پاکستان میں انتخابات کی تاریخ کا جائزہ یقینا ایک مشکل ترین مرحلہ ہے اور اسے احاطۂ تحریر میں لانے کے لیے دل گردے میں جان ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی نے یقینا محنت، لگن اور تحقیق کی کٹھن منزلوں سے گزر کر اس مرحلے کو نہ صرف آسان کیا ہے بلکہ پاکستان میں ہونے والے انتخابات کی اڑتالیس سالہ تاریخ کو محفوظ کردیا ہے۔ صحافت میں مختلف اصطلاحیں رائج ہیں، لیکن ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کے متعلق ایک بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ وہ سیاسی تجزیہ کرتے ہوئے بالکل غیر جانب دار دکھائی دیتے ہیں اور واقعات و حالات کا سنجیدگی اور متانت کے ساتھ تجزیہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں عموماً بات سے بات نکالنے کا رواج عام ہے اور اکثر اوقات بعض حضرات بے معنویت یا پھر جانب دارانہ جذباتیت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ پاکستان میں انتخابات کی تاریخ لکھ کر انہوں نے وہ کام کر دکھایا ہے جس کی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی نے یہ کتاب لکھ کر 1970ء سے لے کر 2018ء تک ہونے والے انتخابات کا احاطہ کردیا ہے۔ سیاست ایک وسیع موضوع ہے اور اس پر ایک وسیع المطالعہ شخص ہی بہتر طور پر بات کرسکتا ہے۔
ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کی ملکی اور عالمی سیاسی صورت حال پر گہری نظر ہے اور جذباتی اور فکری وابستگی ہی ان کا طرۂ امتیاز ہے۔ انسان زندگی سے قریب ہوجائے تو اس پر نئے نئے آفاق درکشا ہونے لگتے ہیں۔ امکانات کی یہ کہکشاں اور فکری محاکمات کا یہ حصار ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کے تخلیقی سفر کے جلو میں روشن رہتا ہے، پھر اس کا علم اس سے باتیں کرتا ہے اور اس کا قلم اس ذہنِ رسا کا پاس دار ہوتا ہے۔ زمانہ ایسے کارآمد تخلیق کار کے لیے فرشِ راہ ہے۔
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردہ سے انسان نکلتے ہیں
یہ کتاب 1970ء سے لے کر 2018ء تک کے قومی انتخابات کے بیان اور تجزیے پر مشتمل ہے۔ بارہویں قومی انتخابات (2024ء) اور حالیہ سیاسی بحران کے حوالے سے مصنف نے ایک نئی طبقاتی جنگ کی نشاندہی کی ہے، ان کی رائے میں اس نئی طبقاتی جنگ کا تعلق ’’افلاس کے مسائل‘‘ کی بجائے شرکت ِ اقتدار کے مسائل سے ہے۔ ایک مفلس یا محروم طبقے کے بجائے ایک نیا تعلیم یافتہ طبقہ اس کا ہر اول دستہ ہے۔
بنیادی طور پر یہ کتاب تین مقاصد کی تلاش میں لکھی گئی ہے: اچھی حکومت، جمہوریت اور نمائندہ انتخابات۔ بحث کا آغاز انتخابات، ووٹرز اور سیاسی جماعتوں پر اثر انداز ہونے والے بنیادی عوامل کے جائزے سے ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے اعداد و شمار کو پہلے اور تاریخی بیانیے کو دوسرے حصے میں بیان کیا گیا ہے۔
اس کتاب کا مقصد جمہوریت اور انتخابات کے باہمی رشتے کو سمجھنا ہے۔ اس کے لیے ہمیں مغربی یورپ میں جنم لینے والی جمہوریتوں کے تاریخی پس منظر اور مغربی یورپ و شمالی امریکہ اور ان کی نوآبادیات میں ان کے نفاذ کو سمجھنا پڑے گا۔ اسی طرح مغربی یورپ اور شمالی امریکہ کے ماڈل کو دیکھتے ہوئے اس سوال کا جائزہ لینا ہوگا کہ صرف انتخابات نفاذِ جمہوریت کے لیے کافی کیوں نہیں ہوسکتے۔
صاف گوئی سے کام لیا جائے تو گزشتہ ایک دہائی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نقطہ زوال ثابت ہوئی ہے، تاہم اگر معاشرے کا مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ کچھ معاملات میں مثبت تبدیلیاں بھی رونما ہوئی ہیں، مثلاً ہم متحرک مقامی برادریوں پر مشتمل ایک قومی دھارے کی تشکیل میں کافی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔ اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود پاکستان کے گیارہ قومی انتخابات ملک میں قومی سطح پر ایک سیاسی جغرافیائی مضمون میں ایک سیاسی اکائی پیدا کرنے میں معاون رہے ہیں۔ یہ پاکستان کے گیارہ انتخابات کا بہترین ذیلی ثمر ہے۔ اگر اسی بنیاد پر کام کرتے ہوئے ہم ضروری قدم اٹھاتے جائیں تو قوی امید ہے کہ ایسے سیاسی ادارے قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جو پہلے سے موجود ہمارے سیاسی و سماجی ڈھانچے کی مضبوطی کا باعث بنیں گے۔
کتاب میں ان عنوانات کے تحت سترہ ابواب زیر بحث آئے ہیں:
حصہ اول۔ پہلا باب: پاکستانی ووٹر، دوسرا باب: پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا تنظیمی ڈھانچہ، تیسرا باب: ووٹر اور سیاسی جماعت کا تعلق، چوتھا باب: انتخابی نتائج کی پیشن گوئی کیسے کی جائے؟ ووٹر کی رائے سازی سے متعلق پانچ اسباق، پانچواں باب: کیا انتخابات جمہوریت کو جنم دے سکتے ہیں؟
حصہ دوم۔ گیارہ کہانیاں ایک سبق: چھٹا باب: 1970ء کے انتخابات، ساتواں باب: 1977ء کے انتخابات،آٹھواں باب: 1985ء کے انتخابات، نواں باب: 1988ء کے انتخابات، دسواں باب: 1990ء کے انتخابات، گیارہواں باب: 1993ء کے انتخابات، بارہواں باب: 1997ء کے انتخابات، تیرہواں باب: 2002ء کے انتخابات، چودھواں باب: 2008ء کے انتخابات، پندرہواں باب: 2013ء کے انتخابات، پاکستان کے گیارہ انتخابات کا ایک سبق، سترہواں باب: حالیہ سیاسی بحران پر سات مشاہدات۔
ضمیمہ جات میں یہ ابواب زیر بحث آئے ہیں:
-1 باب نمبر1 کا ضمیمہ: تین بڑی سیاسی جماعتوں کی انتخابی مقبولیت کا اتار چڑھائو
-2 باب نمبر2 کا ضمیمہ: پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا حجم اور تنظیمی ڈھانچہ
فہرست ٹیبلز میں ان عنوانات کے تحت یہ ابواب ہیں:
ووٹرز کی منتخب نمائندے سے توقعات، ووٹرز کی توقعات بہ لحاظ سیاسی جماعت، جنس کی بنیاد پر ووٹنگ کے رجحانات، ووٹنگ رجحانات بہ لحاظ عمر، ووٹنگ رجحانات بہ لحاظ آمدن، ووٹنگ رجحانات بہ لحاظ تعلیم۔
پاکستانی سیاست کا درجہ اول: منتخب بلدیاتی حکومتوں اور افسران کی تعداد، پاکستانی سیاست کا درجہ دوم: گیلانی انڈیکس کی مرتب کردہ مردم شماری، پاکستان مسلم لیگ کے شناختی گروہ کی سیاسی جماعتوں کی انتخابی تاریخ کا اتار چڑھائو۔
دینی جماعتوں کے شناختی گروہ کی سیاسی جماعتوں کی انتخابی تاریخ کا اتار چڑھائو۔
علاقائی جماعتوں کے شناختی گروہ کی انتخابی تاریخ کا اتار چڑھائو (کل پاکستان) ۔
خیبرپختون خوا کی علاقائی جماعتوں کے شناختی گروہ کی مشترکہ انتخابی تاریخ کا اتار چڑھائو۔
بلوچستان کی علاقائی جماعتی کے شناختی گروہ کی مشترکہ انتخابی تاریخ کا اتار چڑھائو۔
سندھ: کراچی کی علاقائی جماعتوں کے شناختی گروہ کی مشترکہ انتخابی تاریخ کا اتار چڑھائو۔
سندھ: دیگر ڈویژنز کی علاقائی جماعتوں کی مشترکہ انتخابی تاریخ کا اتار چڑھائو۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے شناختی گروہ کی سیاسی جماعتوں کی انتخابی تاریخ کا اتار چڑھائو۔
پاکستان تحریک انصاف کے شناختی گروہ کی سیاسی جماعتوں کی انتخابی تاریخ کا اتار چڑھائو۔
ٹیکسٹ باکسز میں یہ سوالات اٹھائے گئے اور ان کے جوابات تشفی بخش طور پر دینے کی کوشش کی گئی ہے جن سے یہ پتا چل سکے کہ معاملات ہیں کیا اور ان کا ڈیٹا بیس پر حل کیا۔ یہاں مصنف Facts کے ساتھ نتائج کو سامنے لائے ہیں جن سے پتا چل سکے کہ اصل معاملہ ہے کیا مثلاً:
-1سماجی اور انتخابی طاقت میں عدم توازن: اسٹیپ گیپ کا تصور بہ طور ایک تجزیاتی اوزار، -2 پاکستانی سیاسی طبقے کی مردم شماری کے ڈیش بورڈ کو استعمال کرنے کا طریقہ، -3 گیلپ، گیلانی انڈیکس آف الیکٹورل ریکارڈ کا تعارف، -4 پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے نام، انتخابی نشان اور انتخابی نتائج، -5 کسی حلقے میں مسابقت کی قسم جانچنے کا طریقہ، -6 ووٹرز کی رائے سازی سے متعلق پانچ اہم اسباق، -7 پاکستانی سیاست کا نظام نگہبانی: اہم خصوصیات اور تاریخی ارتقا کا دس نکاتی خلاصہ۔
پاکستان کی انتخابی تاریخ پر بہت کتب لکھی جاچکی ہیں، لہٰذا ایک اور کتاب کی کیا ضرورت ہے؟ انتخابات، سیاسی جماعتوں اور جمہوریت و سیاست کے ساتھ تعلق کے متعلق تجزیاتی کتب اور نظریاتی مباحث بڑی تعداد میں موجود ہیں، چنانچہ اس قدر وسیع سمندر میں آپ مزید ایک کتاب کے ذریعے کیا اضافہ کرسکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ پاکستان کی انتخابی تاریخ کے متعلق کئی کتابیں، سیکڑوں تحقیقی و تعلیمی مقالے موجود ہیں لیکن ان میں سے بلامبالغہ کوئی بھی ایسا نہیں جو ہماری قومی تاریخ کے تمام گیارہ انتخابات کا احاطہ کرتا ہو۔ لہٰذا اس کتاب کا ہمہ جہت ہونا اسے اپنے موضوع پر لکھی گئی دیگر کتابوں سے ممتاز کرتا ہے۔
مصنف پچاس سال تک پاکستان کے انتخابی عمل میں بطور مبصر و شاہد وابستہ رہے ہیں۔ انہوں نے پہلے قومی انتخابات سمیت تمام دس انتخابات کا جائزہ لینے اور اپنے مشاہدات دوسروں تک پہنچانے کا کام ایک علمی امانت سمجھ کر کیا ہے۔ مصنف کی یہ کتاب وہ راستہ تلاش کرنے کی کوشش ہے جس پر چل کر ہم اپنے ریاستی اداروں کو اتنا مضبوط کرسکتے ہیں کہ وہ ہمارے سخت جان معاشرے کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چل سکیں۔ پاکستان میں انتخابات کی تاریخ اور بدلتی ہوئی سیاسی صورتِ حال کا غیر جانب دارانہ تجزیہ کرکے ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی نے کوزے میںدریا کو بند کردیا ہے۔
ایمل مطبوعات نے کتاب خوب سرورق کے ساتھ اعلیٰ سفید کاغذ پر بڑے اہتمام سے، دیدہ زیب کتابت و طباعت کے ساتھ شائع کی ہے۔ اس کتاب کو شروع سے آخر تک پڑھ جانے کے بعد قاری یہ تمنا ہی کرتا رہ جاتا ہے کہ کاش ایسا ہوسکتا!