علم اور معلومات کے درمیان فرق!

علم صرف علم ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کی ایک سمت بھی ہوتی ہے۔

پاکستان میں فکر و دانش کی پستی کا اندازہ اور باتوں کے علاوہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جن موضوعات پر کبھی محمد حسن عسکری اور سلیم احمد جیسے لوگ لکھا کرتے تھے ان موضوعات پر اب شاہ نواز فاروقی خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ یہ بات میں طنز یا انکسار کے طور پر نہیں بلکہ حقیقت ِ احوال کے بیان کے طور پر کہہ رہا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ اس حقیقت کے اعتراف کے بعد میرے لکھنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟ اس کا صرف ایک جواز ہے اور وہ یہ کہ جن موضوعات پر یہ خاکسار خامہ فرسائی کرتا ہے یہ وہ موضوعات ہیں جو اب ہماری صحافت کیا ادب میں بھی زیر بحث نہیں آرہے۔ ان موضوعات پر میری خامہ فرسائی کا بس یہ جواز ہے، یعنی میں اس خیال کے تحت لکھتا ہوں کہ اگر اور کوئی نہیں لکھ رہا تو چلو میں ہی سہی۔ تاہم مجھے یہ گمان ہرگز نہیں ہے کہ میری تحریروں سے لوگوں تک زندگی کا شعور منتقل ہورہا ہے۔ البتہ مجھے یہ گمان ضرور ہے کہ میری تحریروں سے قارئین کو کم از کم یہ اندازہ کرنے میں ضرور آسانی ہوگی کہ زندگی کا شعور کیا نہیں ہوتا۔ بہرحال اس طویل ابتدائیے کے بعد آیئے آج کے اصل موضوع کا رُخ کرتے ہیں۔

موجودہ دور کے بارے میں یہ خوش گمانی بلکہ تیقن عام ہے کہ موجودہ زمانہ علم کی بے پناہ ترقی کا زمانہ ہے۔ اس زمانے میں علم نے جتنی ترقی کی ہے اتنی ترقی کسی زمانے میں نہیں ہوئی۔ بقول شخصے اِس زمانے کی علمی ترقی کا یہ عالم ہے کہ اس نے پرانے زمانے کے واہموں کو بھی ٹھوس صداقتوں میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اب ہم کائنات کے بارے میں جتنے تیقن سے بات کر سکتے ہیں اس سے پہلے کسی زمانے میں نہیں کرسکتے تھے۔

لوگوں کے بقول علم کی ترقی کا دائرہ کسی خاص شعبۂ علم تک محدود نہیں بلکہ اس کے دائرے میں تمام علوم شامل ہیں۔

مجھے اس بات سے رتی برابر اختلاف نہیں کہ اِس زمانے میں مختلف ’ڈسپلنز‘ نے بے پناہ ترقی کی ہے۔ تاہم مجھے یہ ماننے میں شدید تامل ہے کہ علم نے ترقی کی ہے۔ اس کے برعکس میرا خیال ہے کہ یہ زمانہ علم کی ترقی کا نہیں بلکہ معلومات کی ترقی کا ہے۔ میرے نزدیک علم اور معلومات میں بہت فرق پایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات میں مذہبی پس منظر میں کہہ رہا ہوں۔ اس پوری بحث کے مختلف زاویے ہیں جو ذیل میں مختلف مقامات پر ظاہر ہوں گے۔

اس کائنات میں موجود ہر چیز کے درمیان ایک رشتہ موجود ہے خواہ یہ رشتہ مرئی ہو یا غیر مرئی۔ اس اعتبار سے یہ کائنات دراصل رشتوں یا تعلقات کی کائنات ہے۔ تعلقات کے اس پورے نظام کا مرکز خالقِ حقیقی ہے۔ یہ وہ مرکز ہے جس سے اس کائنات کی ہر شے ایک خاص قسم کے رشتے میں منسلک ہے۔ یہ مرکز وہ ڈوری ہے جو کائنات کی ہر شے کو آپس میں پروکر ایک خاص معنویت عطا کرتی ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح تسبیح کے مختلف دانوں کو ایک ڈور آپس میں منسلک رکھتی ہے۔ یہ ڈور جب تک ان دانوں کے درمیان رہتی ہے یہ دانے مل جل کر تسبیح کہلاتے ہیں، اور جب یہ ڈور ان دانوں کے درمیان سے نکل جاتی ہے تو وہ دانے تسبیح نہیں‘ بلکہ صرف و محض دانے کہلاتے ہیں، گویا یہ ڈور ہی وہ شے ہے جو ان دانوں کو معنویت عطا کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح اگر یہ خالق ہستی تعلقات کے اس نظام سے خارج ہوجائے تو تعلقات کا نظام بکھر جائے گا اور تمام رشتے جداگانہ حیثیت اختیار کرتے ہی بے معنی ہوجائیں گے۔

میری حقیر رائے میں اس کائنات کے بارے میں کسی بھی طرح کا کوئی انکشاف اُس وقت تک علم کے زمرے میں نہیں آتا جب تک وہ انکشاف اس پورے نظامِ تعلقات کے مرکز یا اس نظام کے دوسرے اجزا کے باہمی تعلق کے بارے میں ہمیں کچھ نہ بتائے یا اس کائنات کے مرکز اور اس کے مختلف اجزا کے درمیان موجود تعلق کے کسی نئے زاویے کا انکشاف نہ کرے، یا ہمیں اس نظام سے پہلے سے زیادہ قربت کا احساس نہ دلائے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو میرے خیال میں وہ علم نہیں بنتا بلکہ صرف معلومات کے درجے تک محدود رہ جاتا ہے۔ اب اس پس منظر میں علوم کی اس مشہورِ زمانہ ترقی کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس دور میں جتنے بھی علوم موجود ہیں اوّل تو وہ اس ہستی کے وجود ہی کے منکر ہیں، یا اگر منکر نہیں ہیں تو وہ اس بارے میں کوئی بھی رویہ اختیار نہیں کرتے، یعنی اگر وہ ہے بھی تو ٹھیک، اور نہیں ہے تو بھی ٹھیک ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ تمام علوم کائنات کو ایک ہم آہنگ کُل کے طور پر نہیں دیکھتے بلکہ وہ اس کے ٹکڑے کرتے ہیں۔ کسی کا تعلق مادے کی تفتیش سے ہے، توکوئی انسانی نفس کی تحقیق میں مصروف ہے۔ یہ علوم اس کائنات کے مختلف حصوں کے درمیان کوئی مستقل تعلق تلاش کرنے میں ناکام ہیں۔

اس پس منظر میں یہ کہنا کہ علم نے ترقی کی ہے، بڑی بے جا بات ہے، خاص طور پر اُن لوگوں کے لیے جو وجودِ خدا کے قائل ہیں اور جو سمجھتے ہیں کہ وہ ہستی اس کائنات کا مرکز ہے اور اس کائنات کے تمام اجزا کے درمیان ایک تعلق موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ باتیں جنہیں ہم نے علم کے بجائے معلومات کہا ہے‘ ان کی کیا اہمیت ہے؟ کیا وہ بے کار محض ہیں یا ان کا کوئی فائدہ بھی ہے؟

میری حقیر رائے میں ان معلومات کے دو حصے ہیں۔ ایک وہ حصہ ہے جو براہِ راست اور واضح طور پر کائنات کی کسی خالق ہستی کے وجود کا انکار کرتا ہے اور کائنات کو کوئی ہم آہنگ کُل تصور نہیں کرتا۔ ان معلومات کا دوسرا حصہ وہ ہے جو اس ذیل میں کوئی نقطہ نظر اختیار کرتا نظر نہیں آتا۔ دوسرا حصہ ہمارے لیے کارآمد ہے کیوں کہ یہ وہ حصہ ہے جس کے عمیق مطالعے کے بعد ہم اسے مرکزِ کائنات اور کائنات کے مختلف اجزا کے درمیان پائے جانے والے رشتوں کے انکشاف کا ذریعہ بنا سکتے ہیں، اور یہ کام نقطۂ نظر کی تبدیلی سے ہوسکتا ہے، کیوں کہ علم صرف علم ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کی ایک سمت بھی ہوتی ہے۔

اگر ہم اس پوری بحث میں مرکزِ کائنات ہستی اور کائنات کے دیگر اجزا کے درمیان تعلق کے سوال کو یکسر نظرانداز کرکے یہ دیکھیں کہ علوم کی یہ افزائش جسے ’ترقی‘ کا مرعوب کن نام دیا جاتا ہے خود انسانی وجود کے لیے کس قدر مفید ہے تو بھی بڑی مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ ان علوم میں سے کوئی علم بھی انسان کے مقصدِ وجود کے بارے میں ہمیں کوئی بات نہیں بتاتا، بلکہ وہ تو اس سوال تک کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتا۔

کہا جاتا ہے کہ ان علوم نے انسانوں کی مختلف ضروریات پوری کی ہیں اس لیے یہ بڑے مفید ہیں۔ تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان علوم نے تو انسانوں کی ضرورتوں تک کا درست اندازہ نہیں لگایا، بلکہ ان علوم میں بعض شعبے ایسے ہیں جنہوں نے انسان کے اندر ضرورتیں پہلے اور ان کی تسکین کا سامان بعد میں پیدا کیا۔

یہی وجہ ہے کہ انسان بے شمار ناجائز ضرورتوں کی آماج گاہ بن کر رہ گیا ہے اور اس کی پوری زندگی کا مقصد ناجائز ضرورتوں کو پورا کرنے کے سوا کچھ نہیں۔

علم اور معلومات کے درمیان فرق کو واضح کرنے کا مقصد یہ ہے کہ علوم کی ترقی کے جس نظریے نے ہمیں مسحور کر رکھا ہے اس کی حقیقت سامنے آئے اور ہمیں معلوم ہو کہ جس چیز کو ہم علم اور اس کی ترقی کا نام دے رہے ہیں وہ معلومات کی افزائش کے سوا کچھ نہیں، اور انسان کو معلومات کی نہیں بلکہ علم کی ضرورت ہے۔ معلومات اور علم کے منصب میں وہی فرق ہے جو بکھرے ہوئے دانوں اور تسبیح کے درمیان ہے۔

ہم ان علوم کی ترقی سے کس قدر متاثر ہیں اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ ہمارے وزیراعظم تک فرما رہے ہیں کہ ہم پاکستان کو جاپان بنا کر دم لیں گے۔ کچھ اور لوگوں کا خیال ہے کہ وہ پاکستان کو کوریا بنائے بغیر نہیں چھوڑیں گے۔ ان حضرات کو ہر طریقے سے بتایا جانا چاہیے کہ صاحبان پاکستان جاپان یا کوریا بنانے کے لیے تخلیق نہیں کیا گیا تھا۔

اس لیے اسے کچھ اور بنانے کے بجائے پاکستان بنایئے… ایسا پاکستان جو جاپان اور کوریا کی طرح معلومات پیدا کرنے والے ملک کے بجائے علم پیدا کرنے والا ملک بنے۔

مجھے معلوم ہے یہ بڑی رجعت پسندانہ باتیں ہیں۔