اِلٰہ آباد (بھارت) سے تعلق رکھنے والے ممتاز ماہر لسانیات پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم نے نوی ممبئی (بھارت) سے تعلق رکھنے والے ماہرِ زبان جناب نادر خان سرگروہ کی، گزشتہ جمعے کے کالم میں شائع ہونے والی، رائے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنا تبصرہ ارسال فرمایا ہے:
’’نادر خان سرگروہ صاحب کا یہ فرمانا درست نہیں ہے کہ لفظ ’نو‘ اصلاً سنسکرت کا ہے۔ ماہرین اشتقاقیات اس کو اصلاً پروٹو اِنڈو یورپین (PIE) کا بتاتے ہیں۔ یعنی اِس کا وجود اُس زبان میں تھا جس سے ہند، ایران اور یورپ کی تمام قدیم زبانیں نکلی ہیں۔ ’نو‘ کی شکلیں یونانی، لاطینی، روسی، فارسی، سنسکرت اور حیثی (Hittite) اور ان سے مشتق تمام جدید زبانوں میں موجود ہیں۔ ہم کسی لفظ کو اصلاً سنسکرت کا تب تسلیم کرتے ہیں جب یا تو سنسکرت سے پہلے اس کا وجود ثابت نہ ہو، یا سنسکرت سے نسبتاً نئی زبان میں اس کا جانا سمجھ میں آئے۔ سنسکرت پرانی فارسی کے مقابلے میں لازماً قدیم تر ہو، ایسا تو ہے نہیں‘‘۔
ڈاکٹر صاحب کی بات دل کو لگتی ہے۔ ’’ابتدائی ہند یورپی ہجرت‘‘ سے جو زبانیں وجود میں آئی ہیں ان میں بہت سے الفاظ مشترک یا مماثل ہیں۔ ’نو‘ بھی اُنھیں میں سے ایک ہوگا۔ لوگوں نے ہجرت کی تو اُن کے ساتھ اُن کے الفاظ نے بھی ہجرت کی۔ ہند یورپی زبانیں ’مادر پدر آزاد‘ نہیں تھیں۔ مادر، مدر، مُوٹر، ماں اور ماتا وغیرہ میں صوتی ہم آہنگی ہے۔ یہی ہم آہنگی فادر، فاٹر، پدر، پِتا، پاسٹر اور پادری وغیرہ میں بھی مل جائے گی۔ اسی طرح عربی میں ایک لفظ ہے ’سَرِی‘ جس کا مطلب ہے ’صاحبِ شرف‘۔ یہی لفظ سنسکرت اور ہندی میں ’شری‘ ہے، فارسی میں ’سردار‘ اور انگریزی میں ‘Sir’ یا ‘Sire’۔ ماہرین اشتقاقیات نے مشترک الفاظ کی ایک طویل فہرست بنا رکھی ہے۔
انسانِ اوّل کی تخلیق کے مراحل اور پہلے انسان کے ’ہبوط‘ (آسمان سے زمین پر نزول) کا مستند ترین علم ہمیں قرآنِ مبین سے ملتا ہے۔ باقی باتیں ظن، قیاس، گمان اور تخیل کا شاہکار ہیں۔ سیدنا آدم علیہ السلام ’علم الاسما‘ سے بہرہ مند ہوکر زمین پر اُترے تھے۔ انھیں وحیِ الٰہی کی رہنمائی بھی حاصل تھی۔ زمین پر زندگی کا آغاز علم کے بغیر نہیں ہوا۔ متبحر عالِمِ لسانیات و اشتقاقیات مولانا ابوالجلال ندوی لکھتے ہیں:
’’دیلمی نے مسندِ فردوس میں روایت کیا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری امت مجھے آب و گِل کی حالت میں دکھائی گئی اور آدم علیہ السلام کی طرح اس کو بھی تمام اسما کی تعلیم دی گئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدا نے الہامِ طبعی کے ذریعے سے انسان کو بولنا سکھایا، یعنی ہمارے جبلی خصائص اورفطری قویٰ میں سے بعض ایسے ہیں جن کے ماتحت ہم کو فطرتاً بولنا آیا اورجن نوامیسِ فطرت کے ماتحت ہم اپنی زبانیں سیکھتے ہیں ان ہی کے ماتحت دنیا کی پہلی آبادی نے بھی بولنا شروع کیا‘‘۔ (اعلام القرآن۔ ص: 75)
نسلِ انسانی کے آغاز پرآدم ؑ کے بیٹوں کی زبان ایک ہی تھی۔ جوں جوں شعوب وقبائل بنتے گئے، زمان و مکان کا فرق بڑھتا گیا اور دور دراز خطوں تک جا جاکر بستیاں بسانے والے بنی آدم کے مابین طویل جغرافیائی فاصلوں نے جنم لیا… لہجے، تلفظ اور الفاظ کی شکلیں بدلتی گئیں۔ مختلف خطوں اور مختلف نسلوں کی زبانوں میں ارتقا کی رفتار بھی مختلف رہی۔ ابتدائی حروفِ ابجد (ا ب ج د) جوعبرانی میں آلف، بیت، گیمل اور دالِت ہیں، جب یونان پہنچے تو وہاں الفا، بِیٹا، گمّا اور ڈیلٹا (Alpha,Beta,Gamma,Delta,)ہو گئے۔
علم الاشتقاق ہمارے ان کالموں کا موضوع نہیں۔ یہ خشک خیالات تو برسبیلِ تذکرہ طبع ہوگئے۔ ہمارا موضوع تو اُردو زبان کی بوقلمونیاں ہیں۔’بوقلمونیاں‘ کا لفظ سنتے ہی انگشتِ شہادت اور انگوٹھے کی مدد سے نتھنے بند کر کے بھاگنے نہ لگیے گا۔رُکیے۔ بوقلموں فارسی لفظ ہے۔ اصلاً یہ ایک قسم کا نفیس زربافت ریشمی کپڑا ہے جو ہر آن اپنا رنگ بدلتا رہتا ہے۔ اسے ’دیبائے رومی‘ بھی کہتے ہیں۔ہر لحظہ رنگ بدلنے کی وجہ سے گرگٹ کے لیے بھی بولاجاتا ہے۔منشور (Prism) سورج کی شعاع کو سات رنگوں میں بانٹ کر بکھیر دیتا ہے۔ ان دھاریوں کاسائنسی نام ’طیف‘ ہے۔ اس کو بھی بوقلمون کہا جاتا ہے۔ بچوں کے کھیلنے کو ایک نلکی میں کئی رنگوں کے شیشے کے ٹکڑے بھر دیے جاتے ہیں۔ اس نلکی کو گھمانے پھرانے سے مختلف رنگوں کی نت نئی شکلیں بنتی رہتی ہیں۔ یہ بھی بوقلمون ہے۔غرض، رنگا رنگی اور نیرنگی کو بوقلمونی کہتے ہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والی افسانہ نگار اور اُردو کی معلمہ محترمہ عطیہ یوسف نے سوال کیا ہے:’’بارے اورطور کا استعمال کیسے ہوتا ہے؟ اس بارے کیا خیال ہے؟ یا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ یہ چیز اس طور استعمال ہوتی ہے یا یہ چیز اس طور پر استعمال ہوتی ہے؟‘‘
’بارے‘ کے کئی معانی ہیں:ایک بار یا ایک مرتبہ، تاہم، پھر بھی، خیر، آخر کار، بالآخر، الغرض یا غرضے کہ۔ایک بار یا ایک مرتبہ کے معنوں میں ہمارے اس کالم کے عنوان کی طرح اکثر نثری یا منظوم تخلیقات کو عنوان دیا جاتا ہے، جیسے غالبؔ نے’’ مثنوی در صفت انبہ‘‘ لکھتے ہوئے کہا: ’’بارے، آموں کا کچھ بیاں ہوجائے‘‘۔دوسرے معنوں کو سمجھنے کے لیے میرؔ کی یہ نصیحت یاد رکھیے:
بارے دنیا میں رہو، غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
غالبؔ نے اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئے آخر کار’ اُن‘ کے پاسبان سے اپنی واقفیت نکال ہی لی:
دے وہ جس قدر ذلت ہم ہنسی میں ٹالیں گے
بارے آشنا نکلا، اُن کا پاسباں، اپنا
آپ نے جس استعمال کے ’بارے میں‘ پوچھا ہے وہاں ’بارے‘ کا مطلب ہے تعلق، باب یا واسطہ۔ جب کسی ’کے متعلق‘ یا کسی موضوع کے باب میںکچھ کہنا ہو تو ایسے موقعے پر اہلِ زبان ’کے بارے میں‘ استعمال کرتے ہیں۔جیسے آشفتہؔ نے کہا:
ہمارے بارے میں کیا کیا نہ کچھ کہا ہو گا
چلیں گے ساتھ تو دنیا کا سامنا ہو گا
یا جیسے جمیل نظرؔ بیٹھے بیٹھے عشق کی اس منزل پر پہنچ گئے کہ
اپنے بارے میں جب بھی سوچا ہے
اُس کا چہرہ نظر میں اُبھرا ہے
لفظ ’طور‘ بھی کثیر المعانی ہے۔ اس کا مطلب ہے طریقہ، انداز، ڈھنگ،کیفیت، حالت،طرز، روش وغیرہ وغیرہ۔آبادؔ کہتے ہیں:
خاتمہ تجھ پہ ہے اے یار جفا کاری کا
سیکھ لے تجھ سے کوئی طور دل آزاری کا
لیکن جب ’طریقے سے‘ یا ’ڈھنگ سے‘ یا ’انداز سے‘ کے معنوں میں استعمال کرنا ہو تو فصحا کے نزدیک صرف ’طور‘ ہی استعمال ہونا چاہیے اس کے ساتھ کوئی حرفِ ربط نہیں لگانا چاہیے۔ ’طورسے‘یا ’طور پر‘ کہنا فصاحت کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔میرؔ کہتے ہیں:
ہماری تو گزری اسی طور عمر
یہی نالہ کرنا یہی زاریاں
جب کہ داغؔ اپنی حالت یوں بیان کرتے ہیں:
خاک میں آہ ملا کر ہمیں کیا پوچھتے ہو
خیر جس طور ہیں، ہم خاک نشیں اچھے ہیں