صدرفیلڈ مارشل محمد ایوب خان صاحب نے ایک روز گورنر ہائوس لاہور میں مولانا مودودی کو ملاقات کی دعوت دی۔ کچھ دیر تبادلۂ خیالات کے بعد، مشفقانہ انداز میں ایوب خان صاحب نے فرمایا: ’مولانا، یہ سیاست تو بڑا گندا کام ہے، آپ جیسے بلند کردار اور پاکیزہ نفس لوگ اس میں کیوں پڑگئے ہیں؟ آپ اسے چھوڑ دیں اور ملک کے اندر بھی اور دُنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اسلام کی تبلیغ فرمائیں اور خلقِ خدا کی اصلاح کریں۔ سیاست، سیاسی لوگوں کو کرنے دیں، کیونکہ اس دلدل میں جو بھی قدم رکھے گا کیچڑ سے لت پت ہوگا۔ آپ مذہب کا اور تبلیغ کا کام کریں تو ہماری حکومت آپ سے تعاون کرے گی‘۔
مولانا مودودی نے جنرل ایوب صاحب کو جواب میں فرمایا: ’جنرل صاحب، آپ ٹھیک ہی فرماتے ہیں کہ اس وقت سیاست کو غلط کار اور خوفِ خدا سے عاری لوگوں نے ایک گندا کھیل بنادیا ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ حکومت کی خرابی تمام خرابیوں کی جڑ ہے، اور اسی خرابی نے ہماری زندگی کے ہر دوسرے شعبے کو فلتھ ڈپو (گندگی کا مرکز) بنادیا ہے۔ اس لیے جب تک سیاست کو گندگی سے پاک نہیں کیا جائے گا، زندگی کے کسی شعبے کو بھی درست اور صحت مند نہیں بنایا جاسکے گا۔ اجتماعی نظامِ زندگی سے اس گندگی کو دُور کرنے کی کوشش ہمارے نزدیک کوئی سیاسی کام نہیں بلکہ یہ سراسر ایک دینی فریضہ ہے‘۔
ایوب خان صاحب نے فرمایا: ’مولانا، پھر یہ کام کرتے ہوئے تو آپ اپنے کو غلاظت سے آلودہ ہونے سے نہیں بچاسکتے‘۔
مولانا مودودی نے جواب دیا: ’اس میں کیا شک ہے کہ جو شخص بھی غلاظت اور سیوریج صاف کرنے کا کام کرے گا، وہ چاہے کتنی ہی احتیاط برتے، کچھ نہ کچھ چھینٹے تو اس کے کپڑوں پر ضرور پڑیں گے۔ لیکن اگر اس خوف سے سیوریج صاف ہی نہ کیا جائے تو پھر لامحالہ سارے شہر کی صحت خطرے میں پڑ جاتی ہے‘ [میاں طفیل محمد، مشاہدات، ص ۳۲۲، ۳۲۳]۔ ذرا زچ ہوکر ایوب صاحب نے کہا:’آج تک یہ بات میری سمجھ میں نہیں آرہی، کہ سیاست کا اسلام سے کیا تعلق ہے؟‘مولانا نے برملا کہا: ’جنرل صاحب، یہ تو صرف آپ کی سمجھ میں نہیں آرہا، مگر دوسری طرف پوری قوم کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ فوج کا سیاست سے کیا تعلق ہے؟‘ اور اس کے بعد دونوں میں گفتگو ختم ہوگئی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ہرمصلح کو اسی نوع کے اعتراضات کی بوچھاڑ کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے قوم سے کہا:’جھوٹے خدائوں کو چھوڑ کر سچے خدا کی عبادت کریں اور اپنے مال سے اپنے معذور اور نادار بھائیوں کی مدد کریں‘ تو انھوں نے پلٹ کر کہا: ’کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ تو ہمارے عقائد میں دخل دے اور ہم کو اپنے مال و دولت کے خرچ کے طریقے بتائے؟‘
حضر ت شعیب علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ’’میں تو تمھاری اصلاح کرنا چاہتا ہوں، جہاں تک بھی میرا بس چلے‘‘۔
اللہ کے نیک بندے سیاست میں اس مقصد کے لیے داخل ہوتے ہیں اور اسی مقصد کو لے کر جماعت اسلامی سیاست میں گئی۔ وہ اقتدار کے لیے نہیں بلکہ اصلاح کے لیے سیاست میں داخل ہوئی۔ بلاشبہہ اس میدان کو اہل ہوس نے بدنام کردیا ہے، لیکن مولانا رومؒ کے بقول:
کار پاکاں را قیاس ازخود مگیر
گرچہ باشد در نوشتن شیر شِیر
پاکیزہ لوگوں کو اپنے اُمورپر قیاس مت کرو۔ شیر اور شِیر لکھنے میں ایک ہیں، لیکن معنی میں ان کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے۔ شیر پھاڑنے والا درندہ ہے، جب کہ شِیر (دودھ) حیات بخش غذا ہے۔
کسی دینی اور اصولی جماعت کا سیاست میں آنا اہل دنیا کے لیے ہمیشہ سے تعجب کا سبب رہا ہے۔ ایک انٹرویو نگار نے مولانا مودودی سے دریافت کیا: ’آپ نے سیاست کیوں اختیار کی؟‘ مولانا نے جواب میں فرمایا:
کیا سیاست بھی کوئی پیشہ ہے جسے اختیار کیا جائے؟ دراصل سیاست کو لوگوں نے آج کل اُوپر چڑھنے کا زینہ اور شہرت کا ہتھکنڈا بنالیا ہے۔ میں نے سیاست اختیار نہیں کی۔ جو لوگ اپنا کوئی مقصد ِ زندگی رکھتے ہیں، وہ اجتماعی زندگی کے معاملات میں کچھ اختیار کرکے دل چسپی نہیں لیا کرتے بلکہ ان کے مقصد کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلے میں دلچسپی لیں، جس کا اثر ان کے مقصد پر موافق یا مخالف پڑتا ہومیں نے جب اسلام کو شعوری طور پر قبول کیا، تو اس طرح لامحالہ میری زندگی کا یہ مقصد بن گیا کہ میں اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے لیے کوشش کروں اور پھر اس نشاتِ ثانیہ کے لیے جس جس پہلو میں بھی کام کرنے کی ضرورت پیش آتی گئی، اس کی طرف عین اپنے مقصد کے تقاضے سے توجہ کرتا چلا گیا۔ اس کے لیے یہ بھی ضرورت تھی کہ اسلام کو غالب کرنے کی راہ میں جوجو طاقتیں مزاحم ہیں، ان کی مزاحمت کو دُور کیا جائے۔یوں آپ سے آپ اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوئوں کی طرف توجہ کرنی پڑی،بغیر اس کے کہ کسی روز بیٹھ کر یہ ارادہ کرتا کہ مجھے فلاں چیز اختیار کرنی چاہیے۔
[انٹرویو نگار، علی سفیان آفاقی، ہفت روزہ اقدام، لاہور، اکتوبر ۱۹۵۳ء]سیاست کی گندگی اور جماعت اسلامی،چودھری غلام جیلانی | ترجمان القرآن اکتوبر ۲۰۲۳ |ٗ
مشرق و مغرب
یہاں مرض کا سبب ہے غلامی و تقلید
وہاں مرض کا سبب ہے نظام جمہوری!
نہ مشرق اس سے بری ہے، نہ مغرب اس سے بری
جہاں میں عام ہے قلب و نظر کی رنجوری!