غزہ کی مزاحمت:امریکہ، یورپ اور اسرائیل حماس سے نجات پانے کی فکر

(آٹھویں قسط)

خالد مشعل نے 2006ء میں سابق امریکی صدر جمی کارٹر سے کہا کہ حماس ایسے کسی بھی معاہدے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے جو اسرائیلی حکام اور تنظیمِ آزادیِ فلسطین (پی ایل او) کے درمیان طے پائے تاہم شرط یہ ہے کہ یہ معاہدہ یا تو ریفرنڈم کے ذریعے فلسطینیوں کو قبول ہو یا پھر جمہوری طریقے سے منتخب حکومت اس کی منظوری دے۔ مگر اسرائیل کی مرکزی خفیہ ایجنسی موساد کے سابق سربراہ افرائیم لیوی نے 2008ء میں کہا کہ حماس کے صہیونیت مخالف منشور کا کیا کیا جائے؟ آپریشن کاسٹ لیڈ سے پہلے بھی اسرائیلی قیادت کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ لڑائی اور تباہی کے بعد بھی سفارت کے ذریعے حماس سے کوئی معاہدہ طے پاسکتا ہے۔ اسرائیلی قیادت ایسے کسی بھی معاہدے کے لیے حماس کے صہیونیت مخالف منشور کے باوجود تیار تھی۔ حماس کو یہ بھی اندازہ ہے کہ وہ اپنے نظریاتی اہداف کو حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں، اور ابھی دور تک اس کا امکان بھی دکھائی نہیں دیتا۔ وہ کسی بھی طور عارضی سرحدوں کی حدود میں بھی فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے تیار ہیں اور انہیں یہ بھی اندازہ ہے کہ اگر ایک بار ان کے تعاون سے فلسطینی ریاست قائم ہوگئی تو پھر ان کے لیے اپنے نظریاتی ہدف سے دور جانا بہت حد تک ممکن ہوجائے گا۔

فلسطینی قیادت کی حقیقت پسندی نے اسرائیلی قیادت کو حملے کے فیصلے کے حوالے سے رائے بدلنے پر مجبور کیا۔ جون 2008ء میں اسرائیلی قیادت نے بالآخر یہ سب کچھ تسلیم کر ہی لیا۔ اسرائیل کی ایک سرکاری دستاویز میں یہ مذکور ہے کہ حماس نے جنگ بندی پر محض رضامندی ہی ظاہر نہیں کی بلکہ اُس پر قائم بھی رہی جبکہ اُسے معلوم تھا کہ اسرائیلی قیادت کی نیت کچھ اور ہے اور وہ غزہ کے معاملے میں ذرا بھی لچک دکھانے کو تیار نہیں۔ اسرائیلی دستاویز میں یہ بھی درج ہے کہ فلسطینیوں کے دیگر عسکریت پسند گروپوں کو حماس کا اسرائیل سے یوں جنگ بندی پر متفق ہونا اچھا نہیں لگا اور انہوں نے اسرائیلی اہداف کو راکٹوں اور مارٹر گولوں سے نشانہ بنانے کا عمل جاری رکھا۔ اسرائیلی دستاویز میں تسلیم کیا گیا کہ اس دوران حماس نے اسرائیل پر حملہ کرنے والے فلسطینی عسکریت پسند گروپوں کو ایسا کرنے سے باز رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ حماس نے اپنی ساکھ بہتر بنائی اور یوں اُسے مذاکرات کے لیے ایک اچھے پارٹنر کے طور پر قبول کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔ ایک طرف تو حماس نے دو ریاستوں کا نظریہ قبول کیا اور دوسری طرف جنگ بندی کے حوالے سے خاصا قابلِ تعریف رویہ اپنایا۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل کو سفارت کاری کے محاذ پر دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کیا۔

حماس کی حکمتِ عملی یہ تھی کہ اسرائیل کو فلسطینی علاقوں بالخصوص غزہ پر حملوں سے روکا جائے تاکہ فلسطینیوں کا وسیع جانی و مالی نقصان نہ ہو۔ غزہ کے محاصرے کے باعث عام فلسطینی کی زندگی محض دشواریوں اور بحرانوں کی داستان ہوکر رہ گئی تھی۔ ایسے میں ناگزیر تھا کہ اُن کے مجموعی مفاد کے بارے میں سوچا جائے۔ حماس کی قیادت نے مزید تصادم روکنے کی بھرپور کوشش کی تاکہ عام فلسطینی کو اپنے معاملات بحال کرنے کا موقع ملے اور وہ قدرے سکون سے زندگی بسر کرسکے۔

حماس کی طرف سے غیر معمولی لچک دکھائے جانے کے بعد اسرائیلی قیادت کے پاس پیچھے ہٹنے کے سوا راستہ نہ بچا۔ اگر وہ فلسطینی علاقوں کو نشانہ بنانے کا عمل جاری رکھتی تو عالمی رائے عامہ مکمل طور پر اس کے خلاف ہوجاتی۔

اسرائیلی قیادت کے لیے فلسطینیوں سے مذاکرات پر آمادہ ہونا اس لیے بھی ناگزیر تھا کہ یورپی طاقتوں نے فلسطینی قیادت سے گفت و شنید کا سلسلہ بحال کرنے پر رضامندی ظاہر کردی تھی۔ یورپ چاہتا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں بحران کی وہ کیفیت نہ رہے جو اب تک رہی ہے۔ یورپ کے بیشتر قائدین کی خواہش تھی کہ اسرائیلی قیادت اور حماس سمیت تمام فلسطینی قائدین کو مذاکرات کی میز پر لاکر معاملات کو درست کرنے کی سمت روانہ کیا جائے۔

یورپ کی طرف سے لچک کا مظاہرہ کیے جانے سے بھی اسرائیلی قیادت پر حماس سے بات چیت کے لیے دباؤ بڑھا۔ یوں فلسطینی علاقوں میں حقیقی قیامِ امن کی طرف اہم پیش رفت کی راہ تھوڑی سی ہموار ہوئی۔

امریکہ میں بھی قیادت کی تبدیلی رونما ہونے والی تھی۔ اس بات کا امکان بھی تھا کہ نئی امریکی قیادت فلسطین کا مسئلہ پائیدار بنیاد پر حل کرنے کے لیے اہم اقدامات کرنا چاہے گی۔ یہ گویا اسرائیلی قیادت کی سوچ کے لیے ایک اور تازیانہ تھا۔ اب اُس کے پاس مذاکرات کی میز پر آنے کے سوا کوئی راہ نہ بچی۔ اس بات کا قوی امکان موجود تھا کہ امریکہ میں آنے والی نئی قیادت ایران اور حماس سے بات چیت کو ترجیح دے گی۔ یہ سب کچھ اسرائیلی قیادت کے لیے انتہائی حیرت انگیز اور پریشان کن تھا۔ وہ جو کچھ بھی سوچ کر بیٹھی اب سب کچھ اُس کے برعکس ہورہا تھا۔

یروشلم میں قائم ’دی جیوئش پیپل پبلک پالیسی انسٹی ٹیوٹ‘ کے سربراہ ڈینس راس نے 2008ء میں معاملات پر نظرِثانی کے بعد کہا کہ امریکہ میں آنے والی نئی قیادت ممکنہ طور پر مشرقِ وسطیٰ کی پوری صورتِ حال کا نئے سرے سے جائزہ لے گی اور اس کے نتیجے میں ایسا بہت کچھ کرنا چاہے گی جو اسرائیل کی امنگوں کے مطابق نہ ہوگا۔ ڈینس راس کے مطابق اس بات کا قوی امکان تھا کہ نئی امریکی قیادت مشرقِ وسطیٰ میں وسیع اور جامع بنیادوں پر مسائل کے دیرپا حل کی تلاش میں بہت آگے بڑھے۔ ایران کے ایشو کو طے کرنے کی سمت بڑھنا اس اعتبار سے بہت اہم ہوگا کہ یوں مشرقِ وسطیٰ کے معاملات کی درستی کی راہ ہموار ہوگی۔ اگر نئی امریکی قیادت نے ایسا کچھ سوچا تو پھر عرب اسرائیل تنازعے کے حوالے سے بھی انقلابی نوعیت کی سوچ اپنائے بغیر چارہ نہ ہوگا۔

لبنان میں حزب اللہ ملیشیا کے سربراہ حسن نصراللہ نے کہا کہ نئی امریکی قیادت ممکنہ طور پر ایک بین الاقوامی کانفرنس طلب کرسکتی ہے جس میں امریکہ، اسرائیل، یورپ اور عرب دنیا کے نام نہاد اعتدال پسند عناصر مل کر طے کریں کہ اب فلسطین کا مسئلہ کس طور حل کرنا ہے۔ حسن نصراللہ کے الفاظ میں فلسطینی علاقوں میں اسلام نوازوں کی حکومت اسرائیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ امریکہ، یورپ اور اسرائیل تینوں کو حماس کی حکومت سے نجات پانے کی فکر لاحق تھی۔

اسرائیلی قیادت پر اس حوالے سے غیر معمولی دباؤ تھا۔ حماس کے بارے میں جو غلط باتیں پھیلائی گئی تھیں اب اُن کی قلعی اُتر گئی تھی اور اُس کی شناخت ایک ایسی تنظیم کے طور پر قائم ہورہی تھی جو کسی بھی طرح کے حالات میں مفاہمت کے لیے تیار رہتی تھی۔ یہ سب کچھ اسرائیلی قیادت کے لیے سوہانِ روح تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ کسی نہ کسی طور حماس کو حملوں پر اُکسایا جائے۔ اگر حماس کی طرف سے حملے بالکل رُک جائیں تو اُس سے مذاکرات ناگزیر ہوجائیں گے۔ اسرائیلی قیادت کی خواہش تھی کہ حماس کی شناخت تبدیل نہ ہو، اُس کی ساکھ بہتر نہ ہو۔ اسرائیل چاہتا تھا کہ کسی نہ کسی طور حماس دوبارہ حملے شروع کرے، کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں وہ مذاکرات کی میز پر لائے جانے کے قابل نہ رہے گی۔ اسرائیلی قیادت حماس کو مذاکرات کی میز پر دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔

اسرائیل کے لیے یہ بہت بڑا بحران تھا۔ وہ پہلی بار ایسی صورتِ حال سے دوچار ہوا تھا جس سے بچ نکلنے کا آپشن اُسے دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ حماس نے دو ریاستوں کا حل قبول کیا تھا، جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پہلی بار اسرائیل کو بلا اشتعال جنگ پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ ایسا کیے بغیر اسرائیلی قیادت کے پاس وقت لینے کا کوئی اور آپشن بھی تو نہیں تھا۔ اسرائیلی اسکالرز کے بیان کے مطابق فلسطینیوں کی طرف سے دو ریاستوں کے تصور کو پہلی بار عرب دنیا میں شاندار قبولیت ملی تھی۔ اِس سے قبل کوئی بھی اسرائیل کے وجود کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ پی ایل او نے (جو لبنان میں صدر دفتر کی حامل تھی) 1981ء میں اسرائیل سے جنگ بندی کا جو معاہدہ کیا تھا اُس پر قائم تھی۔ سعودی عرب نے 1981ء میں دو ریاستوں کی قبولیت کا تصور پیش کیا اور اسے بعد میں عرب لیگ نے قبولیت بخشی۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے اسرائیل نے 1981ء کے اواخر میں پی ایل او کو ختم کرنے کی منصوبہ سازی کی۔ اس کے لیے 1982ء میں لبنان پر حملے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات نے صہیونی ریاست سے مفاہمت کے حوالے سے غیر معمولی لچک دکھائی تھی، مگر اس کے باوجود اسرائیل میں اُن کے لیے زیادہ قبولیت نہ تھی۔ 1967ء سے تب تک کی ہر اسرائیلی کابینہ نے فلسطینی ریاست کے قیام کا حق تسلیم کرنے سے یکسر انکار کیا تھا۔

اسرائیلی قیادت اچھی طرح جانتی تھی کہ دو ریاستوں کا نظریہ قبول کرنے کے حوالے سے اُس پر غیر معمولی دباؤ مرتب ہوتا رہے گا۔ اس کا حل یہ تلاش کیا گیا کہ پی ایل او کو ختم کردیا جائے تاکہ کوئی ایسا فریق باقی ہی نہ رہے جو مذاکرات کی میز تک آنے کی صلاحیت، سکت اور استحقاق رکھتا ہو۔

اسرائیلی فوج نے لبنان پر حملوں کے دوران فلسطینی اور لبنانی شہریوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا تاکہ پی ایل او کے اعتدال پسند عناصر کمزور پڑیں، یاسر عرفات کے انقلابی مخالفین کے ہاتھ مضبوط ہوں اور پی ایل او بھی غیر لچک دار رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہو۔ اسرائیل کے پاس صرف دو آپشن تھے۔ یاسر عرفات کی مساعی کو تسلیم اور قبول کرتے ہوئے مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کی راہ ہموار کی جائے، یا پھر پی ایل او کو اس قدر کمزور کردیا جائے کہ پھر کوئی مذاکرات کے لیے مجبور کرنے والا نہ رہے۔ اس کے لیے فوجی کارروائی لازم تھی۔ اسرائیل نے دوسرا آپشن اختیار کیا اور جون 1982ء میں لبنان پر حملہ کردیا۔ اس حملے کا بنیادی مقصد فلسطینیوں میں اعتدال پسند عناصر کا خاتمہ تھا۔ اسرائیل چاہتا تھا کہ اس پر حملہ کرنے والے باقی رہیں تاکہ وہ عالمی برادری کے سامنے اپنی مظلومیت کا رونا روسکے۔

اسرائیلی فورسز نے، جیسا کہ انہیں حکم دیا گیا تھا، لبنان میں فلسطینی اور لبنانی شہریوں کو نشانہ بنایا۔ بہت بڑے پیمانے پر جانی نقصان یقینی بنایا گیا۔ آخری حملے میں کم از کم 200 شہری ہلاک ہوئے جن میں بچوں کے ایک اسپتال میں پناہ لیے ہوئے 60 افراد بھی شامل تھے۔ پی ایل او کو بالآخر حملوں کا جواب دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ مگر خیر، اُس میں بھی صرف ایک اسرائیلی ہلاک ہوا۔ اسرائیلی قیادت کی بے شرمی کا عالم یہ تھا کہ پی ایل او کے اس نیم دلانہ حملے کو لبنان میں بڑے پیمانے پر قتلِ عام کا جواز بنایا۔ اسرائیل کے ایک تجزیہ کار نے تسلیم کیا کہ لبنان پر حملوں کا بنیادی مقصد صرف یہ تھا کہ غربِ اردن میں فلسطینی ریاست کا حق تسلیم کروانے کی اہلیت رکھنے والی پی ایل او کو ختم کردیا جائے۔

آئیے دوبارہ آپریشن کاسٹ لیڈ کے آغاز کے لمحے کی طرف چلتے ہیں۔ دسمبر 2008ء میں اُس وقت کے اسرائیلی وزیر خارجہ زِپی لِونی نے کہا کہ حماس سے جنگ بندی اچھی بات ہے اور اس سے اسرائیل کو کسی حد تک فائدہ پہنچا ہے لیکن اگر یہ جنگ بندی مزید طول پکڑے گی تو اسرائیل کی پوزیشن کمزور ہوگی کیونکہ اُس کے بارے میں یہ رائے پھیلے گی کہ وہ حماس کو تسلیم کرچکا ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ جنگ بندی جاری رہی تو حماس کے ہاتھ مضبوط ہوں گے۔ زِپی لِونی کا یہ بیان گویا اس امر کا اظہار تھا کہ اسرائیلی قیادت کے ہاتھ اور مؤقف مضبوط کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ فلسطینیوں میں سے کوئی فریق اسرائیل پر حملے جاری رکھے۔ اسرائیل پر حملے رہنے کی صورت میں فلسطینیوں کے مؤقف کے کمزور پڑنے کی گنجائش تھی۔ (جاری ہے)