ماہ رنگ بلوچ: سیاسی مزاحمت کی علامت

بلوچستان کی سلگتی چنگاری کے بجھنے کے امکانات دکھائی نہیں دیتے۔ صوبے کے حالات کی سنگینی اپنی جگہ موجود ہے۔ حل کی تمام تدبیریں خواہ سیاسی ہوں یا فوجی… کامیاب دکھائی نہیں دیتیں۔ تیسرا راستہ کیا ہوسکتا ہے؟ یہ بہت اہم سوال ہے جس پر اب اہلِ دانش، اہلِ سیاست اور مقتدرہ کو سوچنا ہوگا۔ عسکریت پسندی ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ اور تناؤ کی وجہ بھی بن رہی ہے۔ مقتدرہ نے اپنے بیانیے کی ترویج و ابلاغ کے لیے ایک طبقہ تخلیق تو کردیا ہے مگر دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا یہ طبقہ بلوچ عوام میں پسندیدگی رکھتا ہے؟ من پسند افراد صوبے سے ایوانوں کے لیے منتخب کرائے جاتے ہیں، مگر یہ طبقہ بلوچستان میں ہم آہنگی کی فضا قائم کرنے میں ذرا بھی کردار ادا کرنے کی اہلیت، قبولیت اور صلاحیت نہیں رکھتا۔ پیپلز پارٹی میں جمال رئیسانی، سرفراز بگٹی اور ظہور بلیدی جیسوں کی شمولیت پیپلزپارٹی کے لیے طعنہ بن گئی ہے، اور جس طرح جمال رئیسانی ماہ رنگ بلوچ کے اسلام آباد میں احتجاجی کیمپ کے مقابل بٹھائے گئے اس کے بعد پیپلز پارٹی کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ماہ رنگ بلوچ ہی کا معاملہ دیکھیں جسے ریاست اور ادارے راست انداز میں سلجھانے میں قطعی ناکام ہوئے ہیں۔ نتیجتاً ماہ رنگ بلوچ، بلوچ سیاسی مزاحمت کی علامت بن گئی۔ جان اچکزئی جیسے نامعقول لوگ ریاست اور مقتدرہ کی نیک نامی کے بجائے بدنامی اور بے توقیری کا باعث ٹھیرے ہیں۔ تربت کے اندر میت کے ہمراہ دھرنا حکومت اور مقتدرہ کی ناسمجھی کی وجہ سے اسلام آباد پہنچ گیا اور ملکی اور عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ عقل اور سمجھ ہوتی تو یہ احتجاج تربت ہی میں اختتام کو پہنچ جاتا۔ اور پھر ڈیرہ غازی خان، تونسہ اور اسلام آباد پولیس کے جارحانہ رویّے نے جلتی پر تیل کا کام کردیا۔ حالاں کہ ماہ رنگ بلوچ محض تین دن اسلام آباد میں احتجاجی کیمپ لگانے جارہی تھیں، نگراں حکومت کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے انہوں نے تیس دن پڑائو ڈالا۔ کوئٹہ واپسی پر ماہ رنگ اور دوسری خواتین کا استقبال تاریخی تھا جس میں ہزاروں نوجوانوں کی شرکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچ نوجوان نظام سے بدظن ہوچکے ہیں۔ استقبال کے بعد 27جنوری 2024ءکو کوئٹہ کے سریاب روڈ پر شاہوانی فٹ بال گراؤنڈ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام منعقد ہونے والے جلسے نے تاریخ رقم کردی۔ ہزاروں بلوچ افراد کے اس اجتماع میں سیکڑوں خواتین بھی شریک ہوئیں۔ صرف چار دن کے نوٹس اور بغیر کسی تیاریوں کے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت کسی بلوچ رہنماء اور بلوچ سیاسی جماعت کے اجتماعات میں نہیں دیکھی گئی۔ اس کے اگلے روز بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا انتخابی جلسہ تھا۔ پہلے اسی گرائونڈ کا انتخاب کیا گیا تھا، مگر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جلسے کے بعد انہوں نے باہر سڑک پر جلسہ منعقد کرنا اپنے حق میں بہتر سمجھا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کا یہ جلسہ حکومت نہیں بلکہ ریاست اور ریاست کے اداروں کے خلاف تھا، جس کا سلوگن بلوچ سیاسی مزاحمت تھا، پارلیمانی سیاست کے خلاف بیانیہ تھا۔ تمام بلوچ سیاسی جماعتوں پر تنقید کی گئی جو پارلیمانی سیاست کی قائل اور حامل ہیں۔ بین السطور بلوچ سیاسی مزاحمت، بلوچ مسلح سرگرمیوں کی حمایت ہے۔

ماہ رنگ بلوچ کے استقبال کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے مذکورہ جلسہ عام کے اعلان کے معاً بعد بلوچستان کی نگراں حکومت نے نگراں وزیر اطلاعات جان اچکزئی کے ذریعے سیاسی اجتماعات پر پابندی کا نقارہ بجایا اور دفعہ 144نافذ کردی۔ اتنی احمق نگراں حکومت ہے کہ عام انتخابات 2024ء کی مہم ہر سو جاری ہے اور یہ دفعہ144نافذ کررہی ہے! دراصل مذکورہ جلسہ عام کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا مقصود تھا، مگر لوگوں نے ان کی نافذ کردہ دفعہ144کو جوتی کی نوک پر ر کھا اور تاریخی جلسہ عام منعقد کیا۔ اس طرح نگراں حکومت کو اپنی رٹ کے ساتھ شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ مقتدرہ کو چاہیے کہ اقتدار کے لالچی اس نگراں وزیر اطلاعات جان اچکزئی کی حرکتوں کا نوٹس لے۔ برطانوی شہریت کے حامل اس شخص کو اپنی ذات کے نفع سے غرض ہے۔ یہ فوج اور اداروں کی بدنامی کا باعث بنا ہے۔ اس دفعہ کو پی ٹی آئی کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ ستم یہ بھی ہے کہ باقی تمام جماعتوں کو انتخابی سرگرمیوں، جلسے جلوس اور ریلیوں کی آزادی ہے، صرف پی ٹی آئی پر قدغن ہے۔ حالیہ دفعہ144 کی تلوار بھی پی ٹی آئی پر چلائی جارہی ہے۔ 28جنوری کو کوئٹہ میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے ریلیاں نکالیں تو ان کے خلاف تین تھانوں میں مقدمات درج کرلیے گئے۔

ادھر روز کوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ ہی جاتا ہے۔ 5 جنوری کو آواران میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے پانچ مزدور اغوا کرلیے گئے جن کا تادم تحریر کوئی اتا پتا نہیں۔ اور ایک افسوسناک اور قابلِ مذمت سانحہ ایران کے شہر سراوان میں رونما ہوا جہاں مسلح افراد نے27جنوری کی علی الصبح ایک مکان میں سوئے ہوئے 9 پاکستانی ہنرمندوں اور مزدوروں کو بڑی سنگدلی اور بے دردی سے قتل کردیا۔ ان افراد کا تعلق صوبہ پنجاب کے شہر مظفر گڑھ، علی پور اور لودھراں سے تھا۔ میتیں پہنچادی گئیں۔ اب خواہ کوئی قبول کرے یا نہ کرے، قطعی گمان یہی ہے کہ یہ کسی بلوچ عسکریت پسند گروہ ہی کی گھناؤنی کارروائی ہے۔ البتہ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے ملوث ہونے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ نہ یہ ان کی کارروائی ہے، نہ ہی بی ایل اے کا ایران میں کوئی کیمپ اور ٹھکانہ ہے۔ ایران میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔مقتولین ایران میں گزشتہ پندرہ سالوں سے مقیم تھے۔ لہٰذا لازم ہے کہ بلوچستان میں امن کی خاطر اہلِ سیاست، فوج اور ادارے اپنی ترجیحات اور مفاد کے بجائے ملک اور عوام کے مفاد کو مقدم رکھ کر بلوچستان میں امن اور مفاہمت کی تدبیریں سوچیں۔ ملک اور صوبہ مزید احمقانہ پالیسیوں اور اقدامات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔