مصنف کی یہ اُن تحریروں کا مجموعہ ہے جو 2016ء اور 2017ء کے درمیان لکھی گئیں اور کالموں کی صورت میں شائع بھی ہوئیں۔ مذہب کے حوالے سے سماج اور سیاست کا تجزیہ اور مذہب کی تعبیر ان کا اصل میدان ہے۔ ان کالموں سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے تمام معاملات پر کھل کر بات کی ہے۔ اصل میں یہ کالم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں اور انسان کو بہت زیادہ گہرائی سے سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ان کے سوچنے کا انداز تخلیقی ہے جس کی ہمارے ہاں بہت کمی محسوس کی جارہی ہے۔ وہ اپنی سوچ کو الفاظ کا جامہ بہت احسن طریقے سے پہناتے ہیں۔ پاکستانی سیاست اور سماج کی نظریاتی الجھنوں اور فکری مغالطوں سے چھیڑ چھاڑ ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ انہوں نے اسے اپنا فریضہ قرار دے لیا ہے۔ ایک المیہ یہ بھی ہوا کہ تقسیم ہند کے بعد ہماری اجتماعی دانش وہ راہنمائی فراہم نہیں کرسکی جس کی اس قوم کو ضرورت تھی، تاہم چند متفرق کوششیں ضرور جاری رہیں جنہوں نے فکری سطح پر اس زوال کو اپنا مخاطب بنایا۔ اسی ضمن میں ایک رائے یہ سامنے آئی کہ ساری سعی و جہد میں جو چیز مسلسل نظرانداز ہوئی وہ سماج ہے۔ اصلاح کا محور نظامِ اقدار کو ہونا چاہیے جن کی بنیاد پر کوئی معاشرہ وجود میں آتا ہے۔
مصنف نے اپنی متفرق علمی و سماجی کاوشوں میں نظام اقدار کی مرکزیت کو نمایاں کیا ہے اور سماجی اصلاح میں مذہب کو ایک اہم عامل کے طور پر پیش کیا ہے۔ یوں ان کی تحریروں میں مذہب ایک مثبت طاقت کے طور پر سامنے آیا۔ انہوں نے اپنے اخباری کالموں کو تبلیغ کا ذریعہ بنایا۔ ان کے یہ کالم وسیع النظر حیثیت کے حامل نظر آتے ہیں۔ اس مجموعے میں وہ کالم شامل ہیں جن میں مذہب، ریاست اور سماج کے باہمی تعلق کو نمایاں کیا گیا ہے۔ یہ مذہب کے اجتماعی کردار کی تشکیلِ نو کی سمت ایک اہم قدم ہے۔ دینی اور سیاسی مسائل میں ہم بہت عرصے سے ایک بحران سے گزر رہے ہیں، نظریہ پاکستان کی بحث کو فکری انتشار میں الجھا دیا گیا ہے۔ مصنف نے اپنے کالموں میں قومی بیانیے کو صراطِ مستقیم پر لانے کی کوشش کی ہے اور سوچنے سمجھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ امید ہے کہ ان کے کالموں کا یہ مجموعہ پاکستان کی سماجیات پر ایک فکر انگیز بحث کا آغاز ثابت ہوگا۔
کتاب خوب صورت سرورق کے ساتھ بہترین گلینرڈ کاغذ پر اعلیٰ طبع ہوئی ہے۔