یہ ایک ایسا انتخاب ہے جس کے نتائج کا بھی انتخابات سے پہلے ہی چرچا ہے۔
انتخابات 2024ء کو بنیاد بناکر ایک بنیادی نوعیت کا سوال قومی، سیاسی و معاشی مستقبل کے بارے میں ہے۔ لوگوں میں غیر یقینی اور مایوسی کی صورت حال ہے اور ان کا اس بات پر یقین کمزور ہورہا ہے کہ ہمارا ریاستی، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام کسی درست سمت میں جارہا ہے۔ عمومی طور پر انتخابات اور ان کے نتائج کی بنیاد پر بننے والی حکومت سے کچھ مثبت تبدیلیوں کی امید پیدا ہوتی ہے، لیکن ہمارے یہاں پر لوگوں کو محسوس ہورہا ہے یا یقین ہوگیا ہے کہ انتخابات اور اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت بھی ہمارے مسائل حل نہیں کرسکے گی، کیونکہ اس وقت ملک کے جو سیاسی و معاشی حالات ہیں ان میں درستی یا بہتری کے بجائے مزید محاذ آرائی، بگاڑ، انتشار اور ٹکرائو کا ماحول غالب ہے اور یہ ماحول ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھ رہا ہے۔ انتخابات کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ ہم انتخابات کے نام پر ایک ایسا کھیل، کھیل رہے ہیں جس کے ذریعے ہم معاملات کو بند گلی میں دھکیل رہے ہیں۔ کیونکہ ہم انتخابات سے زیادہ ایک ایسی سلیکشن کی طرف جارہے ہیں جو مصنوعی بھی ہے اور اس میں بگاڑ کے پہلو بھی ہیں۔ اگرچہ یہ کوئی پہلے انتخابات نہیں جن میں دھاندلی یا پری پول رگنگ ہورہی ہے، لیکن اس دفعہ بہت زیادہ خرابیاں پیدا کرکے پورے انتخابی عمل کو ہی متنازع بنادیا گیا ہے۔ اب جو کچھ ملک میں ہورہا ہے یہ اگر جمہوریت، آئین، قانون اور سیاست کی بالادستی ہے تو اس سے ملک میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں،کیونکہ یہ سب کچھ سیاست اور جمہوریت نہیں بلکہ یہ عملاً ملک میں موجود طاقت ور طبقات کی حکمرانی سے جڑا نظام ہے۔ اس میں جو کچھ ہے وہ طاقت ور لوگوں کے لیے ہے، جبکہ عام اور کمزور آدمی کو اس نظام سے سوائے سیاسی اور معاشی استحصال کے کچھ نہیں ملے گا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو مجموعی طور پر اس سیاسی اور انتخابی نظام سے سخت مایوسی کا سامنا ہے۔ نئی نسل کی مقبول جماعت پی ٹی آئی کے ساتھ بھی جو کچھ ہوا ہے یا ہورہا ہے اس پر بھی ان نوجوانوں میں خاصی مایوسی پائی جاتی ہے، اور اگر لوگ سیاست کی طرف راغب ہوئے ہیں تو ان کو واپس غیر سیاسی کرنے یا ایک جماعت کی حمایت سے دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
انتخابات سے قبل ’’پری پول رگنگ‘‘ کا سلسلہ ختم ہی نہیں ہورہا، ایسا لگتا ہے کہ ہمارا سارا نظام ہی طاقت کے زور پر ایک جماعت کو کسی بھی سطح پر کوئی سیاسی سرگرمی کرنے یا سیاسی جگہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں پی ٹی آئی کے کارکنوں اور حامیوں کی گرفتاری کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور پی ٹی آئی کے انتخابی امیدواروں کو کسی بھی جگہ پر سیاسی سرگرمی کی اجازت نہیں۔ جو بھی ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے اسے گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ اب کہا جارہا ہے کہ یہ کھیل انتخابات والے دن بھی جاری رہے گا اور جو لوگ بھی پی ٹی آئی کو ووٹ دینا چاہتے ہیں انہیں مختلف نوعیت کی پابندیوں یا جبر کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر پی ٹی آئی کے سپورٹرز یا ووٹرز کو انتخابات والے دن بھی ووٹ ڈالنے سے روکا گیا تو یقینی طور پر اُس دن بھی کشیدگی یا تصادم بڑھنے کا امکان موجود ہے۔ کیونکہ اگر پی ٹی آئی کے لوگ ووٹ دینے آتے ہیں اور انہیں ووٹ دینے کی براہِ راست اجازت نہیں ملتی تو اس کا ردعمل پیدا ہوگا اور یہ طریقہ کار بلاوجہ اشتعال پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ حیرت ہے کہ ہمارے طاقت ور طبقے یا حکمران ایک جماعت کو پیچھے دھکیلنے کے لیے اس حد تک نیچے جاسکتے ہیں! اس کے نتیجے میں پورے انتخابی نظام کی ساکھ برباد ہوسکتی ہے۔ انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہونے کا یہ کھیل مستقبل کے سیاسی منظرنامے میں مزید مسائل پیدا کرنے کا سبب بنے گا، کیونکہ جس طرح سے انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جارہی ہے یہ تصادم پر مبنی پالیسی ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ ہم کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں، اور اپنی ضد اور اَنا کی بنیاد پر وہی کچھ کرنا چاہتے ہیں جو ماضی ہوتا رہا ہے۔ یہ درست حکمتِ عملی نہیں۔ ہم اس پورے کھیل میں یہ بھول رہے ہیں کہ جو ہمارا منصوبہ ہے اس سے ہماری سیاست اور جمہوریت کی کیا خدمت ہوسکتی ہے! پہلے سے موجود سیاسی تصادم، انتشار اور ٹکرائو کے اس ماحول کو کم کرنے کے لیے کوئی بھی بڑا تیار نہیں، اور واحد حکمتِ عملی اپنے تمام سیاسی مخالفین کوانتخابات میں شکست دینا نہیں بلکہ اُن کے وجود کو ہی ختم کردینا ہے۔اس لیے یہ جو انتخابات کی مشق ہورہی ہے اور جس پر اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں اس کی کوئی اہمیت یا ضرورت باقی نہیں رہی ۔کیونکہ ہم انتخابات سے پہلے ہی طے کرچکے ہیں کہ نتائج ووٹر کی مرضی کے بجائے ہماری مرضی کے ہوں گے تو کیسے جمہوری عمل آگے بڑھ سکے گا!
اسی ہفتے ہم نے بڑی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے انتخابی منشور دیکھے ہیں۔ ان جماعتوں کی سنجیدگی کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ منشور کے اجرا میں بھی انہوں نے تاخیر کی اور انتخابات سے محض دس دن قبل اسے جاری کیا، اور ظاہر کردیاکہ منشور ان کی سیاسی ترجیحات میں کہاں ہے۔ اسی طرح جوانتخابی منشور پیش کیے گئے ہیں ان میں سوائے بڑے بڑے سیاسی نعروں اور جذباتیت کے کچھ بھی نہیں ہے۔ لگتا ہی نہیں کہ سیاسی جماعتیں نظام میں بڑی تبدیلیوں کی خواہش مند ہیں، یا وہ عام آدمی کے حالات کو بدلنا چاہتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے منشور میں جو خواب دکھائے گئے ہیں اُن میں اور زمینی حقائق میں بہت زیادہ فرق ہے۔ انتخابات کا مقصد ووٹرز کی تعلیم و تربیت بھی ہوتی ہے، اور سیاسی جماعتوں کی یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ووٹرز سے جذباتیت کی بنیاد پر نمٹنے کے بجائے ان کے سامنے حقائق رکھیں، اور آپ جو بھی خواب دکھاتے ہیں ان کا کوئی زمینی تعلق بھی نظر آنا چاہیے۔ کاش پاکستان میں منشور کی سیاست قومی انتخابات کی اصل بحث کا حصہ ہوتی اور ووٹرز سمیت میڈیا میں اس کا بہتر او رمدلل انداز میں تجزیہ ہوتا کہ کون سی جماعت ایسی ہے جس کے پاس قومی ترقی کا روڈمیپ بہت واضح ہے او رہمیں اس جماعت کا انتخاب کرنا چاہیے۔ لیکن کیا کریں اپنی سیاست کے تماشے کا، جس میں عوام کے لیے کچھ بھی نہیں، اور عوام کو بنیاد بناکر سیاست اور جمہوریت کا کھیل کھیلنے والے اس ملک کی تقدیر سے بھی کھیل رہے ہیں۔ اسی نتیجے کی بنیاد پر عام آدمی کا مقدمہ کمزور اور طاقت ور طبقات کا مقدمہ طاقت پکڑ رہا ہے۔ ایسے میں بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ ہم اپنی سیاست، جمہوریت اور انتخابات کو کیسے عام آدمی کے مفادات کے ساتھ جوڑ سکتے ہیں؟ اس سے بھی بڑھ کر سوال یہ ہے کہ جب حقِ حکمرانی عوام سے چھین ہی لیا گیا ہے تو پھر عوام کی اپنی رائے اور انتخابات کے عمل کو کیسے شفاف بنایا جاسکتا ہے؟ اصولی طور پر تو اس ملک میں انتخابات ہوہی نہیں رہے، اور نہ ہی اس عمل کو ہمیں ’انتخابات‘ کہنا چاہیے۔ انتخابات کے نام پر یہ سلیکشن ہے، اور اس کھیل میں پہلے سے ہی کپتان اور ٹیم کا انتخاب کرلیا گیا ہے، اور باقی سارا کھیل ایک مصنوعی عمل کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔
یہ ایک ایسا انتخاب ہے جس کے نتائج کا بھی انتخابات سے پہلے ہی چرچا ہے۔ اول، اقتدار شریف خاندان کو ہی ملے گا چاہے وہ نوازشریف ہوں یا شہبازشریف۔ اسی طرح کہا جارہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو 80سے 90نشستیں، پیپلز پارٹی کو 50 سے 55، پی ٹی آئی آزاد کو 30سے 35، دیگر جماعتوں کو 25سے 30 دی جائیں گی، جبکہ آزاد ارکان 15سے 20ہوں گے۔ یہ اسکرپٹ ہے، دیکھنا ہوگا کہ نتائج اس اسکرپٹ سے کیسے مختلف ہوں گے۔ اول: اسکرپٹ کے تحت ماضی کی طرح پی ڈی ایم بشمول پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت ہوگی۔ دوئم: مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی کے آزاد ارکان کی استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت اور دیگر اتحادیوں کی مدد سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت، اور پیپلزپارٹی حزبِ اختلاف میں ہوگی۔ سوئم: پیپلزپارٹی، اتحادی جماعتوں بشمول پی ٹی آئی کے آزاد ارکان کو ملا کر پیپلز پارٹی کی حکومت۔ لیکن بہت سے سیاسی پنڈتوں کے بقول پہلا اور دوسرا آپشن ہی سامنے آسکے گا۔ رہی بات وزیراعظم کی، اگر نوازشریف کو سادہ اکثریت ملتی ہے تو وہ خود کو وزیراعظم کے طور پر پیش کریں گے، لیکن اگر سادہ اکثریت نہیں ملتی تو پھر قرعہ فال شہبازشریف کے نام بھی نکل سکتا ہے۔ ایسی صورت میں نوازشریف کی کوشش ہوگی کہ وہ پنجاب کے اقتدار میں اپنی بیٹی مریم نواز کو سامنے لائیں، لیکن اس کا امکان بھی بہت کم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسکرپٹ کے تحت پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تو ہوگی مگر وزیراعلیٰ شریف خاندان سے باہر کا ہوگا۔ آصف زرداری بڑی خاموشی سے اسلام آباد میں پہنچنے کے لیے سفارت کاری کررہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کھیل کے ان لمحات میں اسلام آباد سے اقتدار کے کھیل میں کچھ نہ کچھ حصہ حاصل کیا جائے جو ان کی اقتدار کی سیاست میں پوزیشن کو مستحکم کرسکے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت بننی ہے تو ان کے ایوانِ صدر کے راستے میں موجود رکاوٹوں کو اسٹیبلشمنٹ دور کرے تاکہ وہ خود کو آسانی سے ایوانِ صدر تک لے جاسکیں۔ جبکہ اس کھیل میں ایک اورکھلاڑی نوازشریف سمیت اسٹیبلشمنٹ کی حمایت چاہتا ہے، وہ مولانا فضل الرحمٰن ہیں جو چاہتے ہیں کہ ایوانِ صدر کے راستے ان کے لیے کھولے جائیں۔ یہ سارا نقشہ جو ہم نے کھینچا ہے وہ ایک اسکرپٹ کی کہانی کے گرد گھومتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اسی اسکرپٹ، یا اسی دائرے کے گرد گھومتی ہے، اور اسی وجہ سے ملک میں سیاست اور جمہوریت کا مستقبل ہمیشہ سے سوالیہ نشان رہا ہے۔ اب تو باقاعدہ آج کی اور مستقبل کی جمہوریت کو ایک ہائبرڈ جمہوریت یا کنٹرولڈ جمہوریت کے ماڈل کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جس میں سیاسی یا جمہوری قوتوں کے مقابلے میں اصل طاقت اور فیصلے کا ریموٹ کنٹرول کسی اور کے پاس ہوگا۔
ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ اگر الیکشن والے دن ٹرن آئوٹ 60فیصد ہوگا تو اس کا فائدہ عمران خان کو ہوگا، اور اگر ٹرن آئوٹ 40فیصد تک رہتا ہے تو اس کا فائدہ عمران خان کے مخالفین کو ہوگا۔ اس لیے پی ٹی آئی کے حامیوں کی توجہ کا مرکز ٹرن آئوٹ بھی ہے، او ران کا خیال ہے کہ حالیہ انتخابات میں ٹرن آئوٹ ماضی کے انتخابات کے مقابلے میں زیادہ ہوگا ،او راس کی وجہ نوجوان ووٹرز اور عمرا ن خان ہوں گے ۔ ممکن ہے یہ تھیوری اپنے اندر وزن رکھتی ہو،لیکن جو فیصلہ کرنے والے ہیں اُن کے دماغ میں بھی یہ خیال موجود ہوگا اور یقینی طور پر انہوں نے اب تک جو کچھ کیا او رجس انداز سے پی ٹی آئی کو بطور جماعت انتخابات کے عمل سے باہر نکالا ہے تو اس کا علاج بھی انہوں نے کسی نہ کسی سطح پر کیا ہوگا کہ نئی نسل کو کیسے انتخابات میں ووٹ ڈالنے سے روکنا ہے۔اگرچہ اسکرپٹ موجود ہے مگر کیا انتخابی سیاست میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ پہلے سے موجود اسکرپٹ کو شکست دے سکے؟ یہی بنیادی سوال ہے جو سیاسی پنڈتوں میں موجود ہے، اور ہر کوئی اپنی اپنی سطح پر اس کی تشریح کررہا ہے۔ لیکن اہم بات وہی ہے کہ پاکستان کی سیاست، جمہوریت او رمعیشت بہتری کے بجائے بگاڑ کی طرف جارہی ہیں اور انتخابات کے بعد کا جو منظر ہے وہ بھی خاصا دھندلا ہے۔ بدقسمتی سے اس کھیل میں سیاست، جمہوریت، انتخابات، آئین و قانون کی حکمرانی کی شفافیت کا عمل کمزور ہوگیا ہے اور بعض معاملات میں اس نے اپنی اہمیت بھی کھودی ہے۔ سیاسی قوتوں نے جس انداز سے اپنی جمہوریت کی اسپیس کو کم کیا اس کے نتیجے میں عدلیہ، میڈیا اور سول سوسائٹی بھی کمزور ہوئی ہے اور یہ جمہوری سیاست کی بڑی ناکامی بھی ہے۔