انتخابات 2024:عوامی مینڈیٹ پر قبضہ اور حکومت سازی کا کھیل

لکھے ہوئے اسکرپٹ کی شکست

عام انتخابات 2024ء میں وہی کچھ ہوا جو پہلے سے طے شدہ حکمت عملی کا حصہ تھا۔ اگرچہ عوامی مینڈیٹ نے پہلے سے لکھے ہوئے اسکرپٹ کو بری طرح شکست دی اور ظاہر کیا کہ پسِ پردہ معاملات کے مقابلے میں عوامی طاقت یا ووٹ کو ہی برتری حاصل ہوتی ہے۔ اس پورے کھیل میں چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کا کردار سب سے متنازع رہا، اور ہم نے پری پول رگنگ کے جو مناظر دیکھے اور پھر انتخابات کے دن نتائج جاری کرنے کے عمل میں الیکشن کمیشن کی نااہلی، نتائج میں تاخیر، الیکشن مینجمنٹ سسٹم کی ناکامی کے پہلو سامنے آئے اس نے پورے انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھادیے ہیں۔ رات دس بجے سے لے کر صبح اٹھ بجے تک الیکشن کمیشن کے سسٹم میں تعطل اور انتخابی نتائج جاری نہ کرنے کی حکمت عملی نے پہلے سے موجود ان شکوک و شبہات کو مزید بڑھا دیا کہ مسئلہ انتخابات کی شفافیت نہیں بلکہ سیاسی بنیادوں پر اپنی مرضی اور منشا کے مطابق نتائج جاری کرنا ہے۔ یہ الیکشن کمیشن کی نااہلی ہے کہ وہ ملک میں شفاف انتخابات کرانے کی یا تو صلاحیت نہیں رکھتا، یا اس کے سامنے سیاسی سمجھوتوں کی کہانی زیادہ بالادست ہے۔ ایسے میں اس الیکشن کمیشن کو کیسے جواب دہ بنایا جاسکتا ہے؟ یا الیکشن کے نام پر ملک میں جو کھیل کھیلا گیا اس کا کون ذمہ دار ہے؟ یہ سوال ضرور اٹھے گا اور اٹھنا چاہیے کہ رات تک جن امیدواروں کی برتری پچاس ہزار سے زیادہ ووٹوں کی تھی اسے کس کے کہنے پر تبدیل کیا گیا اور برتری کو اقلیت میں بدلا گیا؟ اس پورے انتخابی نظام میں صرف الیکشن کمیشن ہی نہیں بلکہ وفاقی اور صوبائی نگران حکومتیں، عدلیہ اور پسِ پردہ قوتیں… سبھی کھیل کا حصہ نظر آئے۔

بنیادی طور پر لوگوں نے تمام تر خدشات اور ڈر و خوف کے بغیر باہر نکل کر ووٹ ڈالے ہیں اور پی ٹی آئی یا عمران خان کو ڈالے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو ریاستی یا حکومتی سطح پر جو کچھ پی ٹی آئی مخالفت میں ہورہا تھا، قبول نہیں۔ ان انتخابات میں فارم 47کی بنیاد پر پی ٹی آئی کے لوگوں نے بطور آزاد امیدوار ایک کروڑ 88لاکھ، 64ہزار593 ووٹ حاصل کیے جو کہ کُل ووٹوں کا 33.22 فیصد بنتے ہیں، جبکہ مسلم لیگ(ن) کو تمام تر لیول پلیئنگ فیلڈ اور تمام تر سہولت کاری کے باوجود ایک کروڑ 37 لاکھ،54ہزار، 475ووٹ ملے جو کہ 24.22 فیصد، اور پیپلزپارٹی کو کُل 80 لاکھ48ہزار248 ووٹ ملے جو کہ14 فیصد بنتے ہیں۔ ’فافن‘ کی رپورٹ کے مطابق ٹرن آئوٹ48فیصد رہا ہے۔ اور یہ جو کہا جاتا تھا کہ عمران خان کے حامی سوشل میڈیا کے لوگ اور نئی نسل ہے جس کا عوامی سطح سے کوئی تعلق نہیں، اورنہ ہی یہ نوجوان ووٹ ڈالنے باہر نکلیں گے، نئی نسل نے اس سوچ و فکر کو بھی شکست دی ہے اور لگتا ہے کہ ہماری پرانی نسل کی سوچ و فکر اور پرانی سیاسی جماعتوں کی روایتی سیاست کو بھی ان انتخابات میں بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا اور نئی نسل نے انہیں مسترد کیا ہے۔ اسی طرح عام انتخابات کے نام پر بڑا سیاسی کھیل کراچی کی سطح پر کھیلا گیا جہاں عوامی مینڈیٹ کی برے طریقے سے توہین کی گئی۔ ایم کیو ایم کراچی میں سب سے کمزور پوزیشن پر تھی اور تمام تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ وہ دو، تین سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل نہیں کرسکے گی۔ کراچی کی سیاست پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے درمیان کھڑی ہے اور لوگ ان ہی دو جماعتوں کو ووٹ بھی دینا چاہتے تھے، لیکن جس انداز سے کراچی کی 17نشستیں ایم کیو ایم کی جھولی میں ڈالی گئیں اس عمل نے انتخابات کی شفافیت کو ہی ختم کردیا۔ انتخابات کے دن رات گیارہ بجے ایم کیوایم کا 18 نشستوں کی جیت کا دعویٰ ظاہر کرتا ہے کہ جو کچھ بھی کراچی میں ہوا وہ ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کا حصہ تھا۔ کراچی میں مینڈیٹ رکھنے والی دونوں جماعتوں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کو بے دخل کیا گیا اورکراچی کے لوگوں پر ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کو مسلط کیا گیا۔ ایم کیو ایم کو کراچی کی سیاست پر مسلط کرنے کا مقصد یہی ہے کہ کراچی کی سیاست کو ریموٹ کنٹرول کی مدد سے چلایا جائے تاکہ بوقتِ ضرورت یہ جماعت طاقت ور حلقوں کے مفادات کے حصول میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکے۔ کراچی کے انتخابی نتائج واقعی کراچی کے عوام کے مینڈیٹ کی توہین ہے اوراس طرز کے انتخابی نتائج کو بنیاد بنا کر ہم کراچی کی سیاست کو مزید نئی مشکلات میں ڈالیں گے۔ خود فنکشنل لیگ کے سربراہ پیر پگاڑا نے الزام لگایا ہے کہ سندھ کے دیہی حلقوں میں ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے تحت پیپلز پارٹی کو اور کراچی میں ایم کیو ایم کو جبر کے ذریعے مسلط کیا گیا ہے۔کراچی کی سیاست کو ایک بار پھر ماضی کی طرف لے جانا خود نئے خطرات کو جنم دے گا اور ٹکرائو کا نیا منظر پیدا ہوگا جو کسی بھی صورت میں کراچی کے مستقبل کے لیے درست فیصلہ نہیں ہوگا۔ اگرچہ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن انتخابات کی شفافیت کے دعوے کررہے ہیں، لیکن حالت یہ ہے کہ ملک میں بھی اور عالمی سطح پر بھی ہمارے انتخابات کی عدم شفافیت کے بارے میں جو کچھ کہا جارہا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ عالمی برادری بھی دیکھ رہی ہے کہ کس طریقے سے پاکستان میں عوامی مینڈیٹ کی توہین کی جارہی ہے۔ امریکہ سمیت کئی یورپی ممالک اور عالمی میڈیا میں یہ مطالبہ بھی کیا جارہا ہے کہ پاکستان میں ان انتخابات کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ سب حقائق سامنے آسکیں۔ پاکستان میں تو بعض سیاسی جماعتوں اور میڈیا میں چیف الیکشن کمشنر سے استعفے کا مطالبہ بھی کیاجارہا ہے، جبکہ مسئلہ اُن کے استعفے کا نہیں بلکہ اُن کو خود جواب دہ ہونا ہوگا اور بتانا ہوگا کہ انتخابی نتائج میں تاخیر کیوں ہوئی، اس کے پیچھے کیا حکمت عملی تھی اورکس کے کہنے یا دبائو میں آکر انتخابی نتائج میں ردوبدل کیا گیا؟ اگر واقعی شفافیت کے ساتھ آگے بڑھنا ہے تو اس کا ایک نکتہ الیکشن کمیشن کو جواب دہ بنانا ہے، وگرنہ ہم مستقبل میں بھی شفاف انتخابات کا منظر نہیں دیکھ سکیں گے۔

انتخابی نتائج سے ہٹ کر اب حکومت سازی نیا کھیل کا شروع ہوچکا ہے۔ منصوبہ سازوں نے پہلے سے طے شدہ کھیل کے تحت ہی مائنس پی ٹی آئی فارمولے کے تحت پی ڈی ایم پارٹ ٹو حکومت بنانے کا آغاز کردیا ہے۔ ایک بار پھر پی ڈی ایم سمیت پیپلزپارٹی کو تمام تر اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر اقتدار کے نئے رومانس کا حصہ بنایا جارہا ہے۔ کل تک انتخابی مہم میں پیپلزپارٹی کے بلاول بھٹو مسلم لیگ (ن) اور شریف خاندان پر شدید تنقید کررہے تھے، اب ان کو دوبارہ پرانی تنخواہ پر کام کرنے کا کہہ دیا گیا ہے کہ وہ اسی شریف خاندان کے ساتھ مل کر اقتدار میں حصے دار بن جائیں۔ اگر اس اسمبلی کو آگے چلانا ہے تو یہی واحد آپشن ہے کہ مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی مل کر حکومت تشکیل دیں، کیونکہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر یہ اسمبلی کیسے آگے بڑھ سکے گی! ایک کھیل یہ بھی تھا کہ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی مل کر حکومت کی تشکیل کو یقینی بنائیں، مگر اوّل تو پی ٹی آئی اس کے حق میں نہیں، اور دوئم فیصلہ ساز بھی ایسا کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ اس لیے حزبِ اختلاف میں ہی بیٹھنا پی ٹی آئی کے حق میں ہوگا۔ اس وقت مرکز، پنجاب اور بلوچستان میں حکومت سازی کے لیے تین فارمولے گردش کررہے ہیں۔ اول یہی فارمولہ ہے کہ مرکز میں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور دیگر اتحادی جماعتوں پر مشتمل مخلوط حکومت بنائی جائے اور اس کی قیادت ایک بار پھر شہبازشریف کو دی جائے۔ کیونکہ جو مینڈیٹ مسلم لیگ (ن) کو ملا ہے اس میں نوازشریف کی قبولیت آسان نہیں ہوگی۔ پہلے بھی ان ہی صفحات پر لکھا تھا کہ انتخابات کے بعد نوازشریف نہیں بلکہ شہبازشریف ہی وزارتِ عظمیٰ کے لیے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ہوں گے۔ اس کھیل کی بنیاد پر پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) اسے بلوچستان کی صوبائی حکومت، چیئرمین سینیٹ اور صدر کے عہدے سمیت اہم وزارتیں دے۔ اس پر اگر مسلم لیگ (ن) راضی ہوتی ہے تو وہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی مریم نواز کو بطور وزیراعلیٰ قبول کرلے گی۔ اس فارمولے کے تحت مرکز میں شہبازشریف وزیراعظم اور پنجاب میں مریم نواز وزیراعلیٰ ہوں گی۔دوسرا فارمولہ یہ ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) مرکز میں پیپلزپارٹی کی حمایت کریں تو ایسی صورت میں بلاول بھٹو وزیراعظم کے امیدوار ہوں گے اور بلوچستان کی صوبائی حکومت بھی ان ہی کی ہوگی۔ اس طرح چیئرمین سینیٹ اور صدر کے عہدے سے پیپلزپارٹی دست بردار ہوجائے گی۔ تیسرے فارمولے کے تحت پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کی حکومت ہوگی اور مسلم لیگ (ن) اپوزیشن میں ہوگی، مگر اس کے امکانات بہت کم ہیں۔ ایک فارمولہ یہ بھی ہے کہ اگر مرکز میں شہبازشریف وزیراعظم ہوتے ہیں تو پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ضرور ہوگی مگر وزیراعلیٰ کا انتخاب شریف خاندان سے نہیں ہوگا بلکہ ایسے فرد کو نامزد کیا جائے گا جس کو ’’اوپر والوں‘‘ کی خصوصی حمایت حاصل ہوگی۔ ایک تجویز یہ بھی دی جارہی ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں آدھی آدھی مدت کے لیے وزارتِ عظمیٰ لے لیں۔ یہ شاید ممکن نہیں، مگر اس پر ایک لطیفہ ہے کہ ایک جماعت کو صبح کا اور دوسری جماعت کو شام کا وزیراعظم بنادیا جائے تاکہ مسئلے کا حل نکل آئے۔ البتہ یہ بات طے ہے کہ جو بھی حکومت بنے گی وہ مخلوط بھی ہوگی اور کمزور بھی ہوگی، جس کے پاس بہت زیادہ اختیارات نہیں ہوں گے۔ ویسے بھی معیشت سے جڑے معاملات پر جو کونسل بنائی گئی ہے اور اس کا جو ڈھانچہ ہے جس میں اعلیٰ فوجی قیادت بھی شامل ہے، اس کی موجودگی میں سیاسی حکومت کی پوزیشن واقعی کمزور ہوگی۔ ایسا لگتا ہے کہ اگلا حکومتی نظام ایک مکمل کنٹرولڈ اور ہائبرڈ نظام ہوگا، جس میں سیاسی قوتوں کے پاس کوئی زیادہ آپشن نہیں ہوں گے اور بہت جلد اس نظام کے بارے میں ان کے تحفظات بھی سامنے آجائیں گے۔ اس نئی حکومت میں ممکن ہے مسلم لیگ (ن) کو برتری حاصل ہو، مگر یہ مسلم لیگ (ن) کو کمزور کرے گی۔ ویسے بھی ان انتخابات میں مسلم لیگ کی(ن) سیاسی پوزیشن اور زیادہ کمزور ہوگئی ہے، اور جہاں بھی مسلم لیگ (ن) مزاحمت کرے گی وہاں اس کی مزاحمت کو روکنے کا کافی حد تک بندوبست ہوگیا ہے، اورامکان نہیں کہ شریف خاندان نئے حکومتی کھیل میں کوئی بڑی رکاوٹ پیدا کرسکے گا۔ مسلم لیگ (ن) کو یقین تھا کہ وہ ان انتخابات میں کم ازکم 110نشستوں پر آسانی سے کامیابی حاصل کرلے گی اور زیادہ پابندیوں کی موجودگی اور اسٹیبلشمنٹ سے دوری کے نتیجے میں پی ٹی آئی بطور جماعت کچھ بھی نہیں کرسکے گی۔ لیکن انھی صفحات پر لکھا جاچکا ہے کہ یہ بھی کھیل کا ہی حصہ تھا اور جو زمینی حقائق تھے ان سے بھی یہی ظاہر ہوتا تھا کہ مسلم لیگ (ن) ان انتخابات میں 70سے 80 نشستیں ہی حاصل کرسکے گی، اور ان میں سے بہت سی نشستیں سہولت کاری کی بنیاد پر ہی ملیں گی۔ اگر فارم 45کی بنیاد پر نتائج کا جائزہ لیں تو مسلم لیگ (ن) کی نشستیں 25سے30 ہی بنتی تھیں، لیکن عمران خان دشمنی کے ایجنڈے کے تحت شریف خاندان کی سیاست کو ہی طاقت دینا تھی اور ان کو ہی متبادل کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) حکومت تو بنانے جارہی ہے مگر سیاسی اور اخلاقی طور پر اس کی سیاسی پوزیشن کمزور ہے، اور کمزوری کی بنیاد پر ملنے والی حکومت اسے آنے والے دنوں میں مزید کمزور کردے گی۔ ابھی حکومت بنی نہیں ہے مگر سیاسی پنڈت پہلے سے کہہ رہے ہیں کہ یہ کمپنی چلنے والی نہیں، اوربہت جلد یہ نئی کمپنی نہ صرف اپنے لیے نئی مشکلات پیدا کرے گی بلکہ اس ریاستی نظام کو بھی نقصان پہنچائے گی۔