پانچ اگست کے بعد بے معنی ہوتی ہوئی ’’یکجہتی‘‘
بھارت کے شہر ایودھیا میں رام مندر کی مکمل تعمیر سے پہلے ہی نریندر مودی نے افتتاحی تقریب منعقد کر ڈالی، اور یہ تقریب ایک میلے اور تہوار کے انداز میں ہوئی جس کے لیے تیاریاں مہینوں سے جاری تھیں۔ ملک کے کونے کونے سے لوگ رام کو ایودھیا واپس لانے کے تصور اورنعرے کے تحت اس مقام پر کھنچے چلے آتے تھے۔ 22 جنوری کو مندر کے افتتاح کی تقریب کے موقع پر بھارتیہ جنتاپارٹی کے اقتدار کی حامل ریاستوں میں تعطیل کردی گئی اور ملک بھر سے آٹھ ہزار معروف مہمان اس تقریب میں شریک ہوئے جن میں بھارتی فلم اسٹار امیتابھ بچن بھی شامل ہیں۔ رام مندر کی افتتاحی تقریب میں نریندر مودی ہی شمعِ محفل تھے، اور ان کے ساتھ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت بھی ہمنوا کے طور پر موجود تھے۔ مسجد سے باہر انتہاپسندوں کی ایک ٹولی مغل شہنشاہ ظہیرالدین بابر کا مجسمہ جلا کر تاریخ سے اپنی نفرت کا اظہارکررہی تھی۔
32 سال قبل بھارت کے انتہا پسندوں نے ایک مسجد کو گرانے یا ایک مندر کی تعمیر کا ہدف طے نہیں کیا تھا بلکہ یہ بھارت میں تاریخ کا پہیہ اُلٹا گھمانے کا عمل تھا، یہ نئے بھارت کا سنگِ بنیاد تھا، مسلمانوں کے صدیوں کے اقتدار کے اثرات سے بھارت کو نکال کر اس سے پرانے بھارت کے احیا کا عمل اور ہدف تھا۔ بابری مسجد اس سارے عمل میں ایک علامت کے طور پر استعمال ہوئی تھی۔ اس مسجد کا ملبہ ایک تہذیب کے زمیں بوس کیے جانے کا اعلان و اظہار تھا، اور اس کی جگہ مندر کی تعمیر حقیقت میں ایک تہذیب کے ملبے پر ایک نئی تہذیب کی پُرشکوہ عمارت کی تعمیر تھی۔ اس عمل میں بھارت کے انتہا پسندوں کو برسوں لگے تھے۔ انہوں نے مدت تک بھارت میں کانگریس کے پلورل ازم کے نعروں کی اوٹ میں اپنا سفر جاری رکھا۔ کانگریس کا تعلق نہ ہندوستان کے مسلمان اقتدار سے تھا، نہ وہ ہندوئوں کے اصل کلچر کی علامت تھی۔ یہ انگریز راج کے زیراثر پیدا ہونے والے سیاسی رجحانات کی پیداوار اور انگریزوں کے تصورِ تکثیریت کا سیاسی جنم تھا جس میں جدید مغربی جمہوریت کے اصولوں کو پیش نظر رکھا گیا تھا کہ ووٹ کی طاقت میں ایک توازن پیدا کرکے سوسائٹی کو کسی نہ کسی طرح جوڑے رکھا جائے۔ اس ذہنیت کو بھارت کے ایک لبرل مسلمان محمد علی جناح نے بھانپ لیا تھا۔ محمد علی جناح کانگریس کی سیکولر اور جدید ذہنیت کے ہم راز اور ساتھی تھے مگر وہ جان گئے تھے کہ انگریز کے اثرات کے تحت قائم ہونے والی کانگریس چند دہائیوں تک تو شاید ملک کو سیکولر اور جمہوری رکھ سکے گی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سوچ کے تاروپود بکھرتے جائیں گے اور اس کی جگہ ہندو غلبے کی سوچ غالب آتی جائے گی۔ اب جب رام مندر کا دھوم دھام سے افتتاح ہورہا تھا تو معروف دانشور اور سیاسی مفکر پروفیسر اشوک سوئین کہہ رہے تھے کہ نریندر مودی نے گاندھی کو غلط اور جناح کو صحیح ثابت کردیا۔ کئی دہائیوں تک کانگریس اور اینٹی کانگریس کی سیاست میں بھارت کے انتہا پسند بہت خاموشی کے ساتھ اپنے طے کردہ ایجنڈے پر گامزن رہے، اور جب ان کی سوچ وفکر نے بھارت کے عام آدمی کے ذہن میں گہری جڑیں پکڑ لیں تو انہوںنے بابری مسجد کو نشانے پر رکھ لیا۔ 1980ء کی دہائی میں مسجد کے اندر مورتیاں رکھ کر تنازعات کو گہرا کیا جانے لگا، یہاں تک کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی پہلی منظم اُڑان اور اٹھان کے لیے بابری مسجد کی شہادت کا انتخاب کیا۔ اُس وقت تک بھارت کے مسلمانوں میں مزاحمت کا دم خم بھی تھا اور کانگریس اور مسلم سیاسی اور انتخابی جماعتوں کی صورت میں انہیں کچھ نہ کچھ سیاسی اور عوامی اسپیس بھی حاصل تھی جو بعد میں رفتہ رفتہ کم ہوکر سکڑتی چلی گئی۔ بابری مسجد کی شہادت کے موقع پر مسلمانوں کا قتلِ عام ان کی سیاسی کمر توڑنے کا پہلا مرحلہ ثابت ہوا۔ بھارت کے مسلمان اس جھٹکے سے دوبارہ سنبھل نہ سکے۔ انہوں نے آخری امید کے طور پر عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا، مگر عدالتوں کے آگے ’’انتظار‘‘ کا بورڈ ان کا منہ چڑاتا رہا اور یہ انتظار تین عشروں پر محیط ہوگیا۔
تین عشرے بعد عدالت نے جو فیصلہ دیا اس میں مسلمانوں کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ یوں لگتا تھا کہ عدالت نے برسوں مسلمانوں کی سیاسی طاقت اور احتجاج کی صلاحیت کے کمزور اور جذبات کے ٹھنڈا پڑنے کا انتظار کیا۔ کشمیری راہنما محمد افضل گورو کی سزائے موت کے فیصلے سے بھارتی عدالتوں نے عوامی ضمیر کو مطمئن کرنے کے نام پر انصاف سے فرار کا راستہ ہی تلاش نہیں کیا بلکہ اکثریت پسندی کے آگے سپر ڈالنے کا ایک رجحان بھی پروان چڑھایا۔ یہ رجحان بابری مسجد کے کیس کے فیصلے میں بھی پوری طرح بولتا رہا، گویا کہ بابری مسجد کی تعمیر کسی مندر کو گرا کر تو نہیں ہوئی تھی مگر اس کی جگہ مندر کی تعمیر میں کوئی حرج نہیں، اس لیے کہ بھارت کی اکثریت کی خواہش یہی ہے۔ اور اس کے بعد حال ہی میں بھارتی سپریم کورٹ نے چار سال کے انتظار کے بعد کشمیر کی خصوصی شناخت کے مقدمے میں یہی رجحان برقرار رکھا۔
بھارت کے انتہا پسند، مسلمانوں کی سیاسی اور تہذیبی اسپیس کم کرتے جا رہے ہیں توکسی دور میں آزاد اور تاریخی فیصلوں کی حامل عدلیہ اس عمل کو قانونی جواز دے کر اکثریت پسندی پر مہر تصدیق ثبت کر تی جا رہی ہے۔بابری مسجد کی شہادت سے تاریخ کا پہیہ اُلٹا گھمانے کا جو عمل شروع ہوا تھا، 32 برس بعد رام مندر کے افتتاح اور رام کی مورتی کی نقاب کشائی سے وہ پہیہ پوری طرح گھوم گیا ہے۔
اگلے چند ماہ میں بھارت میں انتخابات کا انعقاد ہورہا ہے۔نریندرمودی اپنی تیسری فتح کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ وہ مسلمان ووٹر کو غیر مؤثر کرکے ہندو ووٹر میں بالادستی اور عظمت ِرفتہ کی بحالی کی آگ پوری طرح بھڑکا چکے ہیں۔نریندرمودی کے پاس انتخابی مہم چلانے کے لیے تین نکات ہوا کرتے تھے جن میں پہلا پاکستان، دوسرا گائو رکھشا یعنی گائے کا تقدس اور حفاظت، اور تیسرا بھارتی مسلمان تھے۔ بھارت میں گائے کو تقدس اور عظمت کا وہ مقام حاصل ہوچکا ہے جس کے لیے اب مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کی صورت انسان بھی رشک کرنے لگتے ہیں۔ مسلمانوں کو شہریت قوانین کے ذریعے ڈرا دھمکا کر دیوار سے لگایا جا چکا ہے، اور پاکستان کے بارے میں نریندرمودی کا دعویٰ ہے کہ خود اپنے بوجھ تلے دب رہا ہے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ نریندرمودی پاکستان میں انتخابات کے نتیجے میں ایک ایسا سیٹ اَپ آتا دیکھ رہے ہیں جو اُن کے عزائم اور ارادوں کے آگے مزاحم نہیں ہوگا۔ سیدھے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ میاں نوازشریف کے ساتھ نریندرمودی کی کیمسٹری پہلے ہی مل چکی ہے، اور وہ پاکستان مخالف لائن لے کر مستقبل کے اس منظرنامے کو خراب نہیں کرنا چاہتے۔
لے دے کر ہندوستان پر صدیوں کے مسلم راج کے اثرات کو کھرچ کر رام مندر کے نام پر ہندوئوں کی عظمتِ رفتہ کی بحالی کی نقش نگاری ہی ایک انتخابی کارڈ کے طور پر باقی رہ گئی تھی جسے انہوں نے رام مندر کے دھوم دھام سے افتتاح کے ذریعے پھینک دیا۔ نریندر مودی نے اس موقع کو ایک سیکولر انتخابی مہم کے بجائے ہندوئوں کی عظمتِ رفتہ کی بحالی اور تاریخ کا قرض چکانے کا رنگ دیا، اور اس کا عکاس اُن کا بولا جانے والا یہ جملہ ہے کہ ’’ملک صدیوں کی غلامی سے باہر آگیا ہے‘‘۔ سیدھے لفظوں میں یہ ایک مندر اور مسجد کا معاملہ نہیں بلکہ تاریخ اور تہذیب کے ایک عہد کو جھٹکنے اور کھرچنے کا عمل ہے۔