کاروان میگزین کی تہلکہ خیز رپورٹ
بھارت کے ویب پورٹل ”کاروان میگزین“ نے کشمیر کے پیر پنجال علاقے میں کچھ ہی عرصہ قبل فوج کے ہاتھوں بہیمانہ انداز میں قتل ہونے والوں پر ایک تہلکہ خیز رپورٹ شائع کی۔ اس رپورٹ میں بیان کیے گئے حقائق اس قدر چشم کشا تھے کہ جس سے کشمیر میں بھارت کے فوجی سسٹم کی قباحتیں اور کمزوریاں پوری طرح عیاں ہورہی تھیں اور بھارت کا موجودہ سسٹم اور مصنوعی امیج انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے اس دستاویزی ثبوت کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا تھا، شاید یہی وجہ تھی کہ بھارتی حکومت نے کاروان میگزین کو یہ رپورٹ اپنی ویب سائٹ سے اُتارنے پر مجبور کیا۔ رپورٹ کاروان میگزین کی ویب سائٹ سے تو اُتر گئی مگر بھارت کے کئی اخبارات نے جن میں ”دی وائر“ بھی شامل ہے، اسے دوبارہ شائع کیا۔ ”آرمی پوسٹ سے آنے والی چیخیں“ کے عنوان سے یہ رپورٹ بھارت کی خاتون صحافی جتیندر کور تر نے اس علاقے کا دورہ کرنے اور مرحومین کے لواحقین سے ملاقاتوں کے بعد مرتب کی ہے۔ جتیندر کور بھارت کی ایک سینئر صحافی ہیں جو پچیس سال سے بھارت کے مختلف انگریزی اخبارات انڈین ایکسپریس، ٹائمز آف انڈیا، ہندوستان ٹائمز، دکن کرانیکل سے وابستہ رہ چکی ہیں۔ جتیندر کور نے راجوری کے ٹوپہ پیر میں گوجر بکروال کمیونٹی کے نوجوانوں کے بھارتی فوج کے ہاتھوں اغوا، غیر انسانی تشدد اور پھر قتل کے واقعے پر نہایت عرق ریزی اور دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ یہ رپورٹ مرتب کی ہے جس سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی مخدوش صورتِ حال کی پوری عکاسی ہورہی ہے۔
ایک طرف بھارتی فوج آپریشن سدبھاونا (آپریشن گُڈوِل)کے تحت کشمیر کی کنٹرول لائن کے قریب بسنے والوں کے سامنے اپنا سانتا کلاز کا امیج بنارہی ہے تو دوسری طرف کشمیریوں کو بے دردی سے قتل کیا جارہا ہے۔ پیر پنجال ریجن سیاسی اور تزویراتی اعتبار سے بھارت کے لیے اہم ہوگیا ہے۔ یہ جموں اور پونچھ کا وہ سلسلہ کوہ ہے جو ان خطوں کو آزادکشمیر کے پونچھ اور کوٹلی کے علاقوں سے الگ کرتا ہے۔ پھر جموں کے ہندو اکثریتی اضلاع کے مقابل میں یہ مسلم اکثریتی بیلٹ ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی انتخابی عمل اور اپنا وزیراعلیٰ لانے کے ذریعے جموں وکشمیر کی زعفرانیت کا جو منصوبہ رکھتی ہے مسلمان آبادی اس عمل میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔ مسلم اکثریتی وادیِ کشمیر کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ کسی طور بھی یہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو اپنا اعتماد نہیں بخشے گی۔ یہاں فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کا اتحاد ہی اکثریت کا اعتماد حاصل کرے گا، اور اگر کوئی کمی بھی رہی تو اسے کم ازکم بھارتیہ جنتا پارٹی پورا نہیں کرسکے گی۔ اس لیے بھارتیہ جنتا پارٹی کی ساری امید جموں سے ہے، مگر جموں کے مسلم اکثریتی علاقے یہاں بھی ایک رکاوٹ ہیں۔ اس لیے بھارت ایک منظم منصوبے کے تحت مسلمان آبادی کی طاقت کو کشمیری گوجر بکروال پہاڑی سمیت مختلف انداز سے تقسیم کررہا ہے۔
کنٹرول لائن سے قریب ہونے کی وجہ سے پیرپنجال ریجن کی اہمیت بھی اپنی جگہ پر قائم ہے۔ بھارت آزادکشمیر کے حوالے سے جو منصوبہ بنائے بیٹھا ہے اس میں پیر پنجال ریجن اہم ہے۔ ماضی میں اسی ریجن کا نکیال سیکٹر تھا جہاں بھارتی فوج نے سرجیکل اسٹرائیکس کا دعویٰ کیا تھا۔ یہ گھنے جنگلات، گہری کھائیوں اور چٹیل پہاڑوں کا علاقہ ہے جہاں کبھی کبھار بھارتی فوج کو گوریلا طرزِ جنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت یہ جموں وکشمیر کا واحد علاقہ ہے جہاں ایک پراسرار اور نہایت منظم عسکریت کبھی کبھار اپنا وجود منواتی ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل اسی علاقے میں بھارتی فوج کی گاڑیوں پر گھات لگا کر حملہ کیا گیا جس میں متعدد فوجی مارے گئے اور زخمی فوجیوں کو دھاڑیں مار کر روتے دیکھا گیا۔ اس واقعے کے بعد فوج نے اس علاقے میں ایک آپریشن کا آغاز کیا۔ دبی ہوئی مسلم کمیونٹی گوجر بکروال کے افراد کو گھروں سے نکال کر فوجی گاڑیوں میں بھرا گیا، اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے وڈیو کلپس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بھارتی فوجی مقامی افراد کو ہانک کر گاڑیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ بعد میں ان افراد پر بدترین تشدد کی ویسی ہی وڈیوز سامنے آئیں جو اکثر بھارت میں ہجومی تشدد کا نشانہ بننے والوں کی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ صاف لگ رہا ہے کہ فوج کے سخت گیر عناصر میں ہجومی تشدد کی ذہنیت سرایت کررہی ہے۔ بے پناہ تشدد اور برہنہ کرنا، نازک حصوں میں سرخ مرچوں کا چھڑکاؤ… غرضیکہ تشدد کا ہر غیر انسانی ہتھکنڈا اس دوران آزمایا گیا۔ یوں اس تشدد میں تین نوجوان جان سے گزر گئے اور کئی زخمی ہوگئے۔
ان افراد کے جنازوں پر مقامی افراد نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ اس واقعے کی گونج جب جموں وکشمیر کی آہنی دیواروں سے باہر سنائی دی اور بھارت کی فوج کو اپنی ساکھ کا معاملہ درپیش ہوا تو فوراً عوام کے دل جیتنے کے لیے آپریشن سدبھاونا میں تیزی لائی گئی۔ ٹوپہ پیر کے اس گاؤں میں جس سے متاثرین کا تعلق تھا، راتوں رات گلیاں پختہ کی جانے لگیں، سولر پلانٹ کی تنصیب سے ان کے گھر روشن کیے جانے لگے، بچوں میں کاپیاں اور پنسلیں اور عوام میں مفت راشن تقسیم کیا جانے لگا، اور بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ خصوصی طور پر علاقے میں آئے، انہوں نے فوج کے کردار کی تعریف کی اور کہا کہ فوجی آپریشن کرتے ہوئے فوجیوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہمارا مقصد دل جیتنا ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھی یہاں پہنچ کر سیکورٹی کی صورتِ حال کا جائزہ لیا۔ اسی دوران فوج کے ایک بریگیڈیئر گاؤں میں آئے اور متاثرین کے عزیز واقارب کو طلب کرکے ان کے ہاتھوں میں مرنے والوں کے دس لاکھ اور زخمیوں کے لیے ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے تھمائے گئے۔
یہیں سے جتیندر کور نے ساری ڈور کا سرا پکڑلیا۔ انہوں نے اپنی رپورٹ
“Scream from the Army Post;The Indian army,s torture and murder of civlians in a restive Jammu.”
میں صرف واقعے کی تفصیلات ہی بیان نہیں کیں بلکہ بھارتی فوج کے امداد دینے کے انداز اور طریقہ کار پر بھی کئی سوال اُٹھائے۔ جتیندر کور کا کہنا تھا کہ آفات میں کام آنے والے افراد کے لواحقین کو امداد دینے کا ایک حکومتی طریقہ کار موجود ہے، مگر یہ عجیب بات ہے کہ فوج محض اپنے افراد کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کو اپنے خفیہ فنڈز سے رقوم دیتی ہے۔ جتیندر کور کو ایک ریٹائرڈ آرمی آفیسر نے بتایا کہ فوج کی طرف سے اپنے لوگوں کے جرائم کی پردہ پوشی کا یہ کوئی نیا سلسلہ نہیں بلکہ ماضی میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ یہ رقم ملٹری انٹیلی جنس کے فنڈز سے دی گئی جس کا عمومی طور پر حساب نہیں ہوتا۔ یہ رقم فوجی آپریشنوں اور اس دوران مخبروں کو نوازنے کے کام آتی ہے۔ یہ تو تاوان کا خون بہا سے بھی بدتر انداز ہے۔ متاثرین نے جتیندر کور کو وہ نوٹ بھی دکھائے جو انہیں فوج نے دیے تھے۔ یہ ریزور بینک آف انڈیا کے باہر سے آئے تھے۔ یہ رقم دینے کا وہی انداز تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ لواحقین مقدمہ لڑنے سے باز رہیں۔ جتیندر کور کے مطابق قتل ہونے والے نوجوان شوکت کے والد نے بتایا کہ ہمارے گھروں کو تاریکی سے بھر کر اب وہ سولرسسٹم سے ہماری گلیوں کو روشن کررہے ہیں، ہمیں تو یہ بھی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس رقم کا کیا کریں؟ اس کے ساتھ ہی رپورٹ میں بھارت کے کرنسی نوٹوں کا ایک ڈھیر بھی تصویر کی صورت میں موجود ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ میں غریب آدمی ہوں جس نے بارڈر وڈ آرگنائزیشن کے ساتھ کام کرکے اپنے بچوں کو اس امید پر جوان کیا تھا کہ جب میں بوڑھا ہوں گا تو وہ میری دیکھ بھال کریں گے۔ جتیندر کور کی رپورٹ کا اختتام اس تاریخی حقیقت پر کیا گیا ہے کہ کشمیر میں قتلِ عام کا سلسلہ کوئی نیا نہیں، بلکہ 1990ء کی دہائی میں گاؤ کدل سری نگر، ہندواڑہ، بیج بہاڑہ، سوپور اور کپواڑہ کے قتل عام ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
موجودہ حالات میں بھارتی حکومت کی جانب سے اس رپورٹ کے ساتھ یہی سلوک ہونا تھا، مگر حقیقت دنیا کے سامنے آگئی تھی اور اسے ایک معروف بھارتی صحافی کی سند بھی حاصل ہوگئی تھی۔ ”ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں“ کے مصداق بھارت کے موجودہ ماحول میں جب ہر طرف گودی میڈیا کا راج ہے، ایسے بے باک صحافیوں اور رپورٹس کا سامنے آنا روشنی کی ایک کرن ہے۔