طاقت کا رازدوسری صدی ہجری کی ابتدا کا واقعہ ہے کہ سجستان و رُ خَّج (موجودہ افغانستان )کے فرماں رواں نے جس کا خاندانی لقب رتبیل تھا، بنی امیہ کے عُمّال کو خراج دینا بند کر دیا۔ پیہم چڑھائیاں کی گئیں، مگر وہ مطیع نہ ہوا۔ یزید بن عبدالمالک اموی کے عہد میں جب اس کے پاس طلبِ خراج کے لیے سفارت بھیجی گئی تو اس نے مسلمانوں کے سفرا سے دریافت کیا:
وہ لوگ کہاں گئے جو پہلے آیا کرتے تھے؟ ان کے پیٹ فاقہ زدوں کی طرح پٹخے ہوئے ہوتے تھے۔ پیشانیوں پر سیاہ گٹے پڑے رہتے تھے اور کھجوروں کی چپلیں پہنا کرتے تھے۔
کہا گیا کہ وہ لوگ تو گزر گئے۔
رتبیل نے کہا: اگرچہ تمھاری صورتیں ان سے زیادہ شان دار ہیں‘ مگر وہ تم سے زیادہ عہد کے پابند تھے، تم سے زیادہ طاقت وَرتھے۔
مورخ لکھتا ہے کہ یہ کہہ کر رتبیل نے خراج ادا کرنے سے انکار کر دیا اور تقریباً نصف صدی تک اسلامی حکومت سے آزاد رہا۔
یہ اس عہد کا واقعہ ہے جب تابعین و تبع تابعین کثرت سے موجود تھے۔ ائمہ مجتہدین کا زمانہ تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کو صرف ایک صدی گزری تھی۔ مسلمان ایک زندہ اور طاقت وَر قوم کی حیثیت سے دنیا پر چھا رہے تھے‘ ایران‘ روم‘ مصر‘ افریقہ‘ اسپین وغیرہ ممالک کے وارث ہو چکے تھے اور ساز و سامان‘ شان و شوکت‘ اور دولت و ثروت کے اعتبار سے اس وقت دنیا کی کوئی قوم ان کی ہم پلہ نہ تھی۔ یہ سب کچھ تھا۔ دلوں میں ایمان بھی تھا، احکام شریعت کی پابندی اب سے بہت زیادہ تھی‘ سمع و طاعت کا نظام قائم تھا،پوری قوم میں ایک زبردست ڈسپلن پایا جاتا تھا، مگر پھر بھی جو لوگ عہد صحابہ کے فاقہ کش، خستہ حال صحرا نشینوں سے زور آزمائی کر چکے تھے، انھوں نے ان سروسامان والوں اور ان بے سروسامانوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق محسوس کیا۔ یہ کس چیز کا فرق تھا؟
فلسفہ تاریخ والے اس کو محض بداوت(دیہاتی (۲)شہری (۳)صحرائی) و حضریت(۲) کے فرق پر محمول کریں گے۔ وہ کہیں گے کہ پرانے بادیہ نشین(۳) زیادہ جفا کش تھے اور بعد کے لوگوں کو دولت اور تمدن نے عیش پسند بنا دیا تھا، مگر میں کہوں گا کہ یہ فرق دراصل ایمان‘ خلوص نیت‘ اخلاق اور اطاعت خدا اور رسولؐ کا فرق تھا۔ مسلمانوں کی اصلی قوت یہی چیزیں تھیں‘ ان کی قوت نہ کثرت تعداد پر مبنی تھی‘ نہ اسباب و آلات کی افراط پر‘ نہ مال و دولت پر‘ نہ علوم و صناعات کی مہارت پر‘ نہ تمدن و حضارت کے لوازم پر۔وہ صرف ایمان و عمل صالح کے بل پر ابھرے تھے۔ اسی چیز نے ان کو دنیا میں سربلند کیا تھا۔ اسی نے قوموں کے دلوں میں ان کی دھاک اور ساکھ بٹھا دی تھی۔ جب قوت و عزت کا یہ سرمایہ ان کے پاس تھا تو یہ قلت تعداد اور بے سروسامانی کے باوجود طاقت وَر اور معزز تھے، اور جب یہ سرمایہ ان کے پاس کم ہو گیا تو کثرت تعداد اور سروسامان کی فراوانی کے باوجود کمزور اور بے وقعت ہوتے چلے گئے۔
رتبیل نے ایک دشمن کی حیثیت سے جو کچھ کہا وہ دوستوں اور ناصحوں کے ہزار وعظوں سے زیادہ سبق آموز ہے۔ اس نے دراصل یہ حقیقت بیان کی تھی کہ کسی قوم کی اصلی طاقت اس کی آراستہ فوجیں‘ اس کے آلات جنگ‘ اس کے خوش رو، خوش پوش سپاہی‘ اور اس کے وسیع ذرائع و وسائل نہیں ہیں‘ بلکہ اس کے پاکیزہ اخلاق‘ اس کی مضبوط سیرت‘ اس کے صحیح معاملات‘ اور اس کے بلند تخیلات ہیں۔ یہ طاقت وہ روحانی طاقت ہے جو مادی وسائل کے بغیر دنیا میں اپنا سکہ چلا دیتی ہے۔ خاک نشینوں کو تخت نشینوں پر غالب کر دیتی ہے۔ صرف زمینوں کا وارث ہی نہیں بلکہ دلوں کا مالک بھی بنا دیتی ہے۔ اس طاقت کے ساتھ کھجور کی چپلیاں پہننے والے‘ سوکھی ہڈیوں والے‘ بے رونق چہروں والے، چیتھڑوں میں لپٹی ہوئی تلواریں رکھنے والے لوگ دنیا پر وہ رعب‘ وہ سطوت و جبروت‘ وہ قدر و منزلت، وہ اعتبار و اقتدار جما دیتے ہیں جو اس طاقت کے بغیر شان دار لباس پہننے والے‘ بڑے ڈیل ڈول والے‘ بارونق چہروں والے‘ اونچی بارگاہوں والے‘ بڑی بڑی منجنیقیں اور ہولناک دبابے رکھنے والے نہیں جما سکتے۔ اخلاقی طاقت کی فراوانی مادی وسائل کے فقدان کی تلافی کر دیتی ہے، مگر مادی وسائل کی فراوانی اخلاقی طاقت کے فقدان( گم کرنا، کھو دینا (۲)آمادہ تیار (۳)چھت کا شہتیر) کی تلافی کبھی نہیں کرسکتی۔ اس طاقت کے بغیر محض مادی وسائل کے ساتھ اگر غلبہ نصیب ہو بھی گیا تو ناقص اور عارضی ہو گا۔ کامل اور پائدار نہ ہوگا۔ دل کبھی مسخر نہ ہوں گے۔ صرف گردنیں جھک جائیں گی، اور وہ بھی اکڑنے کے پہلے موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے مستعد (۲)رہیں گی۔
(سید مودودی ،ترجمان القرآن، صفر ۱۳۵۵ھ۔ اپریل ۱۹۳۶ء)
فلسطینی عرب سے
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے!
تری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے!
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے!