تاریخی مینڈیٹ کی حامل پی ٹی آئی صوبے میں تیسری بار حکومت بنانے جارہی ہے
امیدواروں کی شکایات کے باعث الیکشن کمیشن نے ملک بھر کے 26 حلقوں پر نتائج جاری ہونے سے روک لیے ہیں اور ریٹرننگ افسران کو ان حلقوں پر امیدواروں کی کامیابی کے حتمی نوٹیفکیشن جاری کرنے سے منع کردیا ہے، ان حلقوں میں پشاور کے 9 حلقے این اے 15 مانسہرہ جہاں سے نوازشریف امیدوار تھے، این اے 28 پشاور، خیبر پختون خوا اسمبلی کے حلقے پی کے 72 پشاور، پی کے 73 پشاور، پی کے 74 پشاور، پی کے 75 پشاور، پی کے 79 پشاور، پی کے 80 پشاور اور پی کے 82 پشاور شامل ہیں، جبکہ پشاور کے حلقہ پی کے 78 پر ایک روز قبل ہی حکم جاری کرتے ہوئے اس کا نتیجہ بھی روک دیا گیا تھا۔ پشاور سے جن امیدواروں کی اپیل پر نتائج روکے گئے ہیں ان میں این اے 28 پشاور سے ساجد نواز، پی کے 72 پشاور سے محمود جان، پی کے 73 پشاور سے علی زمان، پی کے 74 پشاور سے ارباب جہانداد، پی کے 75 پشاور سے ملک شہاب، پی کے 78 پشاور سے ارباب عاصم خان، پی کے 79 پشاور سے تیمور جھگڑا، پی کے 80 پشاور سے حامدالحق اور پی کے 82 پشاور سے کامران بنگش شامل ہیں۔ واضح رہے کہ یہ تمام امیدواران پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار ہیں جنہوں نے ان مذکورہ نشستوں پر نہ صرف کامیابی کا دعویٰ کیا ہے بلکہ الیکشن کمیشن میں اعتراضات جمع کرانے کے علاوہ پشاور ہائی کورٹ میں نتائج روکنے کے لیے اسٹے بھی جمع کرایا گیا ہے۔ جب کہ ان نشستوں پرالیکشن کمیشن کے ابتدائی نتائج کے مطابق بالترتیب جمعیت(ف) کے نور عالم خان ایڈووکیٹ، پی پی پی کے سابق اسپیکر صوبائی اسمبلی کرامت اللہ چغر مٹی، اے این پی کے ارباب عثمان، مسلم لیگ(ن) کے قاری ظاہر خان، پی پی پی کے ارباب زرک خان اور آزاد امیدوار ملک طارق اعوان کو کامیاب قراردیا گیا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف نے پشاور کے ان 9 حلقوں کے نتائج مسترد کرتے ہوئے موٹر وے ٹول پلازہ پر دھرنا دیا جس کے باعث دوپہر 2 بجے سے موٹر وے دونوں طرف سے ٹریفک کے لیے بند رہی۔ پارٹی کی جانب سے چارسدہ روڈ اور کوہاٹ روڈ پر ریٹرننگ آفیسرز کے دفتر کے سامنے دھرنا بھی دیا گیا جس کے بعد گزشتہ روز پی ٹی آئی کے تمام کارکن موٹر وے ٹول پلازہ پہنچ گئے۔ مظاہرین کی قیادت شیر علی ارباب، علی زمان، ملک شہاب علی اور عرفان سلیم سمیت دیگر کررہے تھے۔ مظاہرین نے پارٹی پرچم تھامے ہوئے تھے اور شدید نعرے بازی کررہے تھے۔ مظاہرین نے اس موقع پر احتجاج کرتے ہوئے تمام 9 حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ فارم 45 کے مطابق نتائج فراہم کیے جائیں۔ فارم 47 کے نتائج فارم 45 سے مختلف ہیں جسے کسی صورت تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ موٹر وے ٹول پلازہ ایک جانب سے بند کردیا گیا جس کے باعث انٹر چینج پر شدید رش رہا۔ پشاور موٹر وے ٹول پلازہ پر تحریک انصاف کے احتجاج کے باعث موٹر وے ایم ون بند کردی گئی۔
اسی اثناء خیبر پختون خوا میں حکومت بنانے کے لیے آزاد امیدواروں نے سر جوڑ لیے ہیں۔ اسمبلی میں واضح اکثریت کے لیے آزاد امیدواروں کو مطلوبہ عددی اکثریت مل گئی ہے۔ واضح رہے کہ صوبے میں حکومت بنانے کے لیے اسمبلی میں 73 ارکان کی ضرورت ہے، اس الیکشن میں پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں نے 113 جنرل نشستوں میں سے 89 نشستیں حاصل کی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے فارم 49 ایک یا دو روز میں جاری کیے جائیں گے۔ فارم 49 کے اجراء کے بعد آزاد امیدوار تین روز میں کوئی بھی پارٹی جوائن کرنے کے پابند ہوں گے، اور تین روز گزرنے کے بعد آزاد امیدوار اگلے پانچ سال آزاد ایم پی اے تصور ہوں گے۔ اگر پی ٹی آئی کے آزاد ارکان کسی پارٹی میں شامل نہ ہوئے تو پی ٹی آئی صوبائی اسمبلی میں خواتین کے لیے مخصوص 26 اور اقلیتوں کے لیے اسمبلی میں مختص چار نشستوں میں ایک واضح حصے سے محروم رہ جائے گی جس کا نقصان اسے جہاں حکومت سازی میں اٹھانا پڑے گا وہاں اس کا ایک اور بڑا نقصان سینیٹ اور صدرکے آئندہ انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کو ہوگا۔
اسی دوران پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی صدر اور نومنتخب رکن قومی وصوبائی اسمبلی علی امین گنڈا پور نے 8 فروری کو اتنی بڑی تعداد میں نکلنے پر صوبے کے عوام کا شکریہ ادا کیا ہے اور کہا ہے کہ رشوت اور دھونس، دھاندلی کرکے نتائج تبدیل کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ خیبر پختون خوا کے عوام کو سلام پیش کرتا ہوں، کارکنان و قائدین پر ظلم، بدترین فسطائیت، جبری گمشدگیوں، ایف آئی آرز، جیلیں، چادر اور چار دیواری کی پامالیوں اور و فاداریوں کی تبدیلی کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے عوام کے تاریخی اعتماد کے باعث خیبر پختون خوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا قیام یقینی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اُن تمام سرکاری افسران اور اہلکاروں کو خبردار کرتی ہے جو رشوت، دھونس، دبائو یا کسی اور وجہ سے پی ٹی آئی کے کامیاب امیدواروں کے انتخابی نتائج تبدیل کررہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کو ٹھوس شواہد مل رہے ہیں کہ دھاندلی کے مرتکب یہ سرکاری اہلکار فارم 47 میں جعل سازی کے ساتھ ساتھ ووٹوں کے تھیلوں کی سیلیں توڑ کر پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کے ووٹوں میں بھی رد و بدل کررہے ہیں۔ یاد رکھیں یہ صرف بے ایمانی اور بدعنوانی نہیں بلکہ عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ اور آئین سے سنگین غداری بھی ہے۔ سرکاری افسروں اور اہلکاروں کا یہ جرم ناقابلِ معافی ہے جس کے لیے کل انہیں جواب دینا ہوگا۔
پاکستان تحریک انصاف کی 87 نشستوں پر کامیابی کے بعد پی ٹی آئی میں اب نئے وزیراعلیٰ کے لیے پارٹی کے صوبائی صدر علی امین گنڈاپور کو نامزد کردیا ہے۔ خیبر پختون خوا اسمبلی کی 89 نشستوں پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار کامیاب ہوئے ہیں جو صوبائی اسمبلی کا80 فیصد سے بھی زائد ہے۔ تاریخی مینڈیٹ کی حامل پی ٹی آئی صوبے میں تیسری بار حکومت بنانے جارہی ہے، اس کے دو سابق وزراء اعلیٰ پرویز خٹک اور محمود خان پہلے ہی پارٹی چھوڑ چکے ہیں لہٰذا ایسے میں تیسرا وزیراعلیٰ ایک نئی شخصیت ہوگی۔ تیمور جھگڑا اور علی امین گنڈاپور اس عہدے کے لیے انتہائی مضبوط امیدوار سمجھے جارہے تھے، تاہم تیمور جھگڑا کے حلقے پر تنازعے نے علی امین گنڈاپور کے امکانات بڑھا دیے ہیں۔
دوسری جانب جماعت اسلامی کا گڑھ سمجھے جانے والے ضلع دیر پائین جہاں سے جماعت اسلامی کے ضلعی امیر اعزاز الملک افکاری کی کامیابی کا اعلان کیاگیا تھا اب اس حلقے پی کے 17 میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار عبیدالرحمن دوبارہ گنتی میں کامیاب ہوگئے ہیں جن کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیاہے۔ عبید الرحمن 23229 ووٹ لے کر کامیاب قرار دیے گئے ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے امیدوار اعزاز الملک افکاری 19990 ووٹ لے کر دوسری پوزیشن پر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے اپنے امیدوار کی کامیابی پر جشن منایا ہے جبکہ جماعت اسلامی نے ان کے نمائندے کے بغیر دوبارہ گنتی کو ان کے ساتھ دھاندلی قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا ہے اور اسے عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ادھر پی کے 17 لوئر دیر میں امیر جماعت اسلامی اعزاز الملک افکاری کی جیت کو ہار میں تبدیل کرنے کے خلاف جماعت اسلامی کے کارکنان نے تیمرگرہ ریسٹ ہاؤس میں ریٹرننگ آفیسر، اور ضلعی انتظامی افسران کا گھیرائو اور بھرپور احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔ جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکرٹری عبدالواسیع، امیر جماعت اسلامی لوئر دیر اعزاز الملک افکاری، صوبائی نائب امیر مولانا اسد اللہ خان، لوئر دیر کے نائب امیر ارشد زمان و دیگر نے لوئر دیر سمیت ملک بھر کے انتخابات کو مشکوک اور دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کراچی سے لے کر چترال تک لوگوں کا 8 فروری کے انتخابات پر اعتماد نہیں رہا۔ انہوں نے حالیہ انتخابات کو اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی جماعتوں کے ساتھ دھوکہ اور فراڈ قرار دیا ہے۔
اسی اثناء عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے بھی بدترین شکست کے بعد الیکشن کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے آئندہ اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ نہ دینے کا اعلان کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 8 فروری کو ہونے والے الیکشن تاریخ کے بدترین انتخابات تھے، حالیہ انتخابات کے نتائج روزِ اول سے واضح تھے، یہ اعلانات برملا کیے جارہے تھے کہ کون وزیراعظم ہوگا اور کس کو کیا ملے گا، صرف اے این پی نہیں پی ٹی آئی کے ان اہم رہنماؤں کو بھی ہروایا گیا جو وزارتِ اعلیٰ کے امیدوار سمجھے جاتے تھے۔ کٹھ پتلی وزیراعلیٰ لانے کے لیے تمام پارٹیوں کے سرکردہ رہنماؤں کو پارلیمان سے باہر رکھا گیا تاکہ بلوچستان جیسی کٹھ پتلی حکومت اور اسمبلی پختون خوا میں قائم کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ گونگوں، بہروں کو اسمبلی پہنچا دیا گیا تاکہ پختون خوا کے حقوق اور وسائل کے لیے کوئی بات نہ کرسکے۔ مضبوط آوازوں کو پارلیمان سے باہر رکھا گیا تاکہ ان وسائل پر مقتدرہ کا قبضہ قائم رہے۔
صوبے کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی توانا آوازوں کو خاموش کرنے سے متعلق ایمل ولی کے اس نقطہ نظر میں وزن کا اندازہ اگر ایک جانب محسن داوڑ جیسے سابق رکن قومی اسمبلی اور آئینی جدوجہد پر یقین رکھنے والے قوم پرست راہنما پر وزیرستان میں دھاندلی کے خلاف ان کے احتجاج پر براہِ راست فائرنگ کے واقعے سے لگایاجاسکتاہے جس کے نتیجے میں محسن داوڑ کے چار ساتھیوں کو شہید کیا گیااور وہ خود شدید زخمی ہیں،اسی طرح جماعت اسلامی کے سابق پارلیمانی لیڈر اور سابق سینئر وزیر عنایت اللہ خان جیسے مضبوط امیدوار کی شکست بھی اس بات کا پتا دیتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے پورے اہتمام اور منظم انداز میں انہیں بھی صوبائی اسمبلی سے باہر رکھ کر انہیں ان کی حق گوئی کی سزا دی ہے، جب کہ دوسری طرف پختون خوا میں کمپرومائزڈ آزاد امیدواروں کو جتوایا گیا ہے تاکہ اپنی مرضی کی کٹھ پتلی اسمبلی بنائی جاسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ 8 فروری کو ہونے والے انتخابات، انتخابات کم جبکہ سوداگری کا بازار زیادہ لگ رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پی کے 82 پشاور سے پی ٹی آئی امیدوار کو ہرواکر مدمقابل کو کروڑوں روپے کے عوض 7 ویں نمبر سے پہلے نمبر پر لایا گیا۔ حیات آباد سے چند کروڑ روپوں کے عوض ایک افغان شہری کو ایم پی اے بنایا گیا ہے۔ اسی طرح چارسدہ سے پی ٹی آئی کے ایک امیدوار نے صرف 4 ہزار ووٹ لیے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں ایک آزاد امیدوار نے 39 ہزار ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی ہے جسے کروڑوں روپے رشوت کا کرشمہ قرار دیا جارہا ہے۔ میڈیا میں یہ بات بھی زیرگردش ہے کہ پشاور سے پی ٹی آئی کے ایک سابق منحرف ایم این اے جنہوں نے اِس مرتبہ جمعیت(ف) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا ہے، کے 38 ہزار ووٹوں کو فارم 47 میں ایک لگاکر ایک لاکھ 38 ہزار بنایاگیا ہے۔ ملک میں جاری سیاسی بحران کے تناظر میں کسی کو یہ کہنے میں باک نہیں ہونا چاہیے کہ اسٹیبلشمنٹ کی نالائقی نے جہاں اس وقت الیکشن کمیشن اور عدلیہ سمیت پورے نظام کو عضوِ معطل بناکررکھ دیا ہے، وہاں ان کارستانیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی بھی ہورہی ہے۔