انتخابات 2024کچھ بدلے گا؟

قبل از انتخابات ان کے نتائج کی صف بندی جس پیمانے پر اِس بار ہورہی ہے ایسا پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔

8 فروری کو پاکستان کے مجوزہ انتخابات جس طرح ہورہے ہیں ان سے ملک کے سیاسی مسائل اور حالیہ بحران ختم ہوگا یا نہیں ہوگا، یہ بہت بڑا سوال ہے۔ ملک کا پورا انتخابی ماحول کشیدگی کا شکار ہے، اسی ماحول میں ووٹرز اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے، تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا کہ کیا انتخابات کے بعد ملک کے مسائل کم ہوں گے؟ خدشہ یہی ہے کہ یہ کم نہیں ہوں گے، بلکہ عین ممکن ہے کہ ملک کا سیاسی نظام ایک نئی افراتفری اور مشکل کی طرف بڑھ جائے۔ گزشتہ انتخابات میں نوازشریف مشکل میں تھے، اِس بار عمران خان مشکل میں ہیں۔اب عدالت نے سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو دس سال قید کی سزا سنا دی ہے۔ یہ فیصلہ انتخابات سے 7 روز قبل آیا ہے۔ انھی مسائل کے باعث ملک میں انتخابی مہم بھی پُرجوش نظر نہیں آرہی ہے۔ انتخابات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ مرکز میں اہم ترین سیاسی عہدے بلوچستان کے پاس ہیں، اس کے باوجود بلوچستان میں بے چینی ہے، یہ پہلو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے ملک میں ایک ایسی ہوا ضرور چلتی ہے جو پہلے سیاسی لیڈر بناتی ہے پھر انہیں خود ہی تباہ کرتی ہے۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغن، جبری گمشدگیوں پر لگام لگانے میں ناکامی اور ناقدین کو سزا دینے کی مہم چلانے جیسے عوامل بھی کوئی ڈھکی چھپی یا راز کی بات نہیں تھے۔سیاسی راہنمائوں کی ان خرابیوں کے باوجود پارلیمنٹ کی تشکیل اور قومی انتخابات ملک کی ضرورت ہیں۔ آٹھ فروری کو عوام میں سے ووٹ دینے کے اہل 125 ملین شہری اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔ واضح طور پر ایسے انتخابات جمہوریت کی ترجیح ہوتے ہیں جن میں قانونی اور آئینی لحاظ سے اہلیت کے حامل ہر شہری کو انتخاب لڑنے کی اجازت ہو، اور تمام سیاسی جماعتوں کو برابر کا میدان دستیاب ہو۔ سیاسی راہنمائوں کی تخلیق کرنے والی ہوا اور سیاسی نظام میں موجود کچھ خرابیوں کے باعث ملک میں عام آدمی کی سماجی حالت نہایت قابلِ رحم ہے، عوام کے حالات رونگٹے کھڑے کردینے والے ہیں۔ پینے کا صاف پانی ہے، نہ نکاسیِ آب… روزگار ہے نہ خوشحالی… تقریباً ساٹھ فیصد لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، انہیں دلچسپی ہے تو صرف اپنے اپنے مسئلوں سے جو میونسپل حکومتوں کے دائرۂ کار میں آتے ہیں، جنہیں کبھی بھی پنپنے ہی نہیں دیا گیا۔ جو غربت و افلاس ملک میں ہے وہ ناقابلِ بیان ہے۔ قومی سیاست بری طرح تقسیم ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اگرچہ منشور دیا ہے لیکن ملک کے مسائل کہیں بڑے ہیں، اس کے باوجود سیاسی راہنما وزارتِ عظمیٰ کے منصب کے حصول کی دوڑ میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے لیے بے تاب ہیں۔ وزیراعظم بننے کے خواہش مند نوازشریف کے پاس کوئی بیانیہ ہے نہ عوامی پروگرام… اُن کے پاس صرف موٹر ویز کا ہی بیانیہ ہے۔ سماجی خدمات کے لیے اُن کی ترجیحات تلاش کرنا مشکل ہے۔ بجلی آج کی بنیادی ضرورت ہے، اس کا حال یہ ہے کہ لوگ بجلی کے بھاری بلوں پر رو رہے ہیں اور ملک میں توانائی کا خسارہ ہے کہ اب 5700 ارب روپے کو چھونے لگا ہے۔ انتخابی مہم کے حوالے سے ہمارے برقی ذرائع ابلاغ کے اپنے زائچے ہیں جن کا زمینی حقائق سے دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے، جو کچھ یہاں بیان کیا جارہا ہے زمینی حقائق اس سے بہت مختلف ہیں۔ برقی ذرائع ابلاغ کی انتخابات کے حوالے سے تجزیاتی رپورٹنگ نہایت سطحی سی ہے، رائے عامہ کے جائزوں سے بھی سچائی برآمد نہیں ہورہی۔ اہم ترین پہلو یہ ہے کہ ملک میں قبل از انتخابات ان کے نتائج کی صف بندی جس پیمانے پر اِس بار ہورہی ہے ایسا پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ متعدد تجزیہ نگاروں کے خیال میں انتخابی نتائج سیاسی استحکام کے بجائے انارکی اور عوامی بداعتمادی کو بڑھائیں گے۔ انتخابی مہم کا پھیکا پن بھی اس بات کا پتا دے رہا ہے کہ لوگوں کی اکثریت کا عدم شفافیت کے باعث انتخابات پر سے اعتماد تقریباً اُٹھ گیا ہے۔ رہی سہی کسر 8 فروری کو پوری ہوجائے گی جب انتخابی دوڑ میں شریک جماعتوں میں سے کسی نہ کسی کو تو شہہ مات ہوگی۔

سیاسی لحاظ سے پولنگ ڈے سیاسی یوم حساب ہے، بارہ کروڑ ووٹرز اس روز نامۂ اعمال سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں دیں گے۔ یہ نامۂ اعمال کس کے دائیں ہاتھ میں اور کس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، اس بارے میں پولنگ کے اگلے روز سب کچھ سامنے آجائے گا۔ بلاشبہ یہ انتخابات ہمارے ملک کے سیاسی اور معاشی مستقبل کے لیے بہت اہم ہیں۔ سیاسی جماعتیں ووٹرز کے دروازوں پر دستک دے رہی ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ ووٹرز کی رائے ملک میں کیا نتیجہ لاتی ہے۔ ووٹرز ماضی کی تزئین و آرائش کرتے ہیں، یا ملک میں غیر سودی معاشی نظام اور اسلام کا مکمل عملی نفاذ چاہنے والی جماعت اسلامی کا ہاتھ تھامتے ہیں، آئندہ چند روز میں سب کچھ نکھر کر ہمارے سامنے ہوگا۔

14اگست1947ء کو یہ ملک سیاسی و سماجی انصاف اور دینِ الٰہی کی حاکمیت قائم کرنے کے لیے لاکھوں قربانیوں سے بنا۔ اس ملک نے انائوں کے قلعوں کے باعث سانحۂ سقوطِ مشرقی پاکستان بھی دیکھا۔ اپنے مستقبل کی بہتر تعمیر کے لیے جس نے بھی اس ملک کو لوٹا، قانون سے کھلواڑ کیا، ان سب کو مسترد کرکے ہی قوم اور ملک آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ان انتخابات کو بدعنوان سیاسی قیادت کی تطہیر کا ذریعہ بن جانا چاہیے۔ 8فروری پھر ایک تابندہ مستقبل کے امکانات لے کر آرہی ہے، صرف پانچ روز باقی رہ گئے ہیں۔ واہگہ سے گوادر تک رائے دہندگان کے ہاتھ میں اندھیرے بھگانے، غیر سودی نظام ختم کرنے اور عدل، سلامتی اور اجالے پھیلانے والے مستقبل کی چابی ہوگی، اس روز یہ مساعی ضائع نہیں ہونی چاہیے۔ اس روز ہی یہ فیصلہ بھی ہوگا کہ دنیا تو مصنوعی ذہانت سے اپنا مستقبل بنا رہی ہے، کیا ہم اپنی ذہانت سے ’’بد عنوان ماضی‘‘ دفن کرتے ہیں یا اسے مزید موقع دیتے ہیں۔ماضی میں بہت نا انصافیاں ہوئی ہیں۔ بہت مظالم ڈھائے گئے ہیں۔ انتشار اور افراتفری رہی ہے، اس بحران سے 8فروری ہمیں اسی صورت میں نکال سکتی ہے کہ ملک بھر میں رائے دہندگان ووٹ ڈالتے وقت اپنے ضمیر کی آواز سنیں۔ کسی دبائو یا لالچ میں نہ آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو باہمت، جفاکش 25 کروڑ انسان دیے ہیں، اس کی 60فی صد آبادی نوجوان ہے۔ قدرت کی یہ بے حساب نعمتیں ماضی میں لوٹ مار کرنے والے چند گھرانوں کے قبضے میں نہیں رہنی چاہئیں۔

بلاول اور مریم دونوں نئے نہیں بلکہ بد عنوان ماضی کے نمائندے ہیں۔ تحریک انصاف کے ’’آزاد‘‘ نہ معلوم کس کے نمائندے ہوں گے؟ اپنی انتخابی مہم میں بلاول بھٹو نے جو بھی کہا یہ پٹی انہیں پہلے سے ہی پڑھائی گئی تھی۔ انہیں یہ بات سمجھائی گئی تھی کہ پیپلزپارٹی کا ووٹر تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) کی طرف جھک گیا ہے، اسے واپس لانا ہے، لہٰذا مسلم لیگ(ن) کو ہدف بنانا ہے اور تحریک انصاف کی حمایت حاصل کرنی ہے۔ لیکن پیپلزپارٹی کا یہ بیانیہ پنجاب میں نہیں چل سکا۔ بلاول کو عمران خان اور مسلم لیگ(ن) کی جانب سے سخت جواب ملا۔ گزشتہ تین انتخابات کا اگر جائزہ لیا جائے تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھی پنجاب سے پیپلزپارٹی کو قابلِ ذکر کامیابی نہیں ملی۔ 2008ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی پنجاب کی 141 نشستوں میں سے صرف 18 نشستوں پر کامیاب ہوئی تھی۔ 2013ء میں اسے راولپنڈی، گوجرانوالہ، فیصل آباد، سرگودھا اور لاہور ڈویژن سے کوئی نشست نہیں ملی تھی، جبکہ 2018ء میں صرف راجا پرویز اشرف کی ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ وسطی پنجاب کے پانچ اضلاع میں گزشتہ دو انتخابات میں پیپلزپارٹی کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ انتخابی نتائج بتاتے ہیں کہ کوئی بھی امیدوار دوسرے نمبر پر بھی نہ آسکا اور بیشتر کی تو ضمانتیں تک ضبط ہوگئیں۔ تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ پیپلزپارٹی کا سیاسی تشخص اُس کی گزشتہ حکومت کی کارکردگی اور اُس کی قیادت کی وجہ سے خراب ہوا۔8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے لیے پیپلز پارٹی نے وسطی پنجاب کے تقریباً تمام حلقوں سے امیدوار میدان میں اُتارے ہیں، تاہم سیاسی حلقوں کے مطابق بلاول بھٹو زرداری، راجا پرویزاشرف، قمر زمان کائرہ اور ندیم افضل چن کے سوا باقی تمام نشستوں پر امیدوار صرف کاغذی کارروائی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کے لیے راولپنڈی، گوجرانوالہ، لاہور، ساہیوال اور سرگودھا ڈویژن میں 79 امیدواروں کو ٹکٹ دیے ہیں۔ ان میں ایک سابق وزیراعظم اور تین سابق وفاقی وزرا شامل ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری لاہور میں بہت زور لگارہے ہیں، جیت گئے تو وہ یہ نشست اپنی ہمشیرہ آصفہ کے لیے چھوڑیں گے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اب پنجاب کو ہدف بناکر لاہور میں ڈیرے ڈال لیے ہیں، الیکشن مہم کے بجائے انہوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے آزاد امیدواروں سے رابطوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور جنوبی پنجاب سمیت سینٹرل پنجاب، خیبرپختون خوا اور بلوچستان و سندھ میں الیکشن لڑنے والے آزاد امیدواروں پر نظریں جما لی ہیں۔ پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے صدر احمد محمود کو ہدایات دی گئی ہیں کہ جنوبی پنجاب میں جتنے بھی آزاد امیدوار ہیں ان کی مکمل تفصیلات بتائی جائیں کہ ان امیدواروں کی اپنے حلقوں میں کیا پوزیشن ہے۔ کے پی کے میں بھی پیپلزپارٹی کے راہنمائوں کو کہا گیا ہے کہ خیبر پختون خوا اور فاٹا سے انتخابات میں حصہ لینے والے تمام آزاد امیدواروں سے جوڑ توڑ کیا جائے۔ پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ آزاد امیدوار اس کے حق میں دست بردار ہوجائیں یا انتخابی نتائج کے بعد پارٹی میں شامل ہوجائیں۔ آصف علی زرداری کا خیال ہے کہ پنجاب اور خیبرپختون خواسے بہت بڑی تعداد میں آزاد ارکان انتخابات میں کامیابی حاصل کریں گے، اس لیے ابھی سے ان آزاد ارکان سے رابطوں کا آغازکیا گیا ہے۔ انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کی کامیابی کی صورت میں ان آزاد اراکین کو اپنے ساتھ ملا کر حکومت بنائی جائے گی۔

پاکستان کے عام انتخابات میں حصہ لینے والوں میں ملک کے روایتی اور بااثر سیاسی گھرانوں کی چھاپ ہمیشہ سے ہی بہت نمایاں رہی ہے۔ اب ایک امیدوار کے طور پر ان انتہائی مہنگے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے عام نظریاتی کارکنوں کے لیے آگے آنا اور بھی مشکل ہوگیا ہے۔ ماضی کی طرح اب بھی بیشتر بڑی سیاسی جماعتوں نے ان انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اپنے رشتے داروں یا انتہائی مالدار افراد کو پارٹی کارکنوں پر ترجیح دی ہے۔ روایتی گھرانوں کے افراد کے جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچنے سے ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو تقویت ملے گی اور عام آدمی کی فلاح کے لیے کوئی بڑی اور بنیادی تبدیلی آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

بری فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نوجوانوں سے مخاطب

انتخابی مہم جاری ہے اور آرمی چیف بھی متحرک ہیں۔ جنوری میں پہلے انہوں نے ملک بھر سے کسانوں کو اسلام آباد بلایا اور ان سے خطاب کیا، جس کے ذریعے انہوں نے اپنے لیے کسانوں کی حمایت سمیٹی، اب گزشتہ ہفتے طلبہ اور نوجوانوں کو جناح کنونشن سینٹر میں اکٹھا کیا جہاںان سے خطاب کیا، ان کے سوالوں کے جواب دیے۔ یہ نشست بھی ان کے لحاظ سے بہت کامیاب رہی۔ اس نشست میں نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ بھی موجود تھے تاہم انہوں نے کلیدی گفتگو کی نہ شریکِ محفل کسی نوجوان نے اُن سے سوال کیا۔ شرکائے محفل کو اچھی طرح علم تھا کہ گفتگو کس کو کرنی ہے اور سوال کس سے کرنا ہے۔ یہ تقریب لگ بھگ دو گھنٹوں پر محیط تھی۔ تقریب کا آغاز قرآن مجید کی سورہ حجرات کی ان آیات سے ہوا کہ ’’کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو پوری طرح تحقیق کرلیا کرو تا کہ تم گمراہی اور فساد سے بچے رہو‘‘۔ تقریب میں چاروں صوبوں، کشمیر اور گلگت بلتستان سے آئے سیکڑوں نوجوان شریک ہوئے۔ آرمی چیف نے اپنی تقریر کے دوران سوشل میڈیا کو شیطانی میڈیا کہہ کر پکارا،تقریر کے دوران قرآن پاک کے حوالے تسلسل اور کثرت کے ساتھ دیے اور کہا کہ جنہوں نے سوشل میڈیا تخلیق کیا ہے کیا انہوں نے خود اسے وہ آزادی فراہم کر دی ہے جس’’آزادی‘‘ نے ہماری تہذیب کا بیڑہ غرق کیا؟گویا اس تقریب میں انہوں نے سوشل میڈیا کے پروپیگنڈے اور بلیک میلنگ کو اعتماد اور دلیل کے ساتھ مکمل طور پر رد کیا۔ آرمی چیف نے تقریر کے دوسرے حصے میں اسلامی اقدار اور مشرقی تہذیب کے بجائے یورپی تہذیب سے مرعوبیت پر سخت تنقید کی اور قرآن پاک سے جابجا حوالے دیے،ریاست مدینہ اور ریاست پاکستان کی مماثلت کا جائزہ پیش کیا، انہوں نے اپنے دلائل کا اختتام اس پر کیا کہ ریاست مدینہ نے پڑوس کی ریاست خیبر کے ساتھ معاہدہ کیا اور ریاست پاکستان نے قلات اور بہالپور ریاستوں کے ساتھ معاہدے کیے۔ پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی زیربحث آئی تو کھل کر کہا کہ افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور ہم نے چالیس سال سے زائد اُن کی مہمان نوازی کی، لیکن ان کو اپنے رویّے پر سوچنا ہوگا۔ مزید کہا کہ ایران ہمارا ہمسایہ اسلامی ملک ہے اور ہمیں ایران کا بہت احترام ہے، لیکن ایران کو بھی اسی جذبے کا مظاہرہ کرنا ہوگا، اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر ہم وہی کریں گے جو کیا۔ ان کے اس جملے پر کنونشن سینٹر کا پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔آخری سیشن میں سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو قدرے سخت سوالات بھی ہوئے۔ایک نوجوان نے کہا کہ ہمارے ملک میں آزادیِ اظہارِ رائے نہیں، تو جواب ملا کہ اگر کوئی شخص اپنی ماں یا باپ کو گالیاں بکنا شروع کر دے تو کیا اس مکروہ عمل کو اظہارِ رائے کی آزادی کہہ کر اسے ایسا کرنے دیا جائے؟
سوال جواب کے بعد تقریب اختتام کو پہنچی۔ اس تقریب کا اصل پیغام یہ تھا: الجھاؤ سے نکل کر معاشی استحکام کی طرف پیش قدمی اور سوشل میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈے کے خلاف اعلان ِجنگ!!