غزہ کی مزاحمت :اسرائیل نہتے شہریوں کو نشانہ بنانے کی ذہنیت

(چھٹی قسط)

پہلے ہی دن کی کارروائی میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں کم از کم 16 بچے یا تو جان سے گئے یا جان لیوا حد تک زخمی ہوئے۔ ڈرون کی مدد سے کیے گئے ایک میزائل حملے میں کالج کے 9 طلبہ کی جان گئی۔ ان میں 2 لڑکیاں شامل تھیں۔ یہ لوگ اپنے گھر واپس جانے کے لیے اقوام متحدہ کے تحت چلائی جانے والی بس کا انتظار کررہے تھے۔ ہیومن رائٹس واچ نے جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ جس وقت شہری آبادی پر حملہ کیا گیا تب وہاں حماس یا کسی اور گروپ کا کوئی بھی مسلح کارکن اسرائیلی فوج پر حملے کے لیے موجود نہیں تھا۔ آپریشن کاسٹ لیڈ جیسے جیسے بڑھتا گیا، نمایاں حیثیت کے حامل اسرائیلیوں نے حماس کی طرف سے میزائل اور راکٹ داغے جانے کی روک تھام کا بہانہ پیش کرنا بھی چھوڑ دیا۔ وزیر دفاع ایہود بارک کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا کہ اسرائیلی فوج کی کارروائی کا بنیادی مقصد کسی بھی اعتبار سے حماس جیسے دشمن کو سبق سکھانے سے زیادہ 2006ء کی یادوں کو مٹانا اور اُس وقت کی خفت سے جان چھڑانا ہے۔ دوسرے نمایاں اسرائیلیوں نے کہا کہ لبنان کے لیے غزہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کسی امتحان میں دوسری بار بیٹھے۔ یہ گویا اسرائیل کے لیے معاملات درست کرنے کا ایک اچھا دوسرا موقع تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ اسرائیل نے غزہ کو محض 20 سال پہلے کے زمانے میں نہیں بلکہ 1940ء کے عشرے میں دھکیل دیا ہے۔ بات کچھ یوں تھی کہ غزہ کی لڑائی نے بعد میں لبنان میں ہونے والی جنگ کے حوالے سے تھوڑی بہت تشفی کردی تھی۔ لبنان میں حزب اللہ کے لیڈر حسن نصراللہ خاصے پریشان ہیں اور عرب دنیا میں کوئی اور نہیں جو کہہ سکے کہ اسرائیل کمزور پڑچکا ہے۔ ایک سال بعد ایک اسرائیلی میڈیا رپورٹر نے لکھا کہ جو کچھ بھی اسرائیلی فورسز نے غزہ میں کیا وہ 2006ء کی دوسری لبنانی جنگ میں اسرائیل کی ہزیمت کا مداوا تھا۔

نیویارک ٹائمز کے امورِ خارجہ کے ماہر ٹامس فریڈمین نے لکھا کہ اسرائیل نے بھرپور کامیابی کے ذریعے یہ ثابت کردیا کہ اُسے کمزور سمجھنا محض غلطی کے سوا کچھ نہیں۔ ٹامس فریڈمین کے خیال میں اسرائیل نے 2006ء میں بھی لبنان سے جنگ ہاری نہیں کیونکہ اس نے بہت بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان کے ذریعے یہ ثابت کردیا تھا کہ اسرائیل میں ردِّ جارحیت کی غیر معمولی صلاحیت و سکت موجود ہے۔ ٹامس فریڈمین کا کہنا تھا کہ جو کچھ اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں لبنان کو برداشت کرنا پڑا اُسے دیکھتے ہوئے لبنان کے عوام کا شدید مشتعل ہونا فطری امر ہے۔ ایسے میں اسرائیل کے خلاف کچھ بھی کرنے سے قبل حزب اللہ کے قائدین کئی بار سوچیں گے۔ ٹامس فریڈمین نے یہ بھی لکھا کہ اسرائیلی فورسز نے لبنان میں حزب اللہ کی طرح اب حماس کو بھی سبق سکھادیا ہے، اور اسرائیلی سرزمین پر حملے کرنے سے پہلے حماس کی قیادت کئی بار سوچے گی، کیونکہ اسرائیلی فورسز کی جوابی کارروائیوں میں حماس کے جنگجوئوں کے ساتھ ساتھ نہتے شہری بھی بڑی تعداد میں مارے گئے ہیں۔ یہی سب کچھ لبنان میں بھی ہوا تھا۔ سبق سکھانے کی غرض سے اسرائیل کے پاس شہریوں کو نشانہ بنانے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔ حزب اللہ نے اپنا ڈھانچا سیدھا ’’چپٹا‘‘ رکھا تھا، یعنی اس نے شہریوں کے درمیان اپنی موجودگی برقرار رکھی تھی۔ وہ شہریوں ہی سے بھرپور مدد بھی حاصل کرتی تھی۔ ایسے میں اسرائیل کے پاس حزب اللہ کے خلاف ردِّ جارحیت کا ایک ہی آپشن بچا تھا … یہ کہ شہریوں کو نشانہ بناکر زیادہ سے زیادہ جانی و مالی نقصان پہنچایا جائے، تاکہ شہریوں میں حزب اللہ کے خلاف جذبات پیدا ہوں اور وہ آئندہ اسرائیل کے خلاف کچھ بھی کرنے سے مجتنب رہے۔

اسرائیلی صحافیوں اور امریکی تجزیہ کاروں نے اسرائیلی فورسز کی کارروائیوں کو درست قرار دینے کے لیے جو کچھ بھی کہا اُس کے جواب میں ہیومن رائٹس واچ کا تجزیہ کچھ اور ہی تھا۔ اس نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ اسرائیلی فورسز کے پاس شہریوں کو نشانہ بنانے کا کوئی جواز نہ تھا۔ یہ بہانہ بے بنیاد تھا کہ حزب اللہ نے اپنے آپ کو شہریوں کے درمیان پروان چڑھایا ہے اور اسرائیلی فورسز پر حملوں کے لیے شہریوں کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ حزب اللہ کے جنگجوؤں نے اسرائیل پر حملوں کے لیے ایسے علاقوں میں ٹھکانے قائم کررکھے تھے جو قدرے کم آباد یا غیر آباد تھے۔ اگر اسرائیلی فورسز کو حزب اللہ اور حماس کے خلاف کوئی کارروائی کرنا ہی تھی تو اُن دور افتادہ ٹھکانوں پر بمباری یا گولا باری کے ذریعے کی جانی چاہیے تھی۔ ایسا نہیں کیا گیا اور بہت بڑی تعداد میں غیر متعلق اور نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ایک طرف ہلاکتیں بہت زیادہ تھیں اور دوسری طرف شہری بنیادی ڈھانچا بھی تباہ کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں جتنی بھی خرابیاں پیدا ہوسکتی تھیں وہ پیدا ہوئیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے لکھا کہ اسرائیل کے پاس لبنان میں شہریوں پر حملوں اور بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچانے کا کسی بھی اعتبار سے کوئی جواز نہ تھا، مگر اس کے باوجود یہ بات خبروں اور تجزیوں میں اچھالی گئی کہ حزب اللہ شہریوں کی مدد سے کام کرتی ہے اور انہیں استعمال کرتی ہے۔ حزب اللہ نے اپنا بنیادی ڈھانچا شہریوں سے بہت دور رکھا تھا۔ حزب اللہ کی قیادت نہیں چاہتی تھی کہ غیر متعلق اور نہتے شہریوں کا جانی و مالی نقصان ہو۔ اس حوالے سے اسرائیل کی طرف سے پیش کی جانے والی تمام وضاحتیں بے بنیاد ہیں جن میں حقیقت برائے نام بھی نہیں۔

اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ سے ہم آہنگی پر مبنی ایک رپورٹ یو ایس آرمی وار کالج کی طرف سے آئی۔ حزب اللہ نے لبنان میں اُن علاقوں میں بنائے ہوئے اپنے ٹھکانوں سے اسرائیل پر راکٹ اور میزائل برسائے جن میں کھیتی باڑی ہوتی ہے۔ حزب اللہ سے لڑنے والے متعدد اسرائیلی فوجیوں کے انٹرویوز پر مبنی رپورٹ سے ثابت ہوا کہ جو کچھ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا وہ بہت حد تک درست تھا۔ اس رپورٹ میں بھی یہی نکتہ بنیادی خیال کی حیثیت سے پیش کیا گیا کہ اسرائیلی فورسز نے بنیادی طور پر شہریوں کو نشانہ بنایا۔ جنگجوؤں کو ختم کرنے کے نام پر جو کچھ بھی کیا گیا اُس سے نہتے شہریوں کی ہلاکتیں واقع ہوئیں۔ یہ شہری کسی بھی اعتبار سے اسرائیل کے لیے یا اُس کی فورسز کے لیے خطرہ نہیں تھے۔

یو ایس آرمی وار کالج کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ حزب اللہ کے ٹھکانے ایسے غیر آباد علاقوں میں تھے جن میں عام شہری برائے نام تھے اور یہ بات اسرائیلی فوجیوں نے بھی بتائی کہ جن علاقوں سے حزب اللہ کے جنگجو حملے کرتے تھے اُن علاقوں میں جنگجوؤں اور عام شہریوں کا آپس میں ملنا بہت مشکل تھا اور ایسی مثالیں خال خال تھیں۔

حزب اللہ پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ اُس کے جنگجوؤں نے بعض مقامات پر اپنے آپ کو اور اپنے ٹھکانوں کو بچانے کے لیے عام شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔ یو ایس آرمی وار کالج کی رپورٹ کے مطابق یہ بات بھی سراسر بے بنیاد تھی۔ اس بات کا کوئی پختہ ثبوت نہیں ملا کہ حزب اللہ نے باضابطہ طور پر کہیں بھی شہریوں کو ڈھال بناکر بچ نکلنے کی کوشش کی ہو۔

ٹامس فریڈمین نے انتہائی بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ اسرائیلی فورسز نے حزب اللہ کے خلاف بہت بڑے پیمانے پر کارروائیاں اُسی وقت کیں جب اُس کے جنگجوؤں نے اسرائیلی شہریوں کو نشانہ بنایا۔ اس کے برعکس بہت سے اسرائیلی فوجی افسران نے گواہی دی تھی کہ حزب اللہ نے اسرائیلی شہریوں کو صرف اُس وقت نشانہ بنایا جب اُس کے جنگجوؤں کے حملوں کے جواب میں اسرائیلی فورسز نے غیر ضروری طور پر شدید ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے لبنان میں نہتے اور غیر متعلق و غیر متحارب شہریوں کو بڑے پیمانے پر موت کے گھاٹ اتارا۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے بارہا اِس عزم کا اعادہ کیا کہ حزب اللہ کے جنگجو اسرائیلی شہریوں کو اُسی وقت نشانہ بنائیں گے جب اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں لبنانی شہریوں کی ہلاکتیں واقع ہوں گی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مسلح کارروائیوں کے دوران شہریوں کو نشانہ بنانے کی مذموم عادات اسرائیل نے اختیار کی تھی، حزب اللہ نے نہیں۔

اسرائیل نے 2006ء میں حزب اللہ کے خلاف کارروائیوں کے نام پر لبنان میں شہریوں کو بہت بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا اور اُن کے لیے معاشی مشکلات بھی پیدا کیں۔ اس کے باوجود اسرائیلی فورسز مکمل فتح کا دعویٰ نہ کرسکیں کیونکہ حزب اللہ کی طرف سے اسرائیلی فورسز کو متعدد محاذوں پر شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اسرائیلی قیادت بھی اس بات کو سمجھتی تھی کہ نہتے شہریوں کو آسان ہدف کے طور پر نشانہ بنانے سے وہ کسی بھی طور توقیر کی مستحق نہیں ٹھیر سکتی تھی۔ اس نوعیت کی جوابی کارروائیوں کو ناپسند کرنے والے اسرائیل میں بھی تھے۔

غزہ کے نہتے شہریوں کے خلاف اسرائیلی فورسز جو کچھ کرتی آئی ہیں وہ انتہائی شرم ناک ہے۔ غزہ میں حماس کا سامنا کرنے میں اسرائیلی فورسز کو زیادہ مشکلات کا سامنا کبھی نہیں رہا مگر اس کے باوجود بڑے پیمانے پر شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا رہا ہے۔ حماس بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ اسرائیلی فورسز زیادہ سے زیادہ شہریوں کو نشانہ بنائیں گی اور یوں فلسطینی کاز کے حوالے سے کامیابی ملے گی۔ گِدین لیوی نے بھی تسلیم کیا کہ غزہ میں اسرائیلی فورسز کو ایک ایسے دشمن کا سامنا تھا جو انتہائی کمزور تھا اور بیشتر محاذوں سے پسپا ہوکر روپوش بھی ہوچکا تھا، اور یہ کہ اسرائیلی فورسز کے نشانے پر صرف نہتے اور غیر متحارب شہری رہ گئے تھے۔

نیویارک ٹائمز کے صفحات پر ٹامس فریڈمین کے تجزیوں میں غزہ اور لبنان میں اسرائیلی فورسز کی نہتے شہریوں کے خلاف کارروائیوں اور آپریشن کاسٹ لیڈ کو درست ٹھیرانے کی کوششیں بعض مقامات پر ریاستی دہشت گردی کے لیے معذرت خواہانہ رویّے تک جا پہنچیں۔ 1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے بیشتر کامیابیاں محاذ پر حاصل کی تھیں۔ تب اسرائیلی فورسز نے شہریوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا تھا۔ وہ فتوحات ہر اعتبار سے باجواز تھیں۔ اسرائیلی فورسز نے دشمن کا مقابلہ جنگ کے محاذ پر کیا تھا۔ غیر معمولی طاقت استعمال کرنے کے باوجود تب اسرائیلی فورسز نے شہریوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا تھا اور اس حوالے سے اس قدر احتیاط برتی تھی کہ مخالفین بھی اس حوالے سے کوئی الزام عائد کرنے کے قابل نہیں ہو پائے تھے۔

بعد میں اسرائیلی فورسز کا کلیدی نظریہ بدل گیا۔ پھر حکمتِ عملی یہ ٹھیری کہ دشمن کو کمزور کرنے کے لیے اُس سے زیادہ نقصان غیر متحارب شہریوں کو پہنچاؤ تاکہ عوام میں دشمن کی بنیادیں کمزور پڑیں اور اسرائیل سے کسی بھی نوعیت کی مخاصمت مول لینے سے گریز کی ذہنیت پروان چڑھے۔

اسرائیلی فورسزنے غزہ کے شہریوں کے خلاف شدید سفاکی کا مظاہرہ اس لیے بھی کیا ہے کہ اسرائیلی فوج اب محاذِ جنگ پر کچھ زیادہ مزاحمت کے حق میں نہیں۔ روایتی جنگ میں اُسے غیر معمولی نقصان پہنچنے کا خدشہ لاحق ہے۔ ایسے میں نہتے شہریوں کو نشانہ بناکر دشمن کو کمزور کرنے کے سوا کوئی آپشن دکھائی نہیں دے رہا۔ نہتے شہریوں کو نشانہ بنانے کی ذہنیت نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ اسرائیلی فورسز جنگ کے میدان میں غیر معمولی مزاحمت برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ شہریوں کو ہلاک کرکے حاصل کی جانے والی نام نہاد فتح کا جشن منانے کی بے شرمی سے اسرائیل کے دانشوروں اور بہت حد تک عوام نے بھی اپنے آپ کو دور رکھا ہے۔ یہ اسرائیلی فوج کے لیے ایک بڑا بحران ہے۔ (جاری ہے)