غزہ کی شہری آبادی پر نسل پرست اسرائیل کی فوج کی بمباری کو پانچواں مہینہ شروع ہوگیا ہے۔ ساری دنیا ایک مجبور و مقہور قوم کی نسل کُشی کا مشاہدہ کررہی ہے۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ اپنی پوری قوت و طاقت سے اسرائیل کے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن یہ پہلی بار ہوا ہے کہ وہ اپنی کوشش میں ناکام ہیں۔ اس ناکامی کا سبب غزہ کے فلسطینی مسلمانوں کا صبر اور استقامت ہے۔ اب مغربی دنیا کو بھی معلوم ہوگیا ہے کہ ان کی حکومتیں فلسطینی قضیے پر جھوٹ بولتی رہی ہیں، اور ایک قوم کی نسل کشی کی ذمہ دار اسرائیلی حکومت اور فوج کے ساتھ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی بھی ہیں۔ گزشتہ برس اکتوبر کی 7 تاریخ کو آزادیِ فلسطین کی جدوجہد کے تازہ مرحلے کا آغاز ہوا تھا۔ 18 اکتوبر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد پیش ہوئی جسے امریکہ نے ویٹو کردیا۔ اس بارے میں تین قراردادیں سلامتی کونسل میں پیش کی گئیں جن کو سلامتی کونسل کے ارکان نے اکثریت سے منظور کیا لیکن حسبِ روایت اسرائیل کے خلاف قرارداد کو امریکہ نے ویٹو کردیا۔ پوری دنیا کو نظر آرہا ہے کہ اسرائیل غزہ کے مسلمانوں کی نسل کشی پر تلا ہوا ہے اور وہ اس ارادے کو چھپانے کی کوشش بھی نہیں کررہا۔ جیسی وحشت و درندگی کا مظاہرہ اسرائیل کی حکومت اور فوج کررہی ہے، اس کی جنگوں میں مثال کم ہی ملتی ہے۔ معاصر تاریخ کی جنگوں میں کسی شہری آبادی پر بمباری کی گئی ہے تو وہ چند دنوں تک کی گئی ہے، لیکن اسرائیل روزانہ کی بنیاد پر بمباری کررہا ہے اور اس کا اصل نشانہ نہتے شہری ہیں۔ غزہ کے محکمہ صحت کے مطابق شہید ہونے والوں کی تعداد 30 ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔ مرنے والوں کی تعداد سے بھی حالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا، اس لیے کہ جو لوگ شہید ہوکر اللہ کے پاس پہنچ گئے ہیں، انہوں نے نجات کی منزل حاصل کرلی اور وہ اللہ رب العزت کی جانب سے ملنے والے انعامات سے لطف اندوز ہورہے ہوں گے، لیکن زندہ رہ جانے والے باقی لوگ جن حالات میں زندگی بسر کررہے ہیں اس کا تصور بھی رونگٹے کھڑے کردیتا ہے۔ غزہ کو ناقابلِ رہائش ملبہ میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ ان ناقابلِ برداشت مصائب اور تکلیفوں کو برداشت کرنے والے بچوں، عورتوں، بوڑھوں، جوان شہریوں کی استقامت دیکھ کر سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ لوگ اسی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں! ایسی استقامت اور ایمان کسی قوم میں.. بلاامتیاز بچے اور بوڑھے، عورتیں اور مرد.. مجموعی طور پر نظر نہیں آتا۔ لیکن یہ نمونہ عہدِ جدید میں غزہ کے مسلمانوں نے پیش کیا ہے۔ ان کی مظلومیت اور قربانی دنیا کے سفاک اور ظالم حکمرانوں کے دلوں کو نرم کرنے میں کامیاب نہیں ہے، لیکن باضمیر انسانوں کا قلب غزہ کے مسلمانوں کے مصائب کو دیکھ کر احتجاج کررہا ہے۔ غزہ کے مسلمانوں کی استقامت باقی مسلمانوں اور اُن کی حکومتوں کے خلاف اللہ تعالیٰ کی عدالت میں حجت بن رہی ہے۔ غزہ کے مسلمانوں نے اپنی استقامت سے مغربی دنیا کے اس دعوے کو بے نقاب کردیا کہ ان کا فلسفہ، نظامِ حکومت اور اخلاقی اقدار نمونہ ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے حکمران طبقے کی سفاکی کے خلاف بڑی تعداد میں امریکہ اور یورپی ممالک کے شہری مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں، یہاں تک کہ ان مظاہروں میں یہودی بھی شامل ہوگئے ہیں جو یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ہمارے نام پر فلسطینیوں کی نسل کشی نہ کی جائے۔ ایک طرف دنیا بھر کے باضمیر انسان امریکی سرپرستی میں اسرائیل کی وحشت و درندگی کے خلاف احتجاج کررہے ہیں، دوسری طرف اقوام متحدہ سمیت کوئی بھی عالمی ادارہ اسرائیل کا ہاتھ روکنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھا رہا۔ سب سے افسوس ناک رویہ مسلمان ملکوں کا ہے۔ اسلامی کانفرنس تنظیم تو پہلے ہی مفلوج ہوگئی ہے، ساتھ ہی بااثر مسلمان ممالک پاکستان، ترکیہ، ایران، سعودی عرب، ملائشیا سمیت کسی بھی ملک کی قیادت نے زبانی جمع خرچ کے سوا کوئی ایسا ٹھوس کام نہیں کیا ہے جس سے اسرائیل کا ہاتھ روکا جا سکتا اور مظلوم فلسطینیوں کو اس وحشت و درندگی سے نجات دلائی جا سکتی۔ جب کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اس جنگ کے شروع ہونے کے بعد گواہی دے چکے ہیں کہ اسرائیل کی حکومت اور فوج عالمی اداروں کے رضاکاروں کا بھی خیال نہیں کررہی ہیں۔ اسرائیل کے جرائم کے خلاف جنوبی افریقہ کی حکومت عالمی عدالتِ انصاف میں درخواست لے کر گئی ہے اور وہاں اسرائیل کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع ہوگئی ہے، لیکن اس کا دبائو بھی نہ اسرائیل پر پڑا ہے اور نہ ہی اسرائیل کے سرپرست امریکہ پر۔ امریکہ اور اسرائیل کے جرائم کو پوری دنیا دیکھ رہی ہے، دنیا کے طاقتور ممالک بھی دیکھ رہے ہیں، مسلم ممالک کے حکمران بھی تاریخ کی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوئے ہیں۔ کسی بھی مسلم ملک کی حکومت نے عالمی عدالتِ انصاف میں مظلوم فلسطینیوں کا مقدمہ مضبوط کرنے کے لیے بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ جنوبی افریقہ کی حکومت نے شاید اس لیے یہ قدم اٹھایا ہے کہ وہاں کے عوام بھی ایک نسل پرست حکومت کے جبر و ظلم کو سہ چکے ہیں۔ جنوبی افریقہ پر بھی یورپ کی سفید فام اقوام نے قبضہ کرکے مقامی سیاہ فام آبادی کو کچل کے رکھ دیا تھا۔ اسی طرح پہلی جنگِ عظیم میں فلسطین پر قبضہ کرنے کے بعد دنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر بسایا گیا، اس کے لیے صہیونی دہشت گرد تنظیم کی سرپرستی برطانوی حکومت نے کی۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ اور امریکہ کی سرپرستی میں اسرائیل کی ناجائز ریاست قائم کی گئی۔ اسرائیل کے بارے میں مسلمانوں کا اصل مؤقف یہ ہے کہ وہ ایک ناجائز اور قابض ریاست ہے۔ المیہ یہ ہے کہ تمام متعلقہ فریقوں نے اسرائیل کے بارے میں شکست تسلیم کرلی تھی، لیکن بالآخر حماس اور غزہ کے فلسطینیوں نے عالمی منصوبے کو اپنی قربانیوں سے ناکام کردیا اور یہ حقیقت ثابت کردی کہ اسرائیل نسل پرست اور ظالم اور وحشی حکومت ہے، اور اس کے سرپرست امریکہ، برطانیہ اور پورا یورپ ہے۔ مسلمان حکمران امت کے خائن ہیں۔ غزہ کے مسلمانوں کی حمایت اور یکجہتی کے لیے عام مسلمانوں کے ساتھ دنیا بھر کے باضمیر انسان اپنا کردار ادا کررہے ہیں، لیکن مسلمان حکمرانوں کی غیرت ابھی تک نہیں جاگی ہے۔ اسرائیل کی نسل پرستی کے خلاف امریکی فضائیہ کے سابق سپاہی نے واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے خود کو نذرِآتش کرلیا۔ غزہ کے حوالے سے پاکستان کے حکمرانوں، سیاست دانوں اور عوام کا خصوصی فرض ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف آواز بلند کریں۔ احتجاج کی ہر صورت کو اختیار کریں۔ مسلم عوام حکمرانوں کے ساتھ تمام سیاسی جماعتوں کی قیادتوں کو بھی مجبور کریں کہ وہ اپنی سیاسی و اجتماعی جدوجہد میں مسئلہ فلسطین کو سرفہرست رکھیں۔