بلوچستان میں مسلح گروہوں کی سرگرمیاں معمول کی بات ہے۔ کالعدم مسلح گروہ بلوچ لبریشن آرمی نے پیر 29 جنوری کو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے جنوب میں 50 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ضلع کچھی کے چھوٹے سے شہر مچھ پر سرِشام بھاری اسلحہ کے ساتھ حملہ کیا۔ یہ حملے تقریباً ستّر کلومیٹر پر پھیلے درہ بولان میں مچھ، کولپور، گوکرت اور پیر غائب کے مقامات پر بیک وقت کیے گئے۔ پہاڑوں سے خودکار اسلحے سے فائرنگ کی جاتی رہی، راکٹ فائر کیے جاتے رہے، جس سے آبادیاں محصور ہوگئیں۔ پولیس اور لیویز ان اچانک حملوں سے فوری نبرد آزما نہ ہوئیں۔ کولپور، پیر غائب اور گوکرت کے مقامات پر مسلح لوگ قومی شاہراہ این 65 پر اتر آئے۔ انہوں نے گوکرت لیویز تھانے پر حملہ کردیا، شاہراہ پر گاڑیوں کی چیکنگ شروع کردی، ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے تین ڈرائیوروں کو قتل کردیا، کولپور کے مقام پر ایک ریسٹورنٹ اور اس سے متصل دکانوں کو نذر آتش کردیا، پانچ گاڑیاں جلادی گئیں، مچھ شہر میں لکڑیاں جمع کرنے والے تین افراد سمیت چار شہری موت کے گھاٹ اتارے گئے، ریلوے پولیس اہلکار فیصل سمالانی جاں بحق ہوا، مچھ پولیس تھانے کا ایس ایچ او ساجد سولنگی جاں بحق ہوا۔ مسلح افراد نے تھانے کو گھیر لیا اور پولیس کو ہتھیار پھینکنے کے لیے کہا، لیکن ایس ایچ او ساجد سولنگی نے ہتھیار ڈالنے کے بجائے مقابلہ شروع کردیا اور جان دے دی۔ فرنٹیئر کور کے دو اہلکار جاں بحق ہوئے۔ مچھ اور کولپور کے درمیان قومی شاہراہ پر فائرنگ میں پانچ سالہ بچے سمیت چار افراد کی موت ہوئی۔ مجموعی طور پر 12عام شہریوں کے جاں بحق ہونے کی اطلاع دی گئی اور17زخمی ہوئے ہیں۔ حملہ آوروں سے مقابلہ چالیس گھنٹے جاری رہا۔ مچھ شہر میں تادیر مسلح گروہوں کے ارکان گھومتے رہے۔ وہ مساجد سے اعلان کرتے رہے کہ بلوچ عوام گھروں میں رہیں۔ اور یہ کہ وہ ان کے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں۔ پیر کی رات سے بدھ تک قومی شاہراہ پر ٹریفک بند تھی۔ ان پہاڑوں سے ریل کی لائن گزرتی ہے، اس بناء پر کوئٹہ کراچی اور کوئٹہ راولپنڈی، اور ادھر عقبی پہاڑی سلسلے سے گزرنے والی ہرنائی تا سبی ریلوے سروس بند کردی گئی۔
بدھ 31 جنوری کی شام کلیئرنس آپریشن مکمل کرلیا گیا۔ محکمہ انسداد دہشت گردی نے بتایا کہ سات شہریوں کو بازیاب کرایا گیا جنہیں مسلح گروہ کے ارکان نے یرغمال بنایا تھا۔ بہرحال اس تناظر میں سیکورٹی خامیوں کی نشاندہی ہوئی ہے۔
مچھ اور اس سے متصل علاقوں میں کوئلے کی سیکڑوں کانیں موجود ہیں جہاں ہزاروں مزدور کام کرتے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر کوئلہ ٹرکوں کے ذریعے ملک کے دوسرے علاقوں کو جاتا ہے۔ ان علاقوں میں مسلح گروہوں کی موجودگی کے پیش نظر فرنٹیئر کور کے اہلکار تعینات ہیں۔ پہاڑوں پر بھی ایف سی کے مورچے بنے ہوئے ہیں۔ انٹیلی جنس اداروں نے بھی چند روز قبل مچھ سے ملحقہ پہاڑوں میں مسلح گروہوں کی نقل و حمل کے بارے میں خبردار کیا تھا، لیکن اس کے باوجود مسلح گروہ بیک وقت چار مقامات پر حملوں میں کامیاب ہوگئے۔ شہر تو گھنٹوں ان کے قبضے میں رہا۔ تاریخی مچھ جیل شہر کے اندر موجود ہے۔ سیکورٹی فورسز کے مقابل مسلح گروہ نے بھی اعلان کردیا کہ وہ اپنا آپریشن مکمل کرکے واپس جاچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قومی شاہراہ پر بارودی سرنگیں بچھائی گئی ہیں۔
یہ حملے نوشکی اور پنجگور کے اندر فروری 2022ء میں ہونے والے حملوں کے مماثل تھے۔ مچھ میں بھی مارے جانے والے عسکریت پسند واپس فرار کی نیت سے نہیں آئے تھے۔ گروہ نے حملے کے دن ہی بتادیا تھا کہ ان کے12ارکان (جن کے لیے فدائی کی اصطلاح استعمال کی گئی)، واپسی کے بجائے آخری دم تک لڑیں گے، اور دو گولیاں محاصرے کی صورت میں اپنی زندگیوں کے خاتمے کے لیے محفوظ رکھی ہیں۔ 12 فدائیوں کے علاوہ ایک اور رکن بھی مقابلے میں مارا گیا، اور ان تمام افراد کی تفصیلات بھی جاری کردی گئیں۔ سیکورٹی فورسز نے آپریشن میں24حملہ آور مارنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس کے برعکس لاپتا افراد کے لواحقین کا الزام ہے کہ فورسز نے جبری طور پر لاپتا کیے گئے کئی افراد کو بھی مارا ہے۔
مسلح گروہ کچھی اور کوئٹہ کے مشرقی پہاڑی سلسلوں میں موجود ہیں۔ کوئٹہ سے کچھی تک ان کی لائن قائم ہے۔ کوئٹہ سے متصل مارواڑ اور ڈیگاری ہیں۔ یہ علاقے کوئٹہ چھاؤنی سے دور نہیں۔ یہ گروہ کبھی کوئلہ کان بند کردیتے ہیں اور کبھی کام شروع کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ماہانہ رقم فکس ہے جو کوئلہ کان مالکان یا ٹھیکیدار ان کو ادا کرتے ہیں۔ سیکورٹی اور ڈویلپمنٹ کے نام پر مجموعی طور پر فورسز تین سو روپے فی ٹن لیتی ہیں۔ جبکہ مسلح گروہوں نے بھی ماہانہ رقم فکس کررکھی ہے۔ درمیان میں سول حکومت اور انتظامیہ کہیں نظر نہیں آتی۔
مچھ حملہ بی ایل اے کہ بشیر زیب گروپ نے کیا ہے۔ یہ گروپ اسلم اچھو نے نواب خیر بخش مری کے بیٹے حیربیار مری کی بی ایل اے سے الگ ہوکر قائم کیا۔ اسلم عرف اچھو امریکی قبضے کے دوران میں قندھار میں ایک بم دھماکے میں نشانہ بنا، جس کے بعد تنظیم کی کمانڈ بشیر زیب نے سنبھال لی۔ بشیر زیب بلوچ قوم پرست سیاست کرنے والی طلبہ تنظیم بی ایس او آزاد کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ مسلح گروہ کی قیادت نوابوں اور سرداروں سے متوسط طبقے کے پڑھے لکھے مگر زیادہ سخت گیر سوچ کے حامل نوجوانوں کے ہاتھ میں گئی تو مسلح سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا۔ اسلم اچھو نے خودکش حملوں کا رجحان بھی متعارف کرایا اور سب سے پہلے اپنے بیٹے کو تیار کیا، جس نے بلوچستان کے علاقے دالبندین میں چینی ماہرین کی بس سے بارود سے بھری کار ٹکرانے کی کوشش کی۔ دھماکا ہوا مگر چینی ماہرین کی بس محفوظ رہی۔ اس کے بعد کراچی میں چین کے قونصل خانے پر خاتون شاری بلوچ نے خودکش حملہ کیا۔ پھر اسلم اچھو کی بہو نے تربت میں سیکورٹی فورسز کی گاڑی پر حملہ کیا۔ گویا یہ گروہ سنگین حملے اور کارروائیاں کرچکا ہے۔ اس گروہ نے کالعدم ٹی ٹی پی طرز کے حملے بھی شروع کیے جس میں حملہ آور واپس نہ آنے کی نیت سے کیمپوں اور اہداف کے اندر گھس جاتے ہیں اور تادمِ مرگ لڑتے ہیں۔ غرض اگرچہ فورسز نے حملہ آوروں کو مار دیا اور ان حملوں کو ناکام بنانے کا دعویٰ کردیا ہے مگر مچھ، کولپور، پیر غائب اور گوکرت حملوں نے حکومتی عمل داری کو چیلنج ضرور کیا ہے۔ حملے کے تین روز بعد 4فروری کو پھر بولان میں گوکرت لیویز تھانے پر پہاڑوں سے حملہ کیا گیا، البتہ اس حملے میں نقصان نہیں ہوا۔ مچھ پہاڑوں میں گھرا 20ہزار آبادی کا ایک چھوٹا سا شہر ہے جہاں اس سے پہلے بھی کئی بڑے واقعات ہوچکے ہیں۔ اگست 2008ء میں کالعدم بی ایل اے نے مچھ پر گولہ باری کی، پچاس سے زائد راکٹ کے گولے داغے جس میں مچھ کے متعدد شہری جاں بحق ہوئے جن میں سینٹرل جیل کے تین وارڈن بھی شامل تھے۔ بڑی تعداد میں شہری زخمی بھی ہوئے۔
بلوچستان کے اندر حالات مزید خرابی کی طرف جارہے ہیں۔انتخابات کے دوران کوئٹہ سمیت صوبے کے بیشتر اضلاع بم دھماکوں سے گونجتے رہے۔ سیاسی جماعتوں کے انتخابی دفاتر، امیدواروں کی گاڑیاں، رہائش گاہیں، الیکشن کمیشن کے دفاتر اور پولنگ اسٹیشن ہدف بنائے گئے۔ عمارتوں پر 40سے زائد حملے ہوئے۔ 8فروری کے الیکشن سے ایک روز قبل ضلع پشین میں خاںوزئی کے مقام پر، اور ضلع قلعہ سیف اللہ میں موٹر سائیکلوں میں نصب بم دھماکوں کے باعث 28 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ دھماکے انتخابی دفاتر کے باہر ہوئے۔ حکومتوں کے بلوچ عسکریت پسندی کے خلاف اقدامات، طرزِعمل اور بیانیہ بجائے بہتری کے، مسلح گروہوں کی سیاسی حمایت میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ لاپتا افراد کے لواحقین کے احتجاج سے نمٹنے کی حکومت کی غلط حکمت عملی نے ماہ رنگ بلوچ حلقہ فکر کو بلوچ عوام میں پذیرائی دلائی ہے۔ لامحالہ اس کے اثرات ملک کے خلاف مرتب ہوں گے۔