غزہ کی مزاحمت:حماس نے ہمت نہیں ہاری

(نویں قسط)

جنگ بندی جاری رہنے کی صورت میں حماس کی حقیقت پسندی دنیا پر واضح ہوتی تھی۔ یہ بہت اچھی حکمتِ عملی تھی کیونکہ حماس کے پاس دنیا پر اپنی عدم جارحیت پسندی ثابت کرنے کا اور کوئی راستہ یا طریقہ نہ تھا۔ اگر حماس حملے مکمل طور پر روکے رکھتی تو اسرائیل پر دباؤ بڑھنا تھا کہ عالمی برادری کے سامنے کچھ ایسا کرے جس سے معاملات درستی کی طرف جائیں، غزہ کا محاصرہ ختم ہو اور سیاسی و سفارتی تصفیے کی راہ ہموار ہو۔ اسرائیل پر مصالحت کے لیے دباؤ ڈالنے کا اس سے اچھا طریقہ کوئی نہیں ہوسکتا تھا۔

اسرائیلی قیادت کے لیے حماس سے مصالحت انتہائی ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھی۔ وہ کسی بھی طور ایسا کچھ نہیں چاہتی تھی جس کے نتیجے میں حماس سے مصالحت کی طرف بڑھنا پڑے اور معاملات عسکری مہم جوئی کی راہ سے ہٹیں۔ دنیا چاہے کچھ بھی سوچ رہی ہو، عرب دنیا کی حکمتِ عملی چاہے کچھ بھی رہی ہو، اور فلسطینی قیادت حقیقی اور پائیدار امن کے لیے چاہے کتنی ہی کوشاں رہی ہو، حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی قیادت نے 2008ء میں فلسطینی علاقوں پر بھرپور حملوں کا فیصلہ کرلیا تھا، اور اب اسرائیلی فوج کو تیاریوں کے لیے کچھ وقت درکار تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ کسی نہ کسی طور حماس کو حیرت زدہ کرنے والی کارروائیاں کی جائیں۔ اس کے لیے بھرپور تیاری ناگزیر تھی۔ جنگ بندی دراصل مزید حملوں کی تیاری کے لیے وقت کا اہتمام کرنے کا ایک اچھا ذریعہ ثابت ہورہی تھی۔ اسرائیل میں حماس سے تصادم کے بارے میں اختلافِ رائے ضرور پایا جاتا تھا مگر فوج ایسا ماحول پیدا ہی نہیں ہونے دیتی تھی جس میں امن کی بات کرنے والوں کی سُنی جائے۔ سیاسی جماعتوں میں اختلافِ رائے اپنی جگہ، مگر فوج اپنی مرضی کے مطابق معاملات کو اس طور بدلتی اور بگاڑتی تھی کہ لاکھ کوشش کرنے پر بھی کسی چیز کا کوئی سِرا ہاتھ نہ آتا تھا اور سب کچھ پیچیدگیوں کی نذر ہوجاتا تھا۔

4 نومبر 2008ء کو امریکہ میں ایک تاریخی لمحہ آیا۔ امریکی تاریخ میں پہلی بار بارک اوباما کی صورت میں کوئی حقیقی غیر سفید فام صدر منتخب ہوا۔ امریکہ بھر میں بارک اوباما کے انتخاب کو حیرت اور مسرت سے لیا جارہا تھا۔ ایسے میں کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا کہ مشرقِِ وسطیٰ میں کچھ ایسا ہوگا جس سے نومنتخب صدر کے لیے صرف الجھنیں پیدا ہوں گی۔ اسرائیلی قیادت نے بارک اوباما کے انتخاب سے پیدا ہونے والے ماحول کو ایک اچھا موقع گردانتے ہوئے جنگ بندی ختم کرنے کی ٹھانی اور فلسطینی علاقوں پر حملہ کردیا۔ عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے کے نام پر کی جانے والی فوجی کارروائیوں نے غیر معمولی جانی و مالی نقصان کی راہ ہموار کی۔ یہ حملہ سوچے سمجھے بغیر نہیں کیا گیا تھا۔ اسرائیلی قیادت اچھی طرح جانتی تھی کہ جس طریقے سے فلسطینی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اس کے نتیجے میں وہاں شدید ردعمل اور اشتعال پیدا ہوگا۔ یہی تو وہ چاہتی تھی۔ تل ابیب کے پالیسی ساز چاہتے تھے کہ اسرائیلی فوج کی کارروائیوں سے حماس مشتعل ہو اور اسرائیل پر حملہ کردے۔ جب تک ایسا نہ ہوتا تب تک حملے کا مقصد پورا نہ ہونا تھا۔ اسرائیلیوں کی دعائیں رنگ لائیں اور حماس نے بھی جواب دینا شروع کیا۔ ایسا نہیں تھا کہ عالمی برادری نے یہ بات محسوس نہیں کی کہ اسرائیل نے جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کیے ہیں جن میں حماس کے لیے حملوں کا جواب نہ دینا ممکن ہی نہ تھا۔ بنیادی حقوق کے علَم بردار گروپ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا کہ کم و بیش ساڑھے چار ماہ تک جنگ بندی رہی اور اس دوران فریقین نے مکمل ضبط و تحمل کا مظاہرہ کیا، مگر پھر یہ جنگ بندی اُس وقت ٹوٹی جب اسرائیل نے بلا اشتعال حملے میں 6 عسکریت پسندوں کو ہلاک کر ڈالا۔ یہ فضائی حملہ 4 نومبر کو کیا گیا۔ اس حملے نے پورے خطے کے لیے ایک بار پھر شدید عدم استحکام کی راہ ہموار کردی۔

اسرائیلی فوج کی مکمل بلا جواز کارروائی نے حماس کو حملے دوبارہ شروع کرنے کی تحریک بھی دی اور جواز بھی۔ حماس کی قیادت ہر حال میں جنگ بندی کو طول دینا چاہتی تھی تاکہ ایک طرف تو اس کی پوزیشن مستحکم ہو اور دوسری طرف فلسطینی علاقوں میں تعمیر و ترقی کی راہ ہموار ہو، معیشتی سرگرمیاں رواں رہیں اور لوگ ڈھنگ سے جی سکیں۔

اسرائیل کی نیم سرکاری دستاویزات میں یہ بات درج ہے کہ حماس نے اسرائیل پر ’’جوابی حملے‘‘ شروع کیے۔ اِس کے باوجود حماس کو اسرائیل پر حملوں سے کچھ خاص شغف نہ تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ کسی نہ کسی طور جنگ بندی نافذ رہے اور معاملات مصالحت کی طرف جائیں۔ اسرائیل کی داخلی سلامتی کے سربراہ یوال ڈسکن نے کہا کہ حماس کی دلچسپی اس بات سے تھی کہ اسرائیل سے کوئی نیا تصادم نہ ہو، امن برقرار رہے۔ وہ اِس بات کے لیے کوشاں تھی کہ اسرائیل پر حملوں سے مکمل گریز کیا جائے اور اس کے جواب میں اسرائیلی قیادت غزہ کی پٹی کا محاصرہ ختم یا نرم کرنے پر آمادہ ہو۔ اِسی صورت معاملات بہتری کی طرف جاسکتے تھے۔ حماس کو جنگ بندی برقرار رکھنے سے زیادہ شغف اس لیے تھا کہ کسی نہ کسی طور فلسطینیوں کی معاشی مشکلات ختم ہوں اور وہ نارمل زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں۔

اسرائیلی مسلح افواج کے سابق غزہ کمانڈر شمعول زکائی کا کہنا تھا کہ حماس اِس بات کے لیے کوشاں تھی کہ اسرائیل پر حملوں سے مکمل گریز کیا جائے اور اس کے جواب میں اسرائیلی قیادت غزہ کی پٹی کا محاصرہ ختم یا نرم کرنے پر آمادہ ہو۔ اِسی صورت معاملات بہتری کی طرف جاسکتے تھے۔ کئی بار ایسا ہوا تھا کہ عسکریت پسندی کو کچلنے کے نام پر اسرائیلی افواج نے عام فلسطینیوں کو نشانہ بنایا تھا اور ان کی کارروائیوں کے نتیجے میں اتنا جانی و مالی نقصان ہوا تھا کہ اب ایسی کسی بھی صورتِ حال کو برداشت نہیں کیا جاسکتا تھا۔

اسرائیل نے عجیب پالیسی اختیار کی۔ ایک طرف تو وہ غزہ کی اقتصادی ناکہ بندی سخت تر کر رہا تھا اور دوسری طرف اُس نے حماس سے مطالبہ کیا کہ وہ مکمل ضبط و تحمل سے کام لے اور یک طرفہ طور پر جنگ بندی پر عمل پیرا رہے۔ یہ ممکن ہی نہ تھا۔ ساتھ ہی ساتھ اسرائیلی پالیسی یہ بھی تھی کہ حماس کی طرف سے پیش کی جانے والی کوئی بھی شرط کسی طور قبول نہ کی جائے۔ حماس کے لیے ممکن ہی نہ تھا کہ ہر حال میں جنگ بندی پر راضی رہے۔ وہ اسرائیل پر حملوں سے صرف اُس وقت بازرہ سکتی تھی جب غزہ کی پٹی اور اُس سے ملحق علاقوں کی اقتصادی ناکہ بندی ختم کردی جاتی اور عام فلسطینی کو ڈھنگ سے جینے کے قابل رہنے دیا جاتا۔ جب تک یہ مقصد حاصل نہ ہوتا تب تک حماس کے لیے اپنے لوگوں کے سامنے وقار کے ساتھ کھڑا ہونا بھی ممکن نہ تھا۔ دنیا بھر میں حماس کے حوالے سے جو پروپیگنڈا کیا جارہا تھا اور مغربی میڈیا نے اُسے جس طور پیش کیا تھا اُس کے پیشِ نظر لازم تھا کہ لڑائی سے دور رہا جاتا۔

حماس کی پوزیشن اندرونی طور پر بہت پریشان کن تھی۔ اسرائیل نے ناکہ بندی اور حملوں کے ذریعے غزہ کی پٹی اور اُس سے ملحق علاقوں کا بنیادی ڈھانچہ تباہ کردیا تھا۔ عام فلسطینی کی زندگی انتہائی نوعیت کی دشواریوں سے آلودہ تھی۔ تعلیم و صحتِ عامہ کا نظام تباہ ہوچکا تھا۔ اشیائے صرف کی واضح قلت نے عام فلسطینی کی زندگی عذاب میں تبدیل کردی تھی۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی ماہرِ سیاسیات سارہ رائے کا کہنا تھا کہ ایک پورا معاشرہ ہماری آنکھوں کے سامنے تباہ ہورہا تھا اور ہم محض تماشائی بنے ہوئے تھے۔ اقوام متحدہ کے انتباہ سے زیادہ کچھ نہیں کیا جارہا تھا، اور اس انتباہ کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ عالمی برادری کو فلسطینیوں کی مدد کے حوالے سے جو کچھ کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کیا جارہا تھا۔

حماس کے پاس اسرائیل کے حملوں پر جوابی کارروائی کے سوا چارہ نہ تھا۔ 4 نومبر کے حملوں کا حماس نے فوری جواب تو نہیں دیا تاہم حقیقت یہ تھی کہ اسرائیل کے حملوں کے جواب میں مکمل خاموشی بھی اختیار نہیں کی جاسکتی تھی۔ اسرائیلی فوج کے ایک اعلیٰ کمانڈر نے کہا کہ یہ تو ممکن ہی نہ تھا کہ حملے کیے جاتے اور حماس کی طرف سے کوئی جواب نہ دیا جاتا۔ حماس کو بھی اپنے لوگوں کو جواب دینا تھا۔ لازم تھا کہ وہ کسی نہ کسی طور مزاحمت جاری رکھے اور اپنے لوگوں کو یقین دلائے کہ وہ ابھی ہے، منظر سے ہٹی نہیں ہے۔

دوسری طرف حماس کے سربراہ خالد مشعل نے ایک بیان میں کہا کہ ہم گھریلو ساختہ چھوٹے بڑے راکٹوں اور میزائلوں سے جواب دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ جواب بھرپور تو نہیں ہوسکتا مگر ہم دنیا کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم نے ہمت نہیں ہاری اور اب بھی مزاحمت کرسکتے ہیں۔ خالد مشعل کا یہ بیان اسرائیلی قیادت کی خواہش اور امنگوں کے مطابق تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ حماس دوبارہ جوابی حملوں کی طرف آئے اور وسیع تر فوجی کارروائی کی راہ ہموار ہو۔

بہرحال اب اسرائیل کے پاس اپنے مغربی سرپرستوں کو خوش کرنے کے لیے ایک ٹوٹا پھوٹا جواز موجود تھا کہ وہ اپنے دفاع کی جنگ لڑ رہا ہے۔ پھر اسرائیل نے ایک سال تک حماس کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کے نام پر فلسطینی علاقوں کو تباہی دوچار کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اسکرپٹ میں تھوڑی سی تبدیلی ضرور کی گئی۔ اس بار اسرائیل نے پی ایل او کی دہشت گردی کے بجائے حماس کی دہشت گردی کو جواز بنایا۔ اس بار شمالی اسرائیل پر راکٹ حملوں کے بجائے جنوبی اسرائیل پر راکٹ حملوں کو جواز بنایا گیا۔ بہرکیف، معاملات اسرائیل نے اپنے حق میں کرلیے اور فلسطینیوں کی طرف سے امن کے لیے کی جانے والی بھرپور کوشش کو شدید ناکامی سے دوچار کیا۔

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ فلسطین کے قضیے کو باعزت طور پر ختم کرنے کی جتنی بھی کوششیں فلسطینیوں کی طرف سے کی جارہی تھیں اُنہیں اسرائیلی قیادت نے اپنی فوجی کارروائیوں کے ذریعے ختم کردیا۔ امن کے لیے کی جانے والی مساعی عشروں کے غور و فکر کا نتیجہ تھیں مگر اسرائیل کو امن سے غرض ہی نہ تھی۔

حالات و واقعات شاہد ہیں کہ پی ایل او، فلسطینی اتھارٹی اور حماس تینوں ہی فریقوں نے فلسطین کا قضیہ پُرامن طور پر حل کرنے کی اپنی سی کوشش کی۔ اس حوالے سے ایک بار حماس نے اردن کے شاہ حسین کے ذریعے اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کو پیغام بھجوایا کہ براہِ راست مذاکرات کے ذریعے تمام معاملات طے کرلو، تشدد کی راہ ہمیشہ کے لیے مسدود کردو۔ اس پیغام کا یا تو جواب دینے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی، یا پھر شاید یہ پیغام بنیامین نیتن یاہو تک پہنچایا ہی نہیں گیا۔

حماس اور دیگر فلسطینی فریقوں نے ایک سے ڈیڑھ عشرے کے دوران اسرائیل سے تصادم سے حتی الامکان گریز کیا۔ اس کا سبب یہ نہیں تھا کہ یہ فلسطینی گروپ کسی خطرناک نتیجے سے خوف زدہ تھے یا اس حوالے سے ہچکچاہٹ تھی۔ معاملہ یہ تھا کہ کسی بھی کمزور جواز کی مدد سے کی جانے والی اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں فلسطینی علاقوں میں بہت بڑے پیمانے پر تباہی واقع ہوتی تھی، اور یوں عام فلسطینی شہریوں کے لیے جان و مال کا تحفظ یقینی بنانا کم و بیش ناممکن ہوجاتا تھا۔ فلسطینی گروپ چاہتے تھے کہ کوئی ایسی صورت نکلے کہ اسرائیلی فوج سے تصادم کی صورت میں عام فلسطینی محفوظ رہیں۔ جب فلسطینی علاقوں کو اسرائیلی فوج نشانہ بناتی تھی تو اُن میں آباد لوگوں کی زندگی پہلے سے زیادہ دشوار ہوجاتی تھی۔ ایک طرف تو بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوتا تھا اور دوسری طرف جو محفوظ رہتے تھے وہ بھی آسانی سے جی نہیں پاتے تھے۔ اُن کے لیے بے انتہا معاشی الجھنیں پیدا ہوتی تھیں۔ اسرائیلی فوج کے حملوں میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کے پس ماندگان کے لیے زندگی انتہائی گھناؤنی یادوں سے آلودہ ہوجاتی تھی۔ اپنے پیاروں کو یاد کرتے ہوئے زندگی بسر کرنا اُن کے لیے سوہانِ روح ہوجاتا تھا۔ (جاری ہے)