ارضِ فلسطین مقدس اور محترم قطعہ ارضی ہے، وہاں مسجدِ اقصیٰ ہے، جو امتِ مسلمہ کے نزدیک قابلِ احترام و تعظیم ہے۔ حدیث میں جن تین مساجد کی طرف سفر کرنے کی تاکید آئی ہے، ان میں خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ کے ساتھ مسجد اقصیٰ بھی شامل ہے۔ ارضِ مقدس انبیا کا مسکن ہے، بے شمار انبیا اس سرزمین پر آئے اور انہوں نے دعوت کا کام کیا۔ یہ زمین ان کا مدفن بھی ہے، ان کی قبروں کے آثار آج بھی پائے جاتے ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو بابرکت بنایا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے موقع پر اس سرزمین پر انبیاء کرام علیہم السلام کی امامت فرمائی اور آپؐ امام الانبیا قرار پائے۔ اس سرزمین کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عیسائیوں کے تصرف سے آزاد کرایا۔ پھر جب یہ دوبارہ عیسائیوں کے زیر تصرف آئی تو اللہ تعالیٰ نے سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کو پیدا فرمایا۔ انہوں نے اللہ رب العزت کی توفیق اور حسنِ تدبیر سے اس سرزمین کو عیسائیوں کے تصرف سے آزاد کرایا۔
حقیقت یہ ہے کہ آج تک فلسطینیوں کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے، اس کی پوری ذمہ داری یورپ اور امریکہ پر عائد ہوتی ہے، بالخصوص برطانیہ نے یہودی مملکت قائم کی اور امریکہ نے سلامتی کونسل میں ہر مرتبہ یہودی مملکت کا دفاع کیا۔ حد یہ ہے کہ امریکہ نے سب سے زیادہ یہودی مملکت کے دفاع میں ہی ویٹو پاور کا استعمال کیا ہے، اس کے باوجود امریکہ اور یورپ خود کو حقوقِ انسانی کا علَم بردار کہتے نہیں تھکتے، وہ مسلم ملکوں کو حقوقِ انسانی کی تاکید کرتے ہیں اور فلسطین کے معاملات پر آنکھیں موند لیتے ہیں۔ اقبال نے یورپ اور امریکہ کی دورُخی کا کتنا بہتر نقشہ کھینچا ہے:
اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملتِ مظلوم کا یورپ ہے خریدار
جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہ دشوار
ترکان ’جفا پیشہ‘ کے پنجے سے نکل کر
بے چارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار
آج بے حسی کا یہ عالم ہے کہ روزانہ اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں فلسطینی عورتوں، مردوں، بچوں، بوڑھوں سبھی کی اموات کی خبریں سنتے ہیں اور دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ضرورت ہے کہ ان حالات میں فلسطین کے نام اور کاز سے عوام کو باخبر رکھا جائے تاکہ لوگ فلسطین کے مسئلے سے جڑے رہیں، بے گانہ نہ ہوجائیں۔ اسی ضرورت کے پیش نظر ’’صدائے فلسطین‘‘ نامی کتاب مرتب کی گئی ہے جس میں فلسطین کا تاریخ کی روشنی میں جائزہ لیا گیا ہے اور موجودہ دور میں فلسطین کی حالتِ زار اور یہودیوں کے ظلم و ستم کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
یہ کتاب قارئین کے افسردہ و سرد دلوں میں بیت المقدس کی محبت اور ایک نئی حرارت پیدا کرے گی، اور عشق کی دبی ہوئی چنگاریاں متحرک اور مشتعل ہوں گی۔ ایک عجمی نژاد اور دور افتادہ کے اس سے زیادہ کچھ اور بس میں نہیں۔
کتاب خوب صورت سرورق کے ساتھ بہترین کاغذ پر اچھی طبع ہوئی ہے۔