرس میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ ٹونی بلینکن نے اس خبر کو مایوس کن قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ نئی آبادیوں کی تعمیر کو امن کے لیے منفی اقدام سمجھتا ہے اور اس معاملے پر ڈیموکریٹس اور ریپبلکن میں کوئی اختلاف نہیں۔ اسرائیل کو منانے کے لیے بلینکن صاحب تل ابیب روانہ ہورہے ہیں۔
اہلِ غزہ کو صفحہِ ہستی سے مٹانے کے ہونکے میں روس سے برسرِپیکار یوکرین چچاسام کی نظروں سے اوجھل ہوچکا ہے۔ ایک نجی محفل میں یوکرینی صدر ولادیمر زیلنسکی یہ کہتے سنے گئے کہ یوکرینی فوج کا توپوں اور ٹینک کے گولوں کا ذخیرہ تقریباً ختم ہوچکا ہے جبکہ چچا سام کی ساری توجہ اپنے لاڈلے کو نوازنے پر ہے۔ صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روسیوں نے مشرقی یوکرین میں دونیتسک صوبے کے اہم شہر Avdiivka پر قبضہ کرلیا۔
اسرائیل کو اہلِ غزہ کے ساتھ بحیرہ احمر میں یمن کے حوثیوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے جو امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے مسلسل حملوں کے باوجود پُرعزم ہیں کہ بحیرہ احمر، آبنائے باب المندب اور خلیج عدن اسرائیل کے لیے NO GOعلاقہ بنارہے گا۔ اسرائیل آنے اور جانے والے جہازوں کو نشانہ بنانے کے لیے میزائیل اور ڈرونز کے ساتھ اب زیرآب اسلحہ بھی استعمال ہورہا ہے۔ حال ہی میں حوثیوں نے امریکہ کا جدید ترین MQ-9 Reaper ڈرون مارگرایا۔حوثیوں کا کہنا ہے کہ تین کروڑ ڈالر لاگت کے اس ڈرون کو مغربی یمن میں دارالحکومت صنعا کے قریب زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائیل سے نشانہ بنایا گیا۔
اسی دوران پاناما پرچم برادر جہاز بھی زد میں آگیا جو بحیرہ اسود کی بندرگاہ Novorossiysk سے تین لاکھ بیرل تیل لے کر بحرہند کی بندرگاہ اڑیسہ جارہا تھا۔ اس ٹینکر کو یمنی بندرگاہ المخاہ کے قریب نشانہ بنایا گیا۔ 24 فروری کو اسرائیل کے لیے محوِ سفر 41 ہزار ٹن کھاد سے لدے بلیز (Belize) کے پرچم بردار برطانوی جہاز روبیمر (Rubymar) کو میزائیل حملے میں شدید نقصان پہنچا۔ امریکی مرکزی کمان کے مطابق پیندے میں پڑجانے والے شگافوں کی وجہ سے اس کی غرقابی کا خطرہ ہے۔
غزہ خونریزی اسرائیل کو بھی مہنگی پڑرہی ہے۔ اسرائیل کے مرکزی ادارئہ شماریات یا Central Bureau of Statistics کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران قومی معیشت 20 فیصد سکڑ گئی۔ تین سال پہلے کورونا وائرس کے دوران معیشت کا حجم 30 فیصد کم ہوا تھا۔ کسادبازاری، مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے 8 فیصد سے زیادہ اسرائیلی بے گھر ہوچکے ہیں۔
زوال پذیر معیشت پر مزدور مشتعل ہیں۔ اسرائیلی مزدور تنظیم کے سربراہ ہارون بار ڈیوڈ نے صنعتی شہر بیئرشیبہ میں مزدروں کے قومی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نیتن یاہو اسرائیل کے لیے تباہی کا استعارہ بن گئے ہیں۔ بی بی سانحہِ 7 اکتوبر کی ذمہ داری قبول کرکے فوری طور پر نئے انتخابات کا اعلان کریں ورنہ مزدور سڑکوں پر ہوں گے۔ مزدوروں کی نمائندہ یونین 1920ء میں قائم ہوئی تھی اور اس سے وابستہ کارکنوں کی تعداد آٹھ لاکھ سے زیادہ ہے۔
بڑھتے ہوئے جانی نقصان، سپاہیوں کی معذوری، کساد بازاری، مزدوروں کی طرف سے ہڑتال کی دھمکی اور 25 فروری کو تل ابیب میں اشتعال انگیز مظاہروں سے بی بی دبائو میں تو ہیں لیکن ان کی چوٹ کھائی اَنا اتنی آسانی سے ہتھیار ڈالتی نظر نہیں آتی۔
………………..
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔