انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد صحابہ کرامؓ کی مقدس جماعت تمام مخلوق سے افضل اور اعلیٰ ہے۔ وہ آسمانِ رسالتؐ کے درخشندہ ستارے ہیں۔ یہ عظمت اور فضیلت صرف صحابہ کرامؓ کو ہی حاصل ہے کہ اللہ نے انہیں دنیا ہی میں مغفرت، جنت اور اپنی رضا کی ضمانت دی ہے، بہت سی قرآنی آیات اور احادیث اس پر شاہد ہیں۔ صحابہ کرامؓ سے محبت کرنا اور نبی کریمؐ نے احادیثِ مبارکہ میں ان کے جو فضائل بیان کیے ہیں ان کو تسلیم کرنا ایمان کا حصہ ہے۔ بہ صورتِ دیگر ہمارا ایمان ناقص ہے۔ صحابہ کرامؓ کے ایمان و وفا کا انداز اللہ تبارک و تعالیٰ کو اس قدر پسند آیا کہ اسے بعد میں ہر آنے والے پر، ایمان لانے کے لیے کسوئی قرار دے دیا۔ یوں تو بعض پہلو اس قدر درخشاں، منفرد اور ایمان افروز ہیںکہ ان کو پڑھنے اور سننے والا دنیا کا کوئی بھی شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ صحابہ کرامؓ کے ایمان افروز تذکرے اور سوانح حیات کے حوالے سے ائمہ محدثین اور اہلِ علم نے کئی کتب تصنیف کی ہیں۔ اسی طرح اردو زبان میں کئی امہات الکتب موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’نقوشِ صحابہ‘‘ خالد محمد خالد کی عربی تصنیف ’’رجال حول الرسول‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ ترجمہ کی سعادت ہمارے فاضل دوست ارشاد الرحمن صاحب مدظلہ العالی کے حصے میں آئی ہے۔ یہ کتاب نہایت ہی مفید اور فیض یاب کرنے والی ہے۔
گزارشات میں مترجم لکھتے ہیں:
’’نقوشِ صحابہؓ ان پاکیزہ انسانوں کی داستانِ زندگی ہے جو قرآن مجید کے اوّلین مخاطب تھے۔ قرآن نے ان کی زندگیوں کو ہدایت کی شاہراہ پر ڈال دیا تھا اور ان کے اندر ایمان کی ایسی طاقت اور عزم کی ایسی چنگاری بھردی تھی کہ اس خاصیت نے اُسی دور کے انسانوں کو حیرت سے دوچار نہیں کیا بلکہ آج تک جو بھی انسان ان کی زندگیوں کی روداد پڑھتا اور سنتا ہے وہ ہل کر رہ جاتا ہے۔ تاریخ کے صفحات پر ثبت ہونے والے یہ دائمی نقوش قرآن کی ابدی تعلیمات کا عملی نمونہ ہیں۔ یہ لوگ قرآن کے مخاطب بھی تھے اور اس کے نزول کا سبب بھی۔ قرآن کی بیشتر آیات کا سبب انھی کرداروں سے وابستہ ہے۔ ان لوگوں کی زندگیوں سے بے نیاز ہوکر قرآن کو سمجھنا اور اس کی تفسیر کرنا ممکن نہیں ہے‘‘۔
تعارف میں عتیق الرحمن صدیقی رقم طراز ہیں:
’’نقوشِ صحابہؓ پاک دل و پاک باز انسانوں کی عنبر فشاں سیرتوں کا ایک خوب صورت اور دل آویز مجموعہ ہے۔ یہ ترجمہ بھی ہے اور ترجمانی بھی۔ گلہائے رنگ رنگ کے تنوع اور مرتب کی حسن طبیعت نے اس کتاب کو ایک نیا رنگ و آہنگ عطا کیا ہے۔ یہ خدوخال ہیں اُن نفوسِ قدسیہ کے، جو براہِ راست حضور نبی کریمؐ کے جمالِ جہاں آرا سے آسودۂ بصارت ہوئے۔ آپؐ کے دامنِ عطوفت میں حزف ریزوں سے لعل و گہر بنے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوشِ جاوداں سے ہم آغوش ہوکر وہ تابانی و درخشانی پائی کہ ایک جہاں کو ضوفشاں کیا۔
آج ضرورت ہے کہ تمام سماجی برائیوں کو دور کرنے اور جملہ مسائل کو حل کرنے کے لیے ان کے اخلاق و کردار اور طریقہ کار کو عوام الناس میں پھیلائیں۔ اگر ہم ان کی خوبیوں کو اپنالیں تو دنیا کی قیادت ہم سے دور نہیں ہوگی اور ظلم کا سدباب بھی ہوجائے گا، کیوں کہ جب روئے زمین پر اخلاق کا جنازہ نکل چکا تھا اور انسانیت ختم ہوچکی تھی تو یہ لوگ نبیؐ کی تربیت میں رہ کر جس راہ پر چلے، سب گل و گلزار بن گئے۔ صحابہ کرامؓ کی تعلیمات ملک و ملّت کے لیے بہت مفید ہیں، جن کو اپناکر سسکتی ہوئی انسانیت کا علاج بھی ممکن ہے۔ صحابہ کرامؓ ہمارے لیے اسوہ ہیں، ہم ان کی نہج پر گامزن رہیں گے تو راہِ ہدایت پر قائم رہیں گے، جب ہم ان کے راستے کو چھوڑ دیں گے تو شیطان ہمیں بھٹکا دے گا۔ صحابہؓ کی تعلیمات تمام اخلاقی مشکلات و مسائل کا واحد حل ہیں۔ جب ان کے طریقے کی پیروی کریں گے تو ہمارے اندر اتحاد و یگانگت اور اتفاق پیدا ہوگا، اور جب ان کے راستے سے دور ہوں گے تو پستی میں جا گریں گے۔ یہ کتاب بنیادی طور پر درجنوں کتابوں سے ماخوذ نہیں ہے، اس کے چند مآخذ و مصادر ہیں جن کی فہرست کتاب کے آخر میں دی گئی ہے۔ صاحبِ کتاب نے کتاب کے آغاز میں معمارِ نقوش حضرت محمدؐ کی معجز نما سیرت پر بڑے سلیقے سے گفتگو کی ہے۔ ان ارفع و اعلیٰ اور دل کشا نقوش کا تذکرہ کیا ہے جو محسنِ اعظمؐ کی سیرتِ مطہرہ میں بدرجہ اتم موجود تھے، اور وہی نقوش اطاعت ِرسولؐ کے نتیجے میں ان راہروانِ راہِ محبت کی سیرتوں میں مرتسم ہوتے چلے گئے۔ آپؐ کا ایک ایک نقشِ قدم اور ایک ایک نشان ِراہ ان کے لوحِ دل پر نقش ہوتا چلاگیا۔ وہ انھی راہوں پر جادہ پیما ہوئے جو ان کے مربی و محسن نے ان کے لیے متعین کی تھیں۔
اس کتاب میں اُن نفوس ِقدسیہ کا ذکر ہے جنہوں نے نبی کریمؐ کے ساتھ زندگی کا بہترین وقت گزارا اور دنیا کے سامنے اپنا عملی نقش چھوڑ گئے، کتاب میں ہر صحابی کی شخصیت کو اس انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ معاشرتی زندگی کے واقعات بھی ہوں اور ان کی انفرادی حیثیت بھی سامنے آجائے۔ یہ ’’نقوش‘‘ ادبی حوالے سے سوانح نگاری کی اُس صنف میں شامل ہیں جسے خاکہ نگاری کہا جاسکتا ہے۔ ’’نقوشِ صحابہ‘‘ بیانِ واقعات کے حوالے سے بہ یک وقت تاریخ اور ادب کے تقاضے پورے کرتی ہے۔ کتاب بلاشبہ صحابہ کرامؓ کی زندگیوں کا خوب صورت مرقع ہے اور اس موضوع پر موجود لٹریچر میں ایک اضافہ ہے۔
’’نقوشِ صحابہ‘‘ میں 55 صحابہ کرامؐ کی حیاتِ دینوی کے بہت سے گوشوں پر خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ اس میں ان مبارک نفوس کی پاکیزہ زندگیوں کے وہ حقائق ہیں جو تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں اور اِن شاء اللہ رہیں گے۔
کتاب میں جن صحابہ کرامؓ کا تذکرہ ہے ان کے نام یہ ہیں:
حضرت مصعب بن عمیرؓ، حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت سلمان فارسیؓ، حضرت ابوذر غفاریؓ، حضرت بلال بن رباحؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت زید بن حارثہؓ، حضرت عمار بن یاسرؓ، حضرت جعفر بن ابی طالبؓ، حضرت خالد بن ولیدؓ، حضرت ابودرداؓ، حضرت ابو ایوب انصاریؓ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت حبیب بن زیدؓ، حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت اسامہ بن زیدؓ، حضرت عمرو بن العاصؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ۔
دینوی کتاب کی زبان سہل، فصیح و بلیغ ہے اور اس قابل ہے کہ وہ ہر گھر میں موجود ہو اور اجتماعی طور پر پڑھ کر سنائی اور اس سے علم ہدایت حاصل کی جائے۔
پاکستان کے مشہور ”موٹی ویشنل اسپیکر“ ساحل عدیم نے پانچ کتابوں نقوش صحابہ کو زیر مطالعہ رکھنے کا مشورہ دیا ہے۔ خوب صورت سرورق کے ساتھ منشورات نے اس کتاب کو شایانِ شان اہتمام سے شائع کیا ہے۔